نبی کا جو بھی حکم ہوگا معروف ہی ہوگا
یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتاہے کیا وہ بھی ایسے احکامات دے سکتاہے جو غیر معروف ہوں۔ اور اگر نبی کر سکتاہے تو ظاہر ہے پھر خلفاء کے لئے بھی یہی ہوگا کہ وہ بھی ایسے احکامات دے سکتے ہیں جو غیر معروف ہوں۔ اس بارہ میں واضح ہو کہ نبی کبھی ایسے احکامات دے ہی نہیں سکتا۔ نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا۔ اس کے علاوہ سوال ہی نہیں کہ کچھ کہے۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ اللہ اور رسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے، انہیں بجا لاناہے۔ کہیں نہیں لکھاکہ جو معروف حکم ہوں اس کی اطاعت کرنی ہے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ دو مختلف حکم کیوں ہیں۔ یہ اصل میں دو مختلف حکم نہیں ہیں ، سمجھنے میں غلطی ہے۔ جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ نبی کا جو بھی حکم ہوگا معروف ہی ہوگا۔ اور نبی کبھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف، شریعت کے احکامات کے خلاف کرہی نہیں سکتا۔ وہ تو اسی کام پر مامور کیاگیاہے۔ توجس کام کے لئے مامور کیاگیاہے، اس کے خلاف کیسے چل سکتاہے۔ یہ تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ تم نے نبی کو مان کر، مامور کو مان کر، اس کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیاہے، تم محفوظ ہو گئے ہو۔ کہ تمہارے لئے اب کوئی غیر معروف حکم ہے ہی نہیں۔ جو بھی حکم ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے۔ یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بھی آیا ہے وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ(الممتحنۃ:۱۳) اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔ اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے۔ اس میں ایک سرّ ہے۔ میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں۔ میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھوکہ نہ لگ جائے۔‘‘(خطبہ عید الفطر فرمودہ ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۰۹ء۔ خطبات نور صفحہ۴۲۰۔ ۴۲۱)
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ستمبر۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۶؍نومبر۲۰۰۳ء)