والدین کی عزت کر اور… ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ
فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا (بنی اسرائیل:۲۴)یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہواورایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو ۔اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام اُمت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اوروالدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے اوراس حکم میں ایک رازبھی ہے اوروہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمندسمجھ سکتاہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیاہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اورہرایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ توپھردوسروں کواپنے والدین کی کس قدرتعظیم کرنی چاہئے۔ اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (بنی اسرائیل:۲۴) یعنی تیرے ربّ نے چاہا ہے کہ تُو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔ اِس آیت میں بُت پرستوں کو جو بُت کی پوجا کرتے ہیں سمجھایا گیا ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں ہیں اور بُتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے۔ انہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفل نہیں تھے اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اَور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی ربّ ہیں اورہر ایک شخص طبعًا یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو اُن کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۲۱۳-۲۱۴)