کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیّاً اَرَدْتُّ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ (حدیث قدسی)
مذہب کا مقصد انسان کو اللہ کے قریب کرنا ہے۔تمام انبیاء اسی مقصد کے لیے دنیا میں آتے رہے۔لیکن خدا کے قرب کی جو راہیں آنحضورﷺ نے دکھائیں، وہ دنیا کے کسی نبی پہ ظاہر نہ ہوئیں۔قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہےکہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے رنگ میں رنگین ہوجاؤ۔فرمایا: صِبْغَةَ اللّٰهِ ۖوَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً (البقرۃ:۱۳۹)کہ اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس سے بہتر کس کا رنگ ہوگا۔ اللہ کے رنگ سے مراد دراصل اُس کی صفات ہیں۔ یعنی اللہ کی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔گذشتہ انبیاء بھی یہی تعلیم دیتے رہے۔اسی طرف بائبل میں اشارہ ہے کہ ’’ خدا نے انسان کو اپنی صورت پہ پیدا کیا۔‘‘ (پیدائش،باب۱،آیت ۲۷)
آنحضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ و جَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلیٰ صُورَتِہِ ( مسند احمد بن حنبل جلد۳، صفحہ ۳۲۳، حدیقۃ الصالحین صفحہ۴۰)کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا۔چونکہ اللہ کا کوئی جسم نہیں ہے، لہٰذا اس سے مراد کوئی جسمانی صورت تو نہیں ہو سکتی۔ پھر اس صورت سے کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم: ۳۱)یہ اللہ کی فطرت، یعنی اس کی صفات ہیں، جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔ایک اور آیت میں فرمایا: وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ (الاعراف:۱۲)کہ ہم نے تم کو پیدا کیا۔ پھر تمہیں ایک اور صورت عطا کی۔ پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ اس آدم کو سجدہ کرو، یعنی اس کی اطاعت کرو۔ سب نے اطاعت کی سوائے ابلیس کے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بشر کی دو قسم کی پیدائش بیان ہوئی ہے۔ ایک بشری یعنی جسمانی اور دوسری رُوحانی۔ جسمانی پیدائش کے بارے میں فرمایا کہ وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ہم نے تمہارا جسم بنایا۔ پھر فرمایا ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ پھر ہم نے تمہاری ایک رُوحانی صورت بنائی۔
صورت کے معنی عربی میں صفت اور وصف کے بھی ہوتے ہیں۔لہٰذا اس آیت میں انسانی تخلیق کے بعد جو ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ فرمایا اس صورت سے مراد دراصل اخلاقِ الٰہیہ اور صفات الٰہیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نےانسان کی جسمانی شکل بنا کر اس کی فطرت میں یہ خاصیّت رکھ دی کہ انسان رُوحانی ترقی کرتے ہوئے اللہ کی صفات کو اپنا کر،خدا کا مظہر بن سکتا ہے۔اور یہی آدم کی پیدائش کا مقصد تھا۔جسمانی طور پہ انسان تو بہت ہیں۔ لیکن حقیقی طور پہ آدم کہلانے کا مستحق وہی ہے جس کے اخلاق، اللہ کی صفات کے مطابق ہوجائیں۔اب جو کوئی اس صلاحیت کو بروئے کار لاکر صفات الٰہیہ کامظہر بنتا ہے تو ہم فرشتوں کو کہتے ہیں کہ اس بندے کی اطاعت کرو اور اس کی مدد کے سامان کرو۔
پس آدم سے مراد پہلا بشر نہیں بلکہ وہ ہر وہ انسان کامل ہے جس کے ذریعہ صفات الٰہیہ کا ظہور ہو۔اور یہی وہ ممتاز وجود ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بطور انبیاء و خلفاء کے چن لیتا ہے۔لہٰذا ہر دَور کا نبی اور خلیفہ اپنے دَور کا آدم ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر تجلّیاتِ الٰہی کے کامل مظہر حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ ہیں۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ میں مخفی خزانہ تھا۔ اور اپنی پہچان کے لیے میں نے آدم کو پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری صفات کا مظہر بن جائے۔ دُنیا دار لوگ جب بھی مجھے اپنی بدیوں سےچھپانے کی کوشش کریں گے،تو میں ایسے وجود پیدا کرتا رہوں گا جن کے ذریعہ میری صفات ظاہر ہوں گی۔ اور وہ میری ہستی کا ثبوت ہوں گے۔میں ان کے ذریعہ اپنا چہرہ دکھلاؤں گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دو چیزوں کو آپس میں ملانے کے لیے کوئی نہ کوئی مشابہت ہونی ضروری ہے۔مثلاً لوہا اور لکڑی دونوں ٹھوس ہیں لہٰذا ان کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن لکڑی کو پانی یا ہوا کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ اسی طرح آپس میں تعلق قائم ہونے سےایک چیز دوسری چیز کی صفات حاصل کر لیتی ہے۔ جیسے لوہے کو مقناطیس کے ساتھ ملائیں تو لوہے میں بھی مقناطیس کی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس میں آگ کی صفات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے کہ لوہا آگ کا ایسا رنگ اختیار کر لیتا ہے کہ لوہے کے ٹکڑے اور آگ کے انگارے میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود لوہے کو آگ نہیں کہا جاسکتا۔اسی طرح انسان اللہ کے جتنا قریب ہوتا ہے، اتنا ہی اس سےاللہ کی صفات کا ظہور ہوتاہے۔اللہ غفور ہے، وہ بھی دوسروں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ اللہ ستّار ہے، وہ بھی لوگوں کی ستّاری کرتا ہے۔غرض اس کا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے۔تو معلوم ہوا کہ قول و فعل میں اللہ کی صفات کی نقل کرنے کا نام اخلاقِ حسنہ یا نیکی ہے اور ان صفات کی خلاف ورزی کا نام اخلاقِ سیّئہ یا بدی ہے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نیکی کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں:’’اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جتنا…کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرتا چلا جائے گا، اُتنا ہی وہ اعلیٰ اخلاق کا حامل ہوگا۔اور اسی نسبت سے اسے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوگا۔ گویا اسلام نیکی اور بدی کی تعریف…اور اعلیٰ اخلاق کی بنیاد صفات الٰہیہ کے انعکاس پر رکھتا ہے‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۷، صفحہ ۱۰، سورۃ الشعراء)…’’پس اسلام کے نزدیک حقیقی خوبی وہ ہے جو حسنِ ازلی کے نقشہ میں ہو اور گناہ یا عیب ہر اُس فعل کا نام ہے جو صفات الٰہیہ کے منافی ہو۔ چونکہ انسان کو خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی طاقت دی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لوکہ خدا اصل ہے اور انسان اُس کی تصویر ہے۔ اس لئے تصویر کا حُسن اِسی میں ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو۔ اور اُس کا عیب یہ ہے کہ وہ اصل کے خلاف ہو۔ پس انسان جو بھی ایسا عمل کرتا ہے جو اُسے خدا کی صفات کے موافق بناتا ہے، وہ نیکی ہے۔اور جو عمل اُسے خدا کی صفات سے دُور لے جاتا ہے وہ بدی ہے۔‘‘( تفسیر کبیر جلد ۷، صفحہ ۱۴، سورۃ الشعراء)
معلوم ہوا کہ اخلاق یا نیکی دراصل صفات الٰہیہ کا ہی دوسرا نام ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ جب میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوجاتا ہے۔میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں، جن سے وہ سنتا ہے۔ میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ میں اس کےہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ (بخاری کتاب الرقاق باب التواضع)گویا وہ خدا کی ایک تصویر بن جاتا ہے۔
چنانچہ آنحضورﷺ کی اپنی یہی کیفیت تھی جس کی گواہی قرآن کریم سے ملتی ہے کہ آپؐ بیعت لینے کے لیے مومنوں کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ( الفتح : ۱۱) کہ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھ کے اوپر( تیرا نہیں ) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر آپؐ بدر کے میدان میں کفّار کی طرف کنکریوں کی مُٹھی پھینکتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمَىٰ(الانفال:۱۸) کہ اے نبی ! یہ کنکریاں تو نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کےہر فعل کو اپنا فعل قرار دیا۔یہ محبت کی انتہا ہے، جس میں عاشق اور معشوق اپنے آپ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھتے۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام محبتِ الٰہی میں سرشار ہو کر فرماتے ہیں:
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارونزار
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
کہ سنو! میں خدا کا ہو چکا ہوں۔سر سے پاؤں تک میرے وجود کا ذرّہ ذرّہ خدا کی مرضی کے تابع ہے۔ اب میں اس مقام پہ ہوں جہاں خدا کے فرشتے میرے دوستوں کے دوست اور میرے دشمنوں کے دشمن ہو چکے ہیں۔ جو مجھ پہ وار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ ہوش کرے، کیونکہ یہ وار مجھ پہ نہیں، مجھے بھیجنے والے خدا پر ہوگا۔ یہ آپؑ کا محض دعویٰ نہیں تھا بلکہ خدا نے الہاماً اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ واِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَک۔ کہ میں اس کی مدد کروں گا جو تیری مدد کرے گا اور اس کو رُسو اکردوں گا جو تیری رُسوا ئی کا ارادہ کرے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب ایسے لوگ خدا کے ہوجاتے ہیں تو خدا ان کا ہوجاتا ہے۔ وہ توحیدِ الٰہی کی رکھوالی کرتے ہیں اور خُدا اُن کی رکھوالی کرتا ہے۔ اُن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں،اللہ کے فرشتے حفاظت کر رہے ہوتےہیں۔جیسے آنحضورﷺ کے وجودِمبارک سے جب خدا کی تجلّی کا ظہور ہوا تو آپؐ کی مدد پہ خدا کے فرشتے مامور کر دیے گئے۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَمِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ(الرّعد: ۱۲)۔ کہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
صفات الٰہیہ سے بڑھ کر کوئی اخلاقِ حسنہ نہیں اور اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں۔ آنحضورﷺ فرماتے ہیں کہ مَا مِنْ شَیْءٍ اَثْقَلُ فِی الْمِیْزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلْقِ(ابوداؤد)کہ خدا کے نزدیک کوئی چیز حسنِ خُلق سے زیادہ وزن نہیں رکھتی۔گویا خدا کے نزدیک کسی دین کے اچھے یا بُرے ہونے کا پیمانہ اس کے اخلاق ہیں۔اور حضورؐکی فطرت ہی ایسی تھی جس میں تمام اخلاقی صلاحیتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھیں، خدا نے فرمایا کہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۵) اے نبیؐ! تُو اخلاقِ عظیم پر قائم ہے۔تیرے اعلیٰ اخلاق کا دائرہ انسانی تصوّر سے باہر ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو پوری انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ (الاحزاب:۲۲) کہ تم میں سے بھی جو اللہ سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے وہ محمد رسول اللہﷺکا نمونہ اپنائے۔ نیز آپﷺ کو فرمایا: قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: ۳۲)کہ اے نبی ! انہیں بتا دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اسی لیے آپؐ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ۔ ( سنن الکبریٰ کتاب جز ۱۹۱)۔ میرے اندر مکارمِ اخلاق کی تکمیل ہو چکی ہے۔اور اب مجھے دنیا کے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ میں یہی خزانہ دُنیا میں تقسیم کرنے آیا ہوں۔میں تمہیں اللہ کے نُور کے وہ پہلو بھی دکھاؤں گا جو اس سے قبل کوئی نبی نہیں دکھا سکا۔ میری پیروی کرو گے تو تم میں خدا کی صفات کا نُور چمکے گا۔تم خدا کی تصویر اور اس کی پہچان بن جاؤ گے۔ تم خدا کے کان، اس کی آنکھیں، اس کی زبان اور اس کے ہاتھ قرار پاؤ گے۔ میں تمہیں وحشی سے انسان اور انسان سے باخدا انسان بناؤں گا۔ اگر تم یہ کرو گے تو وہ خدا جو مجھ سے محبت کرتا ہے، جس کے فرشتے میری مدد اور حفاظت کرتے ہیں، وہ تم سے بھی محبت کرے گا۔ اُس کے فرشتے تمہارےبھی محافظ ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے۔ تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔ تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اسے دیکھے گا اور اُس کے منصوبے کو توڑے گا۔ تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں… ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے…؟ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارامددگار ہے۔ تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱-۲۲)
یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ اگر سب انبیاء اللہ کی صفات کے مظہر تھے توپہلے انبیاء اور حضرت خاتم الانبیاءﷺ پہ خدا تعالیٰ کی تجلّی کے اظہار میں کیا فرق ہے؟ حدیث قدسی ہے اَنَا عِنْدَظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ (بخاری، کتاب التوحید)یعنی میرابندہ میرے بارے میں جیساگمان کرتا ہے میں اس کے لیے ویسا ہی ہو جاتا ہوں۔انسان محدود ہے اور اللہ کی ذات غیر محدود ہے۔پھر ایک انسان میں اللہ کی صفات کیسے آسکتی ہیں ؟یہ حدیث بتاتی ہے کہ جتنا کسی کے اخلاقی دائرے کا برتن ہوتا ہے، اتنا ہی اس میں اللہ کا نور آئے گا۔ پس ہر نبی پر اللہ تعالیٰ اُس کی حیثیت اور ظرف کے مطابق ظاہر ہوا۔ آنحضورﷺ کے اخلاق کا ظرف سب سے بڑھ کر تھا۔لہٰذا آپؐ پر اللہ نے سب سے بڑھ کر تجلی فرمائی اور آپؐ کو ایسی تعلیم پر مبنی کامل شریعت عطا فرمائی جس پر عمل کر کے انسان سب امّتوں سے بڑھ کر صفات الٰہی کا مظہر بن سکتا تھا۔ یہ تعلیم ایک ایسی امانت تھی جس کا حق صرف اور صرف آنحضورﷺ ہی ادا کر سکتے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا۔ (الاحزاب:۷۳) کہ ہم نے تجلیات الٰہیہ پرمبنی اس تعلیم کو زمین و آسمان کی ہر چیزپہ پیش کر کے دیکھا اور پہاڑوں پر بھی لیکن کسی کو بھی اس کا حامل بننے کے قابل نہ پایا۔ سب اپنے نفس کو اس قدر کنٹرول کرنے سےگھبرا گئے۔ ایک ہی انسان کامل تھا جواس امانت کا بوجھ اُٹھانے کے قابل تھا، کیونکہ وہ اپنے نفس کو پوری طرح قابو میں رکھ سکتا تھا۔نیز فرمایا کہ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ(الحشر:۲۲) کہ اگر ہم اس تعلیم کو کسی پہاڑ پہ بھی نازل کرتے تو وہ بھی خشیّت سے ٹکڑے ٹکڑےہوجاتا۔یہی وہ تجلی تھی جس کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے عرض کی تھی کہ رَ بِّ اَرِنِی اَنْظُرُ اِلَیْکَ کہ اے اللہ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔حالانکہ حضرت موسیٰؑ پر تو خدا تجلی فرما چکا تھا۔ کوہ ِ طوُر پہ نُورِ خداوندی کا نظارہ دیکھنے کے بعد پھریہ مطالبہ کیوں کیا ؟ در اصل حضرت موسیٰ ؑ خدا کی وہ مکمل تجلی دیکھنا چاہتے تھے،جومحمد مصطفیٰﷺ پر ظاہر ہونی تھی۔اللہ نے فرمایا لَنْ ترَانِی اے موسیٰ! تو میری اُس تجلی کو برداشت نہیں کر سکتا۔حضرت موسیٰ ؑنے اصرار کیا توخدا نے اپنی اس تجلی کی ذرا سی جھلک ہی دکھلائی تھی حضرت موسیٰؑ بے ہوش ہو کے گر پڑے۔یہی وہ تجلی تھی جس کے بارے میں حضرت عیسیٰؑ نے بھی اعتراف کیا کہ’’مجھے تم سے اور بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے۔لیکن وہ یعنی رُوح ِحق آئےگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھلائے گا ‘‘ (یوحنّا باب ۱۶، آیت ۱۲-۱۳)
حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں تم خدا کی مکمل تجلّیات کی برداشت نہیں کر سکتے۔ایک اور رُوحِ حق یعنی ایک عظیم الشان نبی آئے گا جو اُن تمام تجلّیات ِالٰہیہ کا مکمل مظہر ہو گا جو کسی انسان میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔پس نورِ خدا وندی کی وہ تجلّیات جن کو زمین وآسمان کی کوئی چیز برداشت نہ کر سکی،جن سے پہاڑ بھی ڈر گئے۔ جو نظارہ حضرت موسیٰؑ برداشت نہ کر سکے اور حضرت عیسیٰؑ نےبھی اس کی برداشت سے عاجز ہونے کا اعتراف کیا۔ یہ وہ نُور الٰہی اور صفات الٰہی کا خزانہ تھا جو محمد مصطفیٰﷺ کے دل پر اُترا،اور آپؐ کا دل گویا ربِّ عظیم کی جلوہ گاہ اور اس کا عرش بن گیا۔ خدا تعالیٰ کی اِس عظیم تجلی نے آپﷺ کوتمام انبیاء و کائنات سے اتناممتاز کر دیا کہ اللہ نے حضورﷺکو مخاطب ہو کر فرمایا: لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کہ اے نبی ! میری جو تجلی تجھ سے ظاہر ہوئی ہے،اپنی تجلی کے اس اظہار کےلیے ہی تومیں نے دنیا پیدا کی ہے۔ اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو اس کائنات کو پیدا نہ کرتا۔چنانچہ تجلّیات الٰہیہ کا یہی خزانہ آپؐ نے جب اپنے پیروکاروں میں تقسیم فرمایا تو عرب کے بیابان میں عجیب انقلاب برپا ہوگیا۔جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئےاور پشتوں کے بگڑے الٰہی رنگ پکڑ گئے، اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے، اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے،اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا، اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں، جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا، اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس امّی، بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔‘‘ (برکات الدّعا، روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۱۰-۱۱)
آنحضورﷺنے اُسی ایک خدا کی عبادت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاکہ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ وَاُمِرۡتُ لِاَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ(الزمر:۱۲-۱۳)۔کہ مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں عبادت صرف اللہ کی خاطر کروں اور اوّل اسی کا فرمانبردار بنوں۔ عبادت کا ایک معنی جُھک جانا ہے۔ لہٰذا صرف اللہ کی اطاعت کرنا اور اس کے سوا کسی خوف یا لالچ کےسامنے سر نہ جھکانے کا نام اسلام ہے،جس میں کسی دوسرے انسان کی اطاعت بھی اللہ کی اطاعت اوراسی کےحکم کے تابع رہتے ہوئےکی جاتی ہے۔ پس آنحضورﷺ نے عبادت کے ہر پہلو کو خدا کی خاطر انتہا تک پہنچا دیا تھا۔ آپؐ کا معراج اصل میں ہر عبادت اور ہر نیکی کامعراج تھا۔ پھر فرمایا: قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا(الکہف، آخری آیت)اے نبی! انہیں سمجھا دے کہ میں بھی تمہارے جیسا ہی بشر ہوں۔اللہ نے سب کو نیک فطرت پر پیدا کیا ہے۔لیکن اصل انسان توحید سے بنتا ہے۔ اور توحید محض زبان سے ایک خدا پر ایمان لانے کا نا م نہیں بلکہ اپنے اندر موجود تمام صفات کا رُخ خدائے واحد کی طرف پھیردینےکا نام ہے۔ اسی کو عمل صالح کہتے ہیں۔چنانچہ آنحضورﷺ کی تمام صفات جب بھی جلوہ گر ہوتیں تو خدائے واحد کی مرضی کے مطابق ہوتی تھیں۔ آپﷺ تو پہلے ہی ہر نیکی کی معراج پہ تھے۔ آپؐ کی فطرت پہلے ہی اپنے اندر اعلیٰ اخلاق کا نُور رکھتی تھی۔ لیکن جب آپؐ کوخدا تعالیٰ نےاپنے نُور ِنبوّت سے سرفراز فرمایا تو آپﷺ نورٌ علیٰ نور ہوگئے۔اور آپﷺ کی ذات میں گویا صفات الٰہیہ کا سراجِ منیر طلوع ہو گیا،جس کی روشنی نے نیکی اور بدی کا فرق کھول کر واضح کر دیا۔ آپﷺ کے بشر سے نُور بننے کا یہی مطلب ہے کہ آپؐ بشریت میں تو عام انسانوں جیسے ہی تھے، لیکن آپؐ کے ہرخُلق اور صفت سے خدا تعالیٰ کے نورکی جھلک ہی دکھائی دیتی تھی۔ لہٰذا فرمایا کہ تم میں سے بھی جوصفاتِ الٰہیہ کا نور حاصل کرناچاہتا ہے،تو سنو! فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ایمان کے ساتھ عمل ِصالح کرو اور اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرو۔ یعنی اپنی تمام صلاحیتوں کا رُخ اللہ کی طرف موڑ دو۔ ہرکام صرف خدا کے لیے کرو۔ اُس کی مرضی کو اپنی مرضی بنا لو۔اس کی مخلوق کے دُکھ سُکھ میں صرف اللہ کی خاطر شریک ہو۔ تو تم بھی اس نُور سے حصّہ پالو گے۔جیساکہ اللہ فرماتا ہےکہ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا۔إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدّھر :۹-۱۰) کہ وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اوراسیروں کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے کے لیےایسا کر رہے ہیں اور تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔اور دوسری طرف وہ لوگ جو غریبوں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کا خیال نہیں رکھتے، ان کے بارے میں آنحضورﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ فرمائے گا کہ اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی، میں بھوکا تھا تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا یا اللہ تو کیسے بیمار، بھوکا یا پیاسا ہو سکتا ہے۔تو اللہ فرمائے گا میرا فلاں بندہ بیمار تھا۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا، میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، اگر تو اسے کھلاتا تو تُو مجھے وہاں پاتا اور میرا فلاں بندہ پیاسا تھا۔ اگر تو اسے پلاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ ( مسلم، کتاب عیادت المریض وتشیع المیت والصلوٰۃ علیہ، باب عیادت المریض)
پس آپؐ نے اپنی امّت کو خدمتِ انسانی کا سبق دیتے ہوئے اللہ کا پیغام دیاکہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: ۱۱۱) کہ تم سب سے بہترین امّت ہو جو خدمتِ خلق کے لیے نکالی گئی ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ خدائی صفات کا مظہر بننے کے لیے اُس کی مخلوق سے محبت اور شفقت ضروری ہے۔چنانچہ فرمایا کہ اگر تم بھی اللہ کی صفات کے مظہر بننا چاہتے ہو فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا تو عمل صالح کرو۔
سورۃ النور میں اللہ کا وعدہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو خلافت عطا فرمائے گا۔ تو معلوم ہوا کہ انبیاء کے بعد خلفائے کرام بھی اپنے دَور کے آدم ہیں جو خدا کے نُور سے منوّراور اس کی تجلیّات کے مظہرہیں۔جو ان کی اطاعت کرتے ہیں، اُن کے دین کو تمکنت ملتی ہے،اُن کےخوف امن میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔اُن کی عبادتیں خالص اللہ کے لیے اور شرک سے پاک ہوجاتی ہیں۔ ورنہ دکھاوے اور ریاکاری والی نمازیں جو توحید کے نُور سے عاری ہوتی ہیں فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْن یعنی ہلاکت کا پیغام بن جا تی ہیں۔پس جب خدا نے فرمایا کہ میں ایک مخفی خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ تو مطلب یہ ہے کہ میں نے انبیاء و خلفاء پیدا کیے جن کے ذریعے میں اپنے وجود کو ظاہر کروں گا۔ وہ میرے نور کے مظہر ہوں گے۔ دنیا اُن کو مٹانے کی کوشش کرے گی لیکن فرمایا: کَتَبَ اللّٰهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِيْ(المجادلہ:۲۲) کہ اللہ نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول لازماً غالب آئیں گے۔ یعنی جب وہ میری عبادت کریں گے اور میری توحید کی حفاظت کریں گے۔ تو میں اُن کی حفاظت کروں گا۔اور دنیا کے زور آور حملوں سے ان کو نہ صرف بچاؤں گا بلکہ ترقیات اور غلبہ عطا کر کےاپنے وجود کا ثبوت دوں گا۔چنانچہ خدا نےجماعت احمدیہ کے مخالفین کے مقابل پر ہمیشہ اپنی تجلی دکھائی اور دُشمن کے ہر وار کو ناکام بناکرثابت کیا کہ اس جماعت کا میں خود محافظ ہوں۔ چنانچہ وہ خدا ہی تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ واللّٰہُ یَعْصِمُکَ منَ النَّاس کہ اللہ لوگوں سے تیری حفاظت فرمائے گا۔اسی خدا نے ۱۹۳۴ء میں اپنی تجلی دکھائی، اسی نے ۱۹۵۳ء میں اپنا چہرہ دکھلایا، اُسی نے ۱۹۷۴ءمیں جماعت کے ہاتھ میں کشکول پکڑانے کے خواہشمندوں کو پھانسی پہ لٹکایا اوراسی نے ۱۹۸۴ء میں جماعت کو کینسر قرار دے کر شجرِ خلافت کو اکھاڑ پھینکنے کے دعویدار وں کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ اور ہم آج تک خلافت کے زیر سایہ اس کی تجلیّات کے نظارے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
