خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (فرمودہ ۲۰؍ جنوری ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنےو الوں کے بارے میں یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔جماعتِ احمدیہ میں گذشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں پیش کی جا رہی ہیں۔ کیا ان کی قربانیاں رائیگاں گئیں؟ نہیں! بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ ان شہداء کے مقام کو اپنے وعدے کے مطابق بلند کرتا رہا وہاں جماعت کو پہلے سے بڑھ کر ترقیات سے بھی نوازتا رہا…یہ جان کی قربانی جو حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیفؓ شہید کی قربانی سے شروع ہوئی جماعت احمدیہ میں عموماً افغانستان اور برصغیر کے احمدیوں کے حصہ میں رہی۔ افریقہ میں بھی ایک مخلص احمدی نے کانگو میں اپنی جان کا نذرانہ ۲۰۰۵ء میں خالصةً جماعت کی خاطر پیش کیا تھا لیکن گذشتہ دنوں براعظم افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں عشق و وفا اور اخلاص اور ایمان اور یقین سے پُر افرادِ جماعت نے جو نمونہ مجموعی طور پر دکھایا ہے وہ حیرت انگیز ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ جن کو موقع دیا گیا کہ مسیح موعودؑ کی صداقت کا انکار کرو اور اس بات کو تسلیم کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور آسمان سے اتریں گے تو ہم تمہاری جان بخشی کر دیتے ہیں۔لیکن ان ایمان اور یقین سے پُر لوگوں نے جن کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے جواب دیا کہ جان تو ایک دن جانی ہے، آج نہیں تو کَل،اِس کے بچانے کے لیے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتے۔ جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتے اور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور کوئی واویلا کسی نے نہیں کیا۔پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے افریقہ میں بلکہ دنیائے احمدیت میں اپنی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برکینا فاسو کے شہرڈوری میں احمدیہ مسجدمیں دہشتگردوں کے حملہ کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: تفصیلات کے مطابق برکینا فاسو کا شہر ڈوری ہے وہاں مہدی آباد جماعت ہے جہاں نئی آبادی ہوئی تھی وہاں۱۱؍جنوری کو عشاء کے وقت ۹؍ احمدی بزرگوں کو مسجد کے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام احمدیت سے انکار نہ کرنے کی بنا پر ایک ایک کر کے شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ رپورٹ کے مطابق عشاء کے وقت چار موٹرسائیکلوں پر آٹھ مسلح افراد مسجد میں آئے۔ یہ مسلح افراد احمدیہ مسجد میں آنے سے پہلے قریب واقع مسجد، جو وہابیوں کی مسجد ہے وہاں موجود تھے جہاں انہوں نے مغرب سے عشاء تک کا وقت گزارا ہے لیکن وہاں کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ آئے صرف احمدیوں کے لیے تھے۔ جب یہ دہشت گرد احمدیہ مسجد میں آئے تو اُس وقت مسجد میں عشاء کی اذان ہو رہی تھی۔ اُس وقت تک کچھ نمازی بھی آ چکے تھے اور باقی بھی آ رہے تھے۔ اذان ختم ہونے کے بعد دہشت گردوں نے مؤذن سے اعلان کروایا کہ احباب جلدی مسجد میں آ جائیں کچھ لوگ آئے ہیں انہوں نے بات کرنی ہے۔ جب یہ لوگ جمع ہو گئے تو پھر دہشت گردوں نے پوچھا بھی کہ یہاں امام مسجد کون ہے؟ الحاج ابراہیم بدیگا (Bidiga) صاحب نے بتایا کہ وہ امام مسجد ہیں۔ پھر انہوں نے یہ پوچھا کہ نائب امام کون ہے؟ تو آگ عمر آگ عبدالرحمٰن صاحب نے بتایا کہ وہ نائب امام ہیں۔ جب نماز کا وقت ہو گیا تو امام ابراہیم صاحب نے دہشت گردوں سے کہا کہ ہمیں نماز پڑھ لینے دیں لیکن انہوں نے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ مسلح افراد نے امام سے جماعتِ احمدیہ کے عقائد کے متعلق کافی سوالات کیے جن کے جوابات امام صاحب نے تسلی اور بہادری سے دیے۔ امام صاحب نے بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور آنحضرت ﷺ کو ماننے والے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ امام صاحب نے بتایا کہ ہمارا تعلق احمدیہ مسلم جماعت سے ہے۔ پھر دہشت گردوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ زندہ ہیں یا فوت ہو گئے ہیں؟ امام صاحب نے کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ وفات پا چکے ہیں۔ بہرحال اس پر دہشت گردوں نے کہا کہ نہیں۔ عیسیٰ زندہ آسمان پر موجو دہیں اور واپس آ کر دجال کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کے مسائل حل کریں گے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ امام مہدی کون ہے؟ امام صاحب نے کہا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ امام مہدی اور مسیح موعود کے طور پر آئے ہیں۔ یہ باتیں سن کے آخر پر مسلح افراد نے کہا کہ احمدی مسلمان نہیں بلکہ پکے کافر ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ امام صاحب کو مسجد کے ساتھ ملحق احمدیہ سلائی سینٹر میں لے گئے جہاں حضرت مسیح موعود ؑ اور خلفاء کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ وہ تصاویر لے کر امام صاحب کے ساتھ واپس مسجد میں آگئے اور پھر ان تصاویر کے حوالے سے امام ابراہیم سے سوالات کیے۔ امام صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفاء کے نام بتائے اور ایک ایک تصویر کا تعارف کروایا اور کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ بطور امام مہدی اور مسیح موعود آئے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ مرزا غلام احمد کا نبوت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ پھر دہشت گردوں نے مسجد میں موجود نمازیوں میں سے بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے الگ الگ گروپ بنائے۔ اس وقت مسجد میں بچوں اور نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین سمیت ساٹھ سے ستّر افراد موجود تھے۔ پردے کی دوسری طرف دس سے بارہ لجنہ اس وقت نماز کے لیے موجود تھیں۔ عمر کے لحاظ سے گروپس بنانے کے بعد دہشت گردوں نے بڑی عمر کے افراد سے کہا کہ وہ مسجد کے صحن میں آ جائیں۔ اس وقت کل دس انصار مسجد میں موجود تھے جن میں سے ایک معذور بھی تھے۔ جب وہ معذور دوست بھی باقی انصار بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر باہر جانے لگے تو انہوں نے یہ کہہ کر بٹھا دیا کہ تم کسی کام کے نہیں، بیٹھے رہو۔ باقی نو(۹)کو وہ لے کے صحن میں آگئے۔ مسجد کے صحن میں کھڑا کر کے امام ابراہیم بدیگا صاحب سے کہا کہ اگر وہ احمدیت سے انکار کر دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ میرا سر قلم کرنا ہے تو کر دیں لیکن میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ جس صداقت کو میں نے پا لیا ہے اس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ ایمان کے مقابلے میں جان کی حیثیت کیا ہے۔ دہشت گردوں نے امام صاحب کی گردن پر بڑا چاقو رکھا اور ان کو لٹا کر ذبح کرنا چاہا لیکن امام صاحب نے مزاحمت کی اور کہا کہ میں لیٹ کر مرنے کی نسبت کھڑے رہتے ہوئے جان دینا پسند کروں گا۔ اس پر انہوں نے امام صاحب کو گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ سب سے پہلی شہادت امام الحاج ابراہیم بدیگا صاحب کی ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے اگلے احمدی بزرگ سے کہا کہ احمدیت سے انکار کرنا ہے یا تمہارا بھی وہی حشر کریں جو تمہارے امام کا کیا ہے؟اس بزرگ نے بڑی دلیری سے اور بہادری سے کہا کہ احمدیت سے انکار ممکن نہیں۔ جس راہ پر چل کر ہمارے امام نے جان دی ہے ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے۔ اس پر انہیں بھی سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پیچھے رہ جانے والے افراد سے بھی فرداً فرداً یہی مطالبہ کیا گیا کہ امام مہدی کا انکار کر دیں اور احمدیت چھوڑ دیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور زندہ چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن سب احمدی بزرگوں نے پہاڑوں جیسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور مظاہرہ کرتے ہوئے جرأت اور بہادری سے شہادت کو گلے لگانا قبول کر لیا۔ کسی ایک نے بھی ذرا سی کمزوری نہ دکھائی اور نہ ہی احمدیت سے انکار کیا۔ ایک کے بعد ایک شہید گرتا رہا لیکن کسی کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر یقینِ محکم اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور ایمان کا عَلم بلند رکھتے ہوئے اللہ کے حضور اپنی جانیں پیش کر دیں۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کے رؤیااورافریقہ کےرہنےوالوں کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے تذکرة الشہادتین میں ایک رؤیا کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا کہ’’خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔‘‘آپؑ نے اپنی رؤیا سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مجھے امید ہے کہ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر اس کا نمونہ دکھا دیا اور قائم مقامی کا حق ادا کر دیا۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت مہدی آبادکےقیام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ۱۹۹۸ء کے آخر پر یہاں باقاعدہ مشن شروع کیا گیا تھا۔ جماعت نے تیزی سے ترقی کی۔ ۱۹۹۹ء میں ایک گاؤں تکنے ویل (Tickneville)کی بھاری اکثریت احمدی ہو گئی اور ایک مخلص جماعت اس جگہ قائم ہو گئی۔ اس گاؤں کے امام الحاج ابراہیم بدیگا احمدیت قبول کرنے سے پہلے اس علاقے کے سب سے بڑے وہابی امام تھے۔ آپ نے بہت تحقیق کے بعد بیعت کی تھی… اس گاؤں کے تمام لوگ تماشق قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور تماشق زبان بولتے ہیں۔ تماشق لوگوں کی تعداد دو لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔یہ برکینا فاسو، نائیجر، مالی اور الجیریا میں پائے جاتے ہیں۔ ۹۹.۹فیصد مسلمان ہیں۔ زیادہ تر متشدّد وہابی عقائد رکھتے ہیں۔ تماشق لوگوں میں احمدی ہونے والے زیادہ نہیں ہیں تاہم برکینا فاسو میں مہدی آباد کے تماشق باشندے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی بیعت کرنے میں سبقت لے گئے اور اب اتنی بڑی قربانی دے کر اپنا ایک خاص مقام بھی حاصل کر چکے ہیں۔۲۰۰۴ء میں اس علاقے میں سونے کے بہت سے ذخائر دریافت ہوئے تو مائننگ کمپنی نے اس گاؤں کی آبادی کو قریب ہی ایک نئی جگہ پر مکانات بنا کر دیے اور کہا کہ وہاں منتقل ہو جائیں۔ ان منتقل ہونے والوں کی بھاری اکثریت احمدیوں کی تھی، چند ایک گھرانے دوسرے تھے۔ نیا گاؤں بنا تھا جو تقریباً احمدیوں کا ہی گاؤں تھا۔ ابراہیم صاحب نے یہ تجویز دی کہ اس گاؤں کا نام وہ پرانا نہیں رکھنا۔ چنانچہ انہوں نے مجھے لکھا کہ اس گاؤں کا کوئی نام رکھیں اور پھر اس کا نام مہدی آباد رکھا گیا۔
سوال نمبر ۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہداءڈوری مہدی آبادکی اولادوں کوکیادعادی اوران کےحوالہ سےانتظامیہ کوکیاہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا:یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں، اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں اور نسلوں کو بھی اخلاص و وفا میں بڑھائے۔دشمن سمجھتا ہے کہ ان کی شہادتوں سے یہ اس علاقے میں احمدیت ختم کر دے گا لیکن ان شاء اللہ پہلے سے بڑھ کر احمدیت یہاں بڑھے گی اور پنپے گی۔ وہاں جو انتظامیہ ہے اس کو اور امیر صاحب کو بھی وہاں حکمتِ عملی کے ساتھ تبلیغی پروگرام بنانا چاہیے جہاں پہ ان لوگوں کی تسلی بھی کرانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ بھی دیتا رہے اور ان کے بزرگوں نے جس مقصد کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے ہیں اس کی اہمیت کو سمجھنے کی بھی ان کو توفیق عطا فرمائے۔ بہرحال ایک حکمت اور منصوبہ بندی سے اب ہمیں وہاں کام کرنا ہو گا۔ اس بارے میں پہلے ہی مَیں ان کو کہہ چکا ہوں کہ وہاں جائیں اور مقامی لوگوں سے مل کر جامع منصوبہ بندی حکمت سے کریں۔
سوال نمبر ۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےسیدنابلال فنڈکے حوالہ سے کیا ہدایت فرمائی؟
جواب: فرمایا: شہداء کے خاندانوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے، ان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے خلافتِ رابعہ سے ہی ایک فنڈ سیدنا بلال فنڈ کے نام سے قائم ہے جس میں سے شہداء کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ آج کل اس واقعہ کے بعد بعض لوگ انفرادی طور پر بھی اور تنظیمیں اور جماعت بھی یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ رقمیں بھیج رہی ہیں یہ ان کے لیے ہے۔ حالانکہ جب فنڈ ایک قائم ہے تو سب کو چاہیے کہ اپنی رقمیں جو بھی دینا چاہتے ہیں سیدنا بلال فنڈ میں جمع کروائیں اور پھر بتا دیں کہ ہم نے یہ رقمیں جمع کروائی ہیں اور خاص طور پر ہمارا مقصد جو ڈوری کے، مہدی آباد کے شہداء ہیں ان کے لیے خرچ کرنا ہے تو بہرحال مرکز اس کے مطابق فیصلہ کر لے گا۔ مرکز نے تو چاہے رقمیں آئیں یا نہ آئیں ان لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے اور پورا کرنا ہے اور کرے گا۔ ان شاء اللہ
سوال نمبر ۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کےآخرپراورکن مرحومین کاذکرخیرفرمایا؟
جواب: فرمایا:۱۔مکرم ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب۔ جو صوفی خدا بخش زیروی صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ امریکہ میں رہتے تھے۔ چار جنوری کو ان کی تراسی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
۲۔مکرمہ امۃ اللطیف زیروی صاحبہ۔جو کریم اللہ زیروی صاحب کی اہلیہ تھیں۔ امریکہ میں رہتی تھیں اور ملک سیف الرحمٰن صاحب کی یہ بیٹی تھیں۔ یہ ۶؍جنوری کو اپنے میاں کی وفات کے دو دن بعد اٹھہتر سال کی عمر میں وفات پاگئیں ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