امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ فرانس و قائدین مجالس کی(آن لائن) ملاقات
مورخہ۲۲؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کی نیشنل مجلس عاملہ کے ممبران و قائدین مجالس کی آن لائن ملاقات ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ خدام نے مسجد مبارک Saint-Prixسے آن لائن شرکت کی۔
السلام علیکم کہنے کے بعد حضور انور ایدہ الله تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ عاملہ ہے؟جس کی تصدیق صدر مجلس خدام الاحمدیہ فرانس نے کی۔دعا کے بعد اراکین مجلس عاملہ کو اپنا تعارف، متعلقہ شعبہ جات کی کارگزاری کی رپورٹ پیش کرنے نیز قائدین مجالس کو اپنی مجالس کے حوالے سے حضور انور سے مختصر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔
سب سے پہلے معتمد مجلس جوپیشہ کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ(chartered accountant) ہیں نے حضور انور کی خدمت میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
حضورانور نے فرانس میں مجالس کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا نیز استفسار فرمایا کہ کتنی مجالس باقاعدگی سے ماہانہ رپورٹیں جمع کرواتی ہیں؟
اس پر موصوف نے بتایا کہ فرانس میں کل ۱۳؍مجالس ہیں اور ان میں سے دس مجالس باقاعدگی سے ماہانہ رپورٹیں بھجواتی ہیں۔ موصوف نے یہ بھی عرض کیا کہ مجلس کے کُل ۵۹۶؍ ممبران ہیں جن میں سے ۴۲۹؍خدام ہیں اور باقی اطفال۔
مہتمم تربیت سے حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آیا وہ فرانس میں پیدا ہوئے ہیںاور ان کا پیشہ کیا ہے؟ پہلے سوال کا موصوف نے اثبات میں جواب دیا جبکہ اپنےپیشہ کے حوالے سے عرض کی کہ وہ شعبہ آئی ٹی(انفارمیشن ٹیکنالوجی) سے منسلک ہیں۔
اپنے سپرد جماعتی شعبہ کی مساعی کی بابت موصوف نے بتایا کہ خدام کو حضورانور کے خطبات اور خطابات سننے، مسجد یا نماز سینٹر میںنماز ادا کرنے اور باہمی اخوت کو فروغ دینے کی ترغیب دلانے کے ضمن میں مساعی بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔
خدام سے ذاتی رابطہ رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایاکہ صدر صاحب اور عاملہ کو بھی چاہیے کہ دَورے کر کے ہر خادم کے گھر تک پہنچا کریں، ان کو سلام کیا کریں۔ کم از کم سال میں دو دفعہ ہر خادم سے ذاتی رابطہ کریں تاکہ ان کی اجلاسوں میں حاضری بڑھے۔
بعد ازاں موصوف نے باقاعدگی سے نماز ادا کرنے والے خدام کی تعداد پیش کی۔ تعداد میں کمی دیکھ کرحضور انور نے فرمایاکہ میں نے حال ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں۔
مزید برآں حضور انور نے تلقین فرمائی کہ نماز جو بنیادی چیز ہے اس کی طرف زیادہ توجہ دلائیں۔ قرآن شریف کے پڑھنے کی طرف بھی زیادہ توجہ دلائیں، تلاوت بھی کریں اور اس پر غور بھی کرنے کی طرف توجہ دلائیں۔ نہیں تو فرانس میں دنیاداری بےشمار ہے اور مسلمانوں کے خلاف ویسے ہی ماحول پایا جاتا ہے۔اگر آپ لوگ بھی قرآن شریف اور اسلامی تعلیم بھول گئے، نمازیں بھول گئے، اللہ کے آگے جھکنا بھول گئے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر خدام الاحمدیہ تو نہ کہلائے، پھر خدام الفرانس کہلائے۔اس طرف زیادہ توجہ دیں۔
مہتمم صحت جسمانی نے حضور انور سے گفتگو کرتے ہوئے عرض کی کہ وہ خود کرکٹ اور کبھی کبھار فٹ بال کھیلنے کے شوقین ہیں۔ حضور نے دریافت فرمایاکہ کیا وہ فرانس میں کرکٹ کھیلتے ہیں؟ جس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیااور بتایا کہ فرانس میں ایک کرکٹ کلب بھی ہے۔ حضور نے مزید دریافت فرمایا کہ کیا وہ کسی ٹورنامنٹ کے لیے برطانیہ آئے تھے؟ اس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیااوربتایا کہ فرانس کے تیس فی صد خدام باقاعدگی سے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔
ایڈیشنل مہتمم تربیت (رشتہ ناطہ)نے بتایا کہ وہ متعلقہ کوائف جمع کرکے مرکز کو بھیج دیتے ہیں نیز بتایا کہ ۱۳۳؍ خدام کے کوائف پہلے ہی مرکز بھجوائے جا چکے ہیں۔
مہتمم امور طلبہ و خدمت خلق نے بتایا کہ اس وقت کل ۱۰۵؍طلبہ میں سے ۶۹؍خدام یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