توحیدہر ترقی کی جان ہے۔یہ ممکن نہیں کہ انسان کی صفات کارُخ متضاد سمتوں میں ہو اور پھر کامیابی بھی حاصل ہو جائے۔توجّہ کا انتشار بہت مہلک چیز ہے۔شرک توجّہ کےانتشار کا دوسرا نام ہے۔ سورج کی منتشر شعاعوں کو لیزر کی مدد سے ایک نقطہ پر مرتکزکر دیا جائے تو ان میں انتہائی طاقت پیدا ہو جاتی ہے جو سامنے آنے والی ہر چیز کو اڑا کے رکھ دیتی ہے۔اسی طرح انسان جب خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کو منتشر کردے۔اُن صلاحیتوں کو خدا ئے واحد کے سامنے جھکانے کی بجائے کبھی اپنی انا کے سامنے جھکا دے، کبھی سیاست کے سامنے،اوردیگر لالچوں کےسامنے جھک جائے۔ تو ایسا انسان ایک بکھرا ہوا انسان ہے۔لیکن جو حقیقت میں مسلم ہو جائے وہ ہر قسم کے لالچ اور خوف سے آزاد ہوکر اپنا ہر عمل صرف اللہ کی خاطر کر تا ہے۔
لہٰذا نبوت سے پہلے انسان انتشار کا شکار ہو کر تباہی کی طرف جاتے ہیں۔ نبی کے ذریعہ وحدت قائم ہوتی ہے۔پھر خلافت کے پرچم تلے توحید کی شمع روشن رہتی ہے، تو یہی وحدت اُن کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں جب فتنے پھوٹیں گے تو ایسے انتشار پیدا ہو گا،جیسے موتیوں کی لڑی ٹوٹنے سے موتی بکھر جاتے ہیں۔ اس زمانے میں آپﷺ نے ایک مسیح نبی اللہ کی آمد اور اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ کی خوشخبری دی اور فرمایا کہ اُس دَور میں اگرتم زمین پر اللہ کے خلیفہ کو دیکھو تو اس سے چمٹ جانا خواہ تمہارا جسم نوچ لیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔
آج دنیا کے مزاج انتشار کا شکار ہیں، رُوحانی اور اخلاقی قدریں منتشر ہو چکی ہیں۔ انسان اپنے نفس کے غلام بن کر،خدا ئے واحد کی بجائے شیطانی صفات اپنا رہے ہیں۔ جس سے دنیا کا امن تباہ ہو چکاہے۔شرک اور امن اکٹھے نہیں ہو سکتے۔امن کی ضمانت عدل وانصاف ہے اور عدل و انصاف کی ضمانت توحیدِ خدا وندی ہے۔ توحید اور وحدت آج خلافت کے سائے میں ہی میسّر ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم خدا کی قائم کردہ خلافت کے زیر سایہ،خدائی صفات اپناتے ہوئے ہر معاملے میں عدل و انصاف پر قائم ہو جائیں۔ انصاف دل اور زبان کے درمیان وحدت پیدا ہونے کا نام ہے۔ لیکن جب زبان اور دل آپس میں ہی متفق نہ ہوں تو یہ انصاف اورخدا کی صفات اختیار کرنا نہیں بلکہ نفس کا دھوکا ہے۔اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَالۡاَقۡرَبِیۡنَکہ اے ایمان والو! اللہ کی خاطرانصاف سےگواہی دیتے ہوئے کھڑے ہوجاؤ، خواہ تمہیں اپنی ذات کے خلاف یا اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی گواہی کیوں نہ دینی پڑے۔ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا۔(النساء:۱۳۶)۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی خواہشات کے پیچھےپڑ کر عدل وانصاف کو چھوڑ دو۔
آج دنیا میں جس قدر بد کرداری پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ جھوٹ اور فریب کا شرک ہے۔آج دنیا میں کتنے مذاہب ہیں جو خدا کو مانتے ہیں۔لیکن ان کا کردار کیا گواہی دے رہا ہے؟ اسی سے اُن کے مذہب کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔اگر ہم بھی سارا دن جھوٹ بولتے ہوں، بد کلامیاں کرتے ہوں۔ اپنے اور غیر کے لیے ہمارے انصاف کے پیمانے مختلف ہوں۔جہاں سچائی اور ذاتی مفاد آپس میں ٹکرائیں، وہاں سچائی ذاتی مفاد سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے۔اور ہم نماز میں یہ گواہی دیں کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ واَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوُلُہ…تو خدا یہ گواہی دے گا کہ میں جانتا ہوں کہ میں ایک ہوں اورمحمدؐ میرا بندہ اور رسول ہے۔لیکن تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیونکہ روزمرّہ زندگی میں جہاں میری توحید اور تعلیم کو اختیار کرنا ہو،تم غیر اللہ کو اختیار کرلیتے ہو۔میری بجائے شیطان کے غلام بن جاتے ہو۔تم میرے نہیں بلکہ شیطان کے مظہر ہو۔
