بیویوں سے حسن سلوک
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍مئی۲۰۱۷ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خاوند کے فرائض اور بیویوں سے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خُلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں‘‘ اور فرمایا کہ ’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے۔ درحقیقت ہم پر اِتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریّہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے (بڑا) سختی سے پیش آتا ہے۔ حضور علیہ السلام اس بات سے (بہت رنجیدہ ہوئے) بہت کبیدہ خاطر ہوئے۔ اور فرمایا ’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے‘‘۔ پھر تحریر کرنے والے لکھتے ہیں کہ اس کے بعد حضور علیہ السلام بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارے (میں ) گفتگو فرماتے رہے۔ اور آخر پر فرمایا کہ ’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا۔‘‘ (اونچی آواز سے بولے تھے) ’’اور مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگِ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے‘‘۔ (اونچی آواز میں بولے تھے اور خیال کیا کہ شاید اس میں دل کا کوئی رنج بھی شامل ہے) ’’اور بایں ہمہ کوئی دلآزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا‘‘۔ (اس کے علاوہ کوئی سختی کا کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا لیکن اس کے باوجود بھی) آپ فرماتے ہیں کہ’’اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے۔‘‘ (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 1-2۔ ایڈیشن 1984ء )
پس یہ ہے نمونہ آپ کا۔ اور پھر کسی دوست کے سختی سے پیش آنے پر آپ نے بڑی فکر اور درد کا اظہار کیا اور یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ’’وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ذرا ذرا سی بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں، ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کو کچھ ہوش کرنی چاہئے۔ یہ ہاتھ اٹھانا تو خیر علیحدہ رہا جیسا کہ مَیں نے کہا کہ زخمی بھی کر دیتے ہیں۔ ان کے لئے تو بہت ہی فکر کا لمحہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تو ان لوگوں کا پھر ایمان بھی کامل نہیں ہے۔ ان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد تھا اسی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی فکر ہوئی کہ جس کے ایمان کا وہ اعلیٰ معیار نہیں ہے پھر تو وہ کئی جگہ ٹھوکر کھا سکتا ہے۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ بظاہر چھوٹی نظر آنے والی باتیں ہیں لیکن یہ چھوٹی نہیں ہیں۔ ان ملکوں میں تو پولیس تک معاملے چلے جاتے ہیں اور پھر جماعت کی بدنامی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ پھر دنیاوی سزا بھی بھگتتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لیتے ہیں۔ بعض مرد کہہ دیتے ہیں کہ عورت میں فلاں فلاں برائی ہے جس کی وجہ سے ہمیں سختی کرنی پڑی۔ اس پہلو سے مَردوں کو پہلے اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا وہ دین کے معیار پر پورا اترنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے ہی مَردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہو سکتی ہے۔‘‘ (پہلی شرط تو یہی ہے کہ مردنیک ہو تبھی اس کی بیوی بھی صالحہ ہو گی۔) فرمایا کہ ’’ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اُس کا اثر ہوتا ہے‘‘۔ صرف باتوں کی نصیحت نہ کرو۔ صرف ڈانٹ پھٹک نہ کرو بلکہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرو کہ تم نیک ہو اور تمہارا ہر قدم خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا ہے۔ ایسی نصیحت جو عمل سے ہوگی تو فرمایا کہ اس کا اثر ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ’’عورت تو درکنار اَور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے۔‘‘ (کوئی نہیں مانتا جب تک عمل نہ ہو۔)’’اگر مرد کوئی کجی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اُس پر گواہ ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’……جو شخص خدا سے خودنہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا۔ ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’بھلا جب خاوند رات کو اٹھ اٹھ کر دعا کرتا ہے، روتا ہے، تو عورت ایک دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور متأثر ہو گی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’عورت میں متأثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے۔ ……ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کر سکتا‘‘۔ (عورتوں کو درست کرنے کے لئے کسی سکول کی ضرورت نہیں ہے، کسی ادارے کی ضرورت نہیں ہے۔) ’’جتنا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے۔‘‘ (اگر اصلاح کرنی ہے تو خاوند اپنی اصلاح کر لیں۔ اپنے عملی نمونے دکھائیں تو ان کی اصلاح ہو جائے گی۔) آپ فرماتے ہیں ’’…… خدا نے مرد عورت دونو کا ایک ہی وجود فرمایا ہے۔ یہ مَردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں۔ ان کو چاہئے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقع نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تُو فلاں بدی کرتا ہے۔‘‘ (کبھی ایسا موقع مردوں کو نہیں دینا چاہئے کہ عورت یہ کہے کہ تم میں فلاں بدی ہے۔ تم تو یہ بدیاں کرتے ہو۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ انسان کو اتنا پاک صاف ہونا چاہئے کہ) ’’بلکہ عورت ٹکّریں مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا اسے پتہ مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 207-208۔ ایڈیشن 1984ء)
جب ایسی صورت ہو کہ تلاش کرنے کے باوجود مرد میں کوئی برائی نظر نہ آئے تو تب پھر عورت اگر دیندار نہیں بھی ہے تو دین کی طرف اس کی توجہ پیدا ہو گی۔ یہاں تو مَیں نے دیکھا ہے کہ عورتیں زیادہ دیندار ہیں۔ بعض دفعہ یہ شکایت کرتی ہیں کہ ہمارے خاوند کی دین کی طرف توجہ نہیں۔ ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان مَردوں سے یہ توقعات ہیں جو آپ کی بیعت میں آئے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مَرد ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جن کی شکایتیں عورتیں لے کر آتی ہیں کہ یہ مردنماز میں سست ہیں۔ باجماعت نماز تو علیحدہ رہی گھر میں بھی نماز نہیں پڑھتے۔ دین کا علم مَردوں کا کمزور ہے۔ چندوں میں کئی گھروں کے مرد کمزور ہیں۔ ٹی وی پر لغو اور بیہودہ پروگرام دیکھنے کی مردوں کی شکایات ہیں۔ بچوں کی تربیت میں عدم توجہگی کی شکایت مردوں کے بارے میں ہے۔ اور اگر کبھی گھر کا سربراہ بننے کی کوشش کریں گے بھی، باپ بننے کی کوشش کریں گے تو سوائے ڈانٹ ڈپٹ اور مار دھاڑ کے کچھ نہیں ہوتا۔ عورتیں مردوں سے سیکھنے کے بجائے بہت سے گھروں میں عورتیں مردوں کو سکھا رہی ہوتی ہیں یا ان کو توجہ دلا رہی ہوتی ہیں تا کہ بچے بگڑ نہ جائیں۔ جن گھروں میں بھی بچے عدم تربیت کا شکار ہیں وہاں عموماً وجہ مردوں کی عدم توجہ یا بیوی اور بچوں پر بے جا سختی ہے۔ کئی بچے بھی بعض دفعہ آ کے مجھے شکایت کر جاتے ہیں کہ ہمارے باپ کا ہماری ماں سے یا ہم سے سلوک اچھا نہیں ہے۔
پس اگر گھروں کو پُرامن بنانا ہے، اگر اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے اور ان کو دین سے منسلک رکھنا ہے تو مَردوں کو اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مَردوں کو توجہ دلاتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ ’’مَرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے۔ پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو کس قدر بداثر پڑنے کی امید ہے‘‘۔(اس کے عمل سے بداثر قائم ہو رہا ہے تو پھر آگے نسلوں میں بھی بداثر پڑتا چلا جائے گا۔) فرمایا کہ ’’مرد کو چاہئے کہ اپنے قویٰ کو برمحل اور حلال موقع پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے۔‘‘ (غصہ ہے) ’’جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘۔(غصہ فطرت میں ہے۔ ایک انسان میں ہوتا ہے۔ لیکن جب حد سے زیادہ بڑھ جائے تو پھر وہ جنون یا پاگل پنے کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ فرمایا کہ)’’جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے‘‘۔(ملفوظات جلد 5 صفحہ 208۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)۔ گھر والوں کی بات تو علیحدہ رہی۔ مخالفوں سے بھی اس طرح غضبناک ہو کے باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پس یہ ہے معیار کہ گھر میں بیوی بچوں پر غصہ نہیں کرنا اور یہ غصہ تو علیحدہ رہا، اگر کوئی مخالف ہے تو اس سے بھی غضبناک ہو کر اور عقل سے عاری ہو کر بات نہیں کرنی۔ مخالف کی بات کو ردّ کرنے کے لئے بھی مومن کے منہ سے غلیظ اور غضب سے بھرے ہوئے الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہندوستان یا پاکستان سے بھی عورتیں اپنے خاوندوں کے ظلموں کے بارے میں لکھتی ہیں۔ دونوں جگہ، قادیان میں بھی اور پاکستان میں بھی نظارت اصلاح و ارشاد اور ذیلی تنظیموں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور باقی دنیا میں بھی اپنی تربیت کے پروگرام کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ تبلیغ کر رہے ہیں اور دینی مسائل سیکھ رہے ہیں لیکن گھروں میں بے چینیاں ہیں تو اس سب علم اور تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