حضورانور کے دریافت فرمانے پر کہ کیا یونیورسٹی میں AMSA (احمدیہ مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن) قائم ہے ؟ موصوف نے عرض کیا کہ چونکہ خدام مختلف یونیورسٹیوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر یونیورسٹی میں صرف ایک یا دو خدام ہیں،اس لیے انہوں نے AMSAقائم نہیں کی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ملکی سطح پر AMSA قائم کی جا سکتی ہے۔
حضور انور نے محاسب سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ رسیدوں کی تصدیق کرتے ہیں نیز اس بات پر زور دیا کہ ہر رسید کو اچھی طرح چیک(check) کیا جانا چاہیے۔
مہتمم اطفال نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اپنے عہدے کے لیے خدمت کا لفظ استعمال کیا۔اس پرحضور انور نے اظہارخوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر ایک کو ہمیشہ اپنے آپ کو خادم ہی سمجھنا چاہیے۔
موصوف نے بتایا کہ فرانس میں ۱۶۷؍اطفال ہیں اور تمام مجلس کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ان کی تربیت کے لیے دوران سال دو صد سے زائد تعلیمی کلاسز کے ساتھ ساتھ وقار عمل اور پکنکس(picnics) کے پروگرام بھی منعقد کیے گئے ہیں۔
مہتمم مال کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ وہ خدام کو آگاہ کریں کہ چندہ کیوں دیا جاتا ہے اور کیسے خرچ ہوتا ہے۔
مہتمم تحریک جدید نے بتایا کہ تحریک جدید کے اس مالی سال میں ۴۲۹؍خدام میں سے ۱۶۳؍نے حصہ لیا اور ۱۶۷؍ اطفال میں سے ۵۰؍نے حصہ لیا۔
مہتمم تبلیغ جو فرنچ سپیکنگ (French speaking) ہیں نے بتایا کہ انہوں نے پمفلٹس (pamphlets)تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ تبلیغ کے لیے نیشنل نصاب کی تیاری کا عمل جاری ہے اور تمام مجالس کا دَورہ کرکے خدام میں تبلیغ کے بارے میں شغف اور بیداری پیدا کرنے کے لیے وہ سرگرم عمل ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے موصوف کی اِس امر کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ خدام میں سے کچھ ایسے selectedلوگ ہونے چاہئیں جو داعیان الی اللہ کہلائیں اور تبلیغ میں زیادہ وقت دیا کریں۔ پوسٹ بکس میں پمفلٹس ڈال دیتے ہیں، اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ لوگوں کو بھی دیں اور سٹال لگائیں جہاں بتائیں کہ اسلام کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے، اسلام کی امن کی تعلیم کیا ہے، اسلام تو امن پسند ہے، جو لوگ امن کو توڑتے ہیں وہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے۔ اسلام کن حالات میں جنگوں کی اجازت دیتا ہے۔
اسلام پر الزام لگایا جاتا ہےتوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کریں کہ کس طرح آپؐ امن قائم کرنے کے لیے کوشش کیا کرتے تھے اور قرآن شریف کی تعلیم کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا مقصد کیا ہے کہ اسلام کی اشاعت کرنا اور امن، سلامتی اور محبت کے پیغام کو پہنچانا۔
کم از کم ایک دفعہ ان لوگوں کے دماغوں سے اسلام کے خلاف یہ تاثر کہ اسلام صرف شدت پسند ہے وہ دُور ہو جائے پھر باقی تبلیغ کے کام بھی کریں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور یہی کامیاب ہونے والا مذہب ہے۔ خدام کو اس کی ٹریننگ (training)دیں اور خدام کو خود بھی علم ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کسی فرنچ(French) سے واسطہ پڑ جائے تو ڈر کے مارے کہہ دیں کہ ہاںتم ٹھیک کہتے ہوسارے مسلمان ہیں ہی خراب۔ مسلمان خراب نہیں ہیں، جو کوئی ایسی حرکت کرتاہے تو اسلام کی تعلیم کے خلاف کرتا ہے۔ ہر ایک خادم کو اپنا نمونہ دکھانا چاہیے اورکسی سے ڈرنا نہیں چاہیے اور اسلام کی تعلیم کھلے طور پر بیان کرنی چاہیے۔
مہتمم اشاعت نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ ہم آن لائن ویب سائٹ پر اپنا رسالہ ’طارق‘ شائع کرتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ خدام سے بھی لکھوایا کرو، ان میں بھی لکھنے کی عادت ڈالو۔
اس پر مہتمم اشاعت نے عرض کی کہ خدام کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک آرٹیکل (article)بھجوایا کریں۔