آج ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ہم اپنی زندگی میں عدل، انصاف اور سچ پر قائم ہیں تو پھر ہماری عبادت زندہ عبادت ہے، ورنہ قول اور فعل کے تضاد پر مبنی عبادتیں، امن کا نہیں ہلاکت کا پیغام دیتی ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ریاست بھوپال کے ایک بزرگ کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک لڑکا دیکھا جس کی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں، بازو بھی نہ تھے، کان بھی نہیں اور آنکھیں بھی نہیں۔اور بڑی درد ناک حالت میں تھا۔ میں نے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں خدا ہوں۔ میں گھبرا گیا کہ خدا؟ خدا تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہ تو بڑی قدرتوں کا مالک ہے۔ اُس نے کہا میں بھوپال کے لوگوں کاخدا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایسا ہی سمجھ رکھا ہے۔ ان کے اعمال بتا رہے ہیں کہ یہ سمجھتے ہیں کہ میری آنکھیں نہیں ہیں۔ میں ان کے اعمال کو نہیں دیکھ رہا۔میرے کان نہیں ہیں،میں ان کی باتیں نہیں سن رہا۔ یہ سمجھتے ہیں میری زبان نہیں، میں اب بول بھی نہیں سکتا۔ میرے ہاتھ نہیں،میں ان پہ گرفت نہیں کر سکتا۔
ریاست بھوپال ہی نہیں بلکہ آج غور کریں تو پوری دُنیا کی یہی حالت معلوم ہوتی ہے۔دُنیا کے اعمال بتا رہے ہیں کہ بظاہرخدا پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ سمجھ رہے ہیں کہ خدا کی طاقتیں ختم ہو گئی ہیں۔ اب وہ نعوذباللہ قادر نہیں رہا۔لیکن خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کے مطابق اِس دَور کے آدم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صورت میں اپنا چہرہ دکھلایا۔چنانچہ وہ خدا جو محمدمصطفیٰﷺ اور آپؐ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر ہوا، وہ کمزور خدا نہیں بلکہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا سرچشمہ اور تمام خوبصورت صفات کا جامع خدا ہے۔ حضور ؑفرماتے ہیں:’’ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۶) نیز فرمایا:’’ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اُس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اُس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ مَیں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَف سے مَیں باز اروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں۔ اور کس دوا سے مَیں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں‘‘ (کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱-۲۲)
پس اللہ کے رنگ میں رنگین یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے وجود خدا کی شناخت ہوتے ہیں۔وہ دنیا میں رہ کردنیا کے نغمے نہیں گاتے بلکہ وہ آسمانی بادشاہت کے موسیقار ہوتے ہیں۔اوراُسی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرتےہیں۔اور اُسی خداکی طرف بلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو، ہاں تم کو، ہاں تم کو خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤکہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قَرنا میں بھردو…کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پرآجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے… سیدھے آ ؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ … پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں ہے۔ مَیں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔تم میری مانو! خدا تمہارے ساتھ ہو۔خدا تمہارے ساتھ ہو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزّت پاؤ اور آخرت میں بھی عزّت پاؤ۔‘‘ (سیر روحانی، مجموعہ تقاریر صفحہ ۶۱۹-۶۲۰، طبع دوم اکتوبر ۲۰۱۷ء، قادیان)