احمدی بچے ہالووین نہیں مناتے!
امی جان! دو دن بعد ہمارے سکول میں ہالووین پارٹی ہے! فاتح سکول بیگ ریک میں رکھتے ہوئے بولا۔
فارس: لیکن ہم احمدی مسلمان بچے تو ہالووین نہیں مناتے۔ اور پیارے آقانے بھی احمدی بچوں کو اس سے بچنے کا کہا ہے۔
فاتح: امی جان فارس بھائی کیا صحیح کہہ رہے ہیں؟ پیارے حضور نے ہمیں ہالووین میں شرکت سے منع کیا ہے؟
امی جان: جی ہاں! پیارے حضور نے اس رسم کو منانے سے منع فرمایاہے۔ پہلی بات تو یاد رکھیں کہ یہ کوئی اسلامی تہوار تو ہے نہیں۔ دوسرا یہ مغرب کے ایک خاص عقیدہ کے تناظرمیں منایا جاتا ہے۔
فارس: امی جان یہ کونسا عقیدہ ہے؟
امی جان : حضور انور نے بتایا تھا کہ یہ رسم یا یہ بدعت آئرش اِزم کی وجہ سے آئی ہےجوپرانے زمانے کےمشرکانہ مذاہب میں رائج تھی۔ اس کی بنیاد شیطانوں اور چڑیلوں کے نظریات پر ہےاور پھر عیسائیت نے اس کو اپنا لیا۔
فاتح: لیکن آپ نے تو بتایا تھا کہ جنّ اور چڑیلیں نہیں ہوتیں۔ اور میں ڈرتا بھی نہیں !
امی جان: شاباش! احمدی بچوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ ہالووین کی بنیاد ہی غلط ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان کی حدود 31؍اکتوبر کو ختم ہو جاتی ہیں۔ مردے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہیں اور زندوں کے لیے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں مشہور ہیں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لیے ان کے نام نہاد جادوگروں کو بلایا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کی قربانی کرتے ہیں۔ bonfireکرتے ہیں کہ ان مُردہ روحوں کو خوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کر خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر ڈرانے کے لیے costumeاور خاص قسم کے لباس اور ماسک وغیرہ پہنے جاتے ہیں۔
فاتح: اسی لیے ہماری ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ یہ تو ایک فیسٹیول ہے۔ ہم funکریں گے بس!
امی جان: بیٹا اگر کوئی مذاق میں گالی دے یا بری بات کرے تو آپ کو وہ بری لگے گی ناں! اسی طرح پیارے حضور نے فرمایا تھا کہ یہ ایک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے۔ احمدی بھی بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں، عموماً اس کو funسمجھا جاتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا۔ تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہی سمجھا جائے جس کی بنیاد شرک یا کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں ہو اس سے احمدیوں کو بچنا چاہیے۔
تو کیا میں چاکلیٹ لینے بھی نہیں جاسکتا؟فاتح نے پوچھا۔
نہیں! امی جان نے دو ٹوک کہا۔ حضور نے فرمایا تھا کہ یہ چھپی ہوئی برائی ہے ۔یہ ایک احمدی بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ ایک شرک ہے یعنی اللہ کے بجائے چاکلیٹ دے کر بچ جائیں گے۔ گھروں میں فقیروں کی طرح مانگتے پھریں۔ چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے یا چاکلیٹ لینے جا رہے تھے لیکن یہ مانگنا بھی غلط ہے۔
فارس: لیکن امی جان ہم اطفال سے چندہ مانگنے بھی جاتے ہیں اور پھر کپڑے اور راشن بھی تو مانگتےہیں۔
امی جان: جی بیٹا بالکل چندہ مانگنا اور اطفال کا چندہ دینا یا کپڑے راشن دینا خوشی سے ہوتا ہے کسی سے ڈر یا خوف سے نہیں دیا جاتا۔ اس سے اللہ کی راہ میں خرچ کی عادت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ تفریح نہیں ہوتی۔ حضور نے ایک سروے کا ذکر فرمایاتھا کہ اس کی وجہ سے بچوں میں تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کی جرأت پیدا ہورہی ہے۔ ماں باپ ، ہمسایوں اور اپنے بڑوں سے بداخلاقی سے پیش آنے کا رجحان بھی اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔بڑے بچے پھر costumeپہن کر زبردستی گھروالوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات جرموں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ بچوں میں تفریح کے نام پر دوسروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے سے جرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔ تفریح کے نام پر بڑے encourageکرنا شروع کر دیں تو پورے معاشرے میں پھربگاڑ ہی پیدا ہو گا۔
فاتح: ہم اس دن کیا کریں پھر!
امی جان: ہم اس دن گھر میں بیکنگ کرلیں گے پھر!
ہماری پسند کا چاکلیٹ کیک بنایئے گا! فاتح نے آئیڈیا پیش کیا۔
امی جان: جی ٹھیک! ابھی تو دوپہر کا کھانا کھالیں!