غیبت سے بچنے کی تلقین
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الحجرات آیت ۱۳)ہمارے معاشرے میں بعض برائیاں ایسی ہیں جو بظاہر بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کے اثرات پورے معاشرے پر ہورہے ہوتے ہیں۔ اور ایک فساد برپا ہوا ہوتاہے۔ انہی برائیوں میں سے بعض کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ ترجمہ ہے اس کا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس میں تین باتوں کا ذکر ہے لیکن اصل میں تو پہلی دو باتوں کی ہی مناہی کی گئی ہے۔ تیسری برائی یعنی غیبت میں ہی دونوں آ جاتی ہیں۔ کیونکہ ظن ہوتاہے تو تجسس ہوتاہے اس کے بعد غیبت ہوتی ہے۔ تو اس آیت میں یہ فرمایاکہ غیبت جو ہے یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی، سخت دل سے سخت دل شخص بھی، کبھی یہ گوارا نہیں کرتاکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ اس تصور سے ہی ابکائی آنے لگتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے۔
ایک حدیث ہے، قیس روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ آپ کا ایک مردہ خچر کے پاس سے گزر ہوا جس کا پیٹ پھول چکاتھا (مرے ہونے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتاہے، کافی دیر سے پڑا تھا)۔ آپ نے کہا بخدا تم میں سے اگر کوئی یہ مردار پیٹ بھر کر کھالے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کا گوشت کھائے۔ (یعنی غیبت کرے یا چغلی کرے) تو بعض نازک طبائع ہوتی ہیں۔ اس طرح مرے ہوئے جانور کو، جس کا پیٹ پھول چکاہو، اس میں سے سخت بدبو آرہی ہو، تعفن پیدا ہو رہاہو، اس کو بعض طبیعتیں دیکھ بھی نہیں سکتیں، کجا یہ کہ اس کا گوشت کھایاجائے۔ لیکن ایسی ہی بظاہر حساس طبیعتیں جو مردہ جانور کو تو نہیں دیکھ سکتیں، اس کی بدبو بھی برداشت نہیں کر سکتیں، قریب سے گزر بھی نہیں سکتیں، لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر غیبت اور چغلیاں اس طرح کررہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ تویہ بڑے خوف کامقام ہے، ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍فروری۲۰۰۴ء)