کتب مینار: (قسط ۴۱) قدامت روح و مادہ اور تناسخ (مصنفہ حضرت منشی برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ)
۱۹۰۰ء کے لگ بھگ حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے دعویٰ سے متعارف ہوکر بعد تحقیق اور دعا بیعت کی سعادت پانے والے حضرت منشی برکت علی صاحبؓ۱۸۷۲ء میں ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔بعد حصول تعلیم ۱۸۹۳ء میں دفتر ڈائریکٹر انڈین میڈیکل سروس میں کام شروع کیا اور ۱۹۳۲ء میں یہیں سے پنشن پائی۔ جنگ عظیم اول کے دوران آپؓ کی خدمات کے پیش نظر آپؓ کو ’’خان صاحب‘‘کا خطاب عطا ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپؓ قادیان منتقل ہوگئے۔۷؍اگست ۱۹۵۸ء کو راولپنڈی ,پاکستان میں آپؓ کی وفات ہوئی۔
آپ کی زیر نظر کتاب ۱۹۱۱ء بمطابق ۱۳۲۹ہجری میں مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور سے شائع ہو کر سامنے آئی اوراس کی قیمت چار آنے مقرر ہوئی۔ تب منشی صاحب موصوف انجمن احمدیہ شملہ کے سیکرٹری تھے۔
۳۰؍اکتوبر ۱۹۱۱ء میں لکھے گئے کتاب کے تعارف میں جو کتاب کے صفحہ نمبر ۲ پرموجود ہے، مصنف بتاتے ہیں کہ اگست ۱۹۰۴ء میں آریہ سماج شملہ کی گھاس پارٹی نے ایک رقعہ ہمیں اس مضمون کا لکھا کہ ہم تم سے بعض اختلافی مسائل میں دوستانہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ گو بعض احباب نے اس خیال سے کہ آریہ لوگ عموماً منہ زور ہوتے ہیں اور جب انہیں جواب نہ سوجھے تو بدزبانی پر اتر آتے ہیں اس دعوت کے قبول کرنے میں تردّد کیا، مگر جب دیکھا کہ چند ایک دوست بہت شوق رکھتے ہیں اور مستعد ہیں کہ ان کے دلائل کا پبلک کے سامنے قلع قمع کر کے دکھائیں بالاتفاق اسے منظور کر لیا۔
سب سے پہلا مضمون قدامت روح و مادہ تھا۔ جس کو ایک احمدی بھائی نے شروع کیا اور قرآن مجید سے چھ منطقی دلائل دے کر ثابت کیا کہ روح اور مادہ ازلی و ابدی نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ اس کا جواب تو کیا ہو سکتا تھا مگر ایک آریہ کلمہ طیبہ کے الٹ پلٹ معنی کر کے اناپ شناپ بکنے لگا۔ اس پر ایک غیر احمدی مسلمان کو طیش آگیا چنانچہ اس نے اٹھ کر کہا کہ یہ تہذیب سے بعید ہے۔اگر تمہیں جواب نہیں آتا تو خاموش ہو رہو۔ فضول اور بےہودہ بکواس اچھی نہیں اگر زیادہ بولے تو اچھا نہیں ہوگا۔بمشکل اس جھگڑے کو فرو کر کے بحث کو شروع کیا گیا۔ اس جھگڑے سے الحمدللہ اتنا فائدہ تو ضرور ہو گیا کہ آئندہ کے لیے آریوں نے قدرے نرمی اختیار کر لی۔ اور قریباً چار ماہ تک سلسلہ بحث قائم رہا۔ اس عرصہ میں دو چار مضامین پر طبع آزمائیاں ہوئیں۔ جن میں تناسخ اور گوشت خوری کو خاص طور پر میں نے اپنے ذمے لیا… میں اور دوستوں کے خلاف اپنی ابتدائی تقریریں قلم بند کر لیتا تھا جس سے میرے پاس ایک ذخیرہ تحریر کا ہو گیا یہ تحریریں میرے پاس تب ہی سے پڑی ہوئی ہیں…اس خیال سے کہ دوہرا مضمون بھی محفوظ ہو جائے اور ممکن ہے کہ کسی کو اس سے فائدہ پہنچے میں اس کو شائع کرا دیتا ہوں اور اس میں تھوڑا سا حصہ روح اور مادہ کے ازلی ہونے کے متعلق ہے مگر زیادہ تر بحث تناسخ کی ہے اصل میں بحث تو قدامت روح اور مادہ سے شروع ہوئی تھی مگر بعد میں وہ تناسخ پر جا پڑی۔ اور اسی پر جرح و قدح ہوتی رہی۔ میں اس مضمون مذکور کو من و عن جیسا آریوں کے جلسے میں پڑھا گیا پبلک کے سامنے پیش کرتا ہوں جس سے ناظرین کو علاوہ عقلی و نقلی دلائل کے جو پیش کیے گئے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح آریہ لوگ جب اُن کے پاس کوئی جواب نہ ہو تو شاخوں میں پڑ کر اصل مضمون کو گم کر دیتے ہیں۔