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ پھر توآپ کے پاس آرٹیکل کی بھرمار ہو جانی چاہیے۔ ۴۸۰۰؍آرٹیکل سال کے بن جاتے ہیں۔ آپ کے پاس تو وہاں چھاپنے کی جگہ نہیں رہنی چاہیے۔ آپ کے پاس تولکھنے والا کوئی نہیں ہوتا، اسی مواد کو رسالہ میں repeatکرتے رہتے ہیں۔ کام وہ کریں جوpracticalہو۔ایسا پلان بنائیں جو واقعی حقیقی پلان ہو ، جس پر عمل ہو سکتا ہے۔ ambitious planبنانا چاہیے مگر اتنا بھی نہیں کہ اپنی موجودہ صورت حال سے ہی دُور ہو جائیں، اس کا پتا ہی نہ ہو، اس پر عمل بھی نہ ہو رہا ہو۔ تو عمل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔
مہتمم تجنید نے حضور انور کے استفسار کرنے پر عرض کی کہ انہوں نےجماعت کے ڈیٹاسے خدام کی تجنید کے کوائف چیک کیے ہیں۔
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ جماعت کے ڈیٹا سے چیک نہیں کرنا ، اپنا علیحدہ ڈیٹا بنانا چاہیے۔آپ جماعتی AIMSکا ڈیٹا چیک نہ کیا کریں۔اپنا ڈیٹا بنائیں ا ور خدام کا ڈیٹاdoor to door انفارمیشن(information) لے کر اس کے مطابق تجنیدکریں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کی اور جماعت کی تجنید ایک جیسی ہو۔ مہتمم کا کام تو یہ ہے کہ مجالس کے جتنے ناظمین تجنید ہیں، ان کو کہنا کہ ہر ایک گھر میں جاؤ اور وہاں سے ان کے کوائف لے کے آؤ اور تا کہ آپ کے پاس اپنی انفارمیشن ہو۔ آپ کو تو بلکہ جماعت کوفیڈ (feed)کرنا چاہیے کہ تمہارے ڈیٹا میں یہ کمی ہے۔ ہم نے یہ ڈیٹا لیا ہے اس کے مطابق ہمارے خدام اتنے بنتے ہیں۔
مہتمم تعلیم نےحضور انور کے دریافت فرمانے پر عرض کی کہ اس سال جو کتاب منتخب کی گئی تھی وہ ’’شرائط بیعت اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں‘‘ہے۔
حضور انورکے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ اس وقت تک خدام الاحمدیہ کی تقریباًپچاس فی صدتجنید کو مطالعہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور مجالس میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز کیا گیا ہے اور فوکس (focus) یہی تھا کہ اس سے باقاعدہ طور پر مطالعہ کتب کی طرف توجہ دلائی جائے۔
اس پر حضور نے فرمایاکہ یہ توجہ تو آپ نے کروا دی، planدے دیا ، بڑا اَچھا کیا۔ اب اسplanکے اوپر عمل کتنا ہوا اس کا بھی فیڈ بیک(feedback) آپ کو آنا چاہیے۔ جو آپ کے متعلقہ ناظمین ہیں ان کو کہیں کہ آپ کو فیڈ بیک دیا کریں۔
شعبہ آئی ٹی سے منسلک قائد مجلس سٹراسبرگ (Strasbourg) نے بتایا کہ وہاں ۳۲؍ خدام رہتے ہیں۔قائد مجلس للّ(Lille) اور ویلاں سِیَن (Valenciennes)نے بتایا کہ ان کے کل ۳۳؍خدام ہیں۔
مہتمم وقار عمل نے بتایا کہ ان کےشعبہ کے تحت مساجد کی صفائی کو برقرار رکھنے اور مختلف تقریبات کے لیے خیمے لگانے کی مساعی سرانجام دی جاتی ہیں۔
مہتمم تربیت نو مبائعین نے بتایا کہ جب بھی موقع ملتا ہے مسجد میں نو مبائعین کے لیے اجتماع منعقد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزیدعرض کیا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ۱۷؍نومبائعین ہیں جن میں سے کچھ الجزائر، مراکش اور دیگر افریقی ممالک سے آئے ہیں۔موصوف کی صحت اور جسامت کو دیکھتے ہوئے حضور انور نے مسکراتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کھیلوں میں بھی حصہ لیا کریں۔
قائد مجلس دار النور سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان کی مجلس میں کتنے خدام ہیں؟مجلس پھیلی ہوئی ہے یا ایک جگہ اکٹھے ہیں؟اس پر موصوف نے بتایا کہ سولہ خدام ہیں جو دُور دُوررہتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ پھر ان کو اکٹھا کس طرح کرتے ہیں؟ اس پر قائد مجلس نے بتایا کہ اجتماع یا جلسہ کے موقع پر۔ اس پر حضورانور نے استفہامیہ انداز میں پوچھا کہ سال میں دو دفعہ مل لیتے ہو، کافی ہے؟ موصوف نےعرض کیا کہ ماہانہ اجلاس پر بھی خدام کو بلایا جاتا ہے۔
حضور انور نے اس حوالے سے قائد مجلس کو فرمایا کہ اگر زیادہ دُور ہیں تو ان سے آن لائن یا فون پر رابطہ کر لیا کرو یا کبھی کبھی ویسے خود ہی ان کے گھر