میں نے اپنی دوسری تقریر میں ماسٹر آتما رام صاحب کے آٹھ دلائل میں سے چار کو عمداً چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ مضمون زیر بحث کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تھے۔ مگر میں نے مناسب سمجھا ہے کہ ان کے جوابات کو رسالہ ہذا میں بطور ضمیمہ شامل کر دیا جائے تاکہ اول تو رسالہ مکمل ہو جائے اور دوم ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ عقائد اسلام پر جو آریہ لوگ بعض اعتراضات کر دیتے ہیں وہ محض لاعلمی اور کوتاہ اندیشی پر مبنی ہوتے ہیں ۔
اس کتاب کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ تقریر اول میں عقیدہ تناسخ اور تناسخ کو ماننے والی اقوام، تناسخ کی اقسام اور تناسخ کی بنیاد پر بحث ہے پھر آریہ سماج والوں کی اصطلاح چکر،جنم،پہلے کرم اور مکتی وغیرہ پر بحث ہے۔ اس کے بعد ’’معصوم پیدائش‘‘کے متعلق لکھا گیا ہے نیز مخالف کے ردّ میں بعض موسموں میں خاص قسم کے جانوروں کا یکدم پیدا ہو جانا زیر بحث لایا گیا ہے اور تناسخ کو ہی رد کرتے ہوئے بعض حیوانوں کا دنیا سے معدوم ہو جانا بتایا گیا ہے۔
اس کتاب میں آگے چل کر فاضل مصنف نے انسانی خواہش اور خدا کی ضرورت اور انسان پہلے تھا یا دیگر کائنات پہلے تھی ؟ پر بات کی ہے اور مزید دلیل دیتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا روح کو ایک جسم چھوڑ کر دوسرے جسم میں جانے کا علم ہوتا ہے یا نہیں ؟
مصنف نے دلائل سے مرصع اس کتاب میں آگے چل کر دنیا میں پائے جانے والے تفرقہ اور اختلافات کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے راحت دنیا اور حقیقی راحت غریبی اور امیری اور جسمانی نقائص پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اپنے دلائل کا نتیجہ پیش کرتے ہوئے آسان الفاظ میں اسلام کے اصولوں کی روشن سچائی سب پر کھولی ہے۔
کتاب میں آگے بڑھتے ہوئے صفحہ ۳۷ پر روح اور مادہ کی ازلیت پر بحث ہے۔
اس کتاب کے صفحہ ۴۸ پر تقریر دوم میں تناسخ پر بحث کی گئی ہے جس میں اولاً اُن لوگوں کا ذکر ہے جو بیدار مغز اور عقل و فہم رکھتے ہیں اور وہ تناسخ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
پھر آگے چل کر صفحہ ۵۰ پر سوال اٹھا یا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح کہاں جائے گی؟ اور روحیں کہاں قرار پاتی ہیں؟
صفحہ ۵۱ پر تناسخ کی سادہ الفاظ میں تعریف کرتے ہوئے کائنات میں پائے جانے والے اختلاف، انسانی تفرقہ، جزا و سزا، دعوت الی الخیر اور دعوت الی الشر پر بات کی گئی ہے۔
غرض اس کتاب میں عقیدہ تناسخ پر سیر حاصل بات کرتے ہوئے انسانی آبادی کے بڑھنے، انسانوں کے مزعومہ گذشتہ جنم کے افعال اوران کے اثرات، دنیا میں قائم قانونِ تدریج پر بات کرتے ہوئے دنیا کی نعمتوں کو تیاگنے کے خلاف عقلی پہلوؤں سے بات کی گئی ہے۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیدا کردہ مضبوط اور مدلل علم الکلام کی زندگی بخش روشنی سے راہ پکڑ کر جماعت احمدیہ کے افراد نے روز اول سے ہی غلط نظریات، فاسد خیالات اور بودے عقائد کا قلع قمع کرنے کا جو کامیاب سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ کتاب اسی سلسلہ کی ایک نظیر ہے۔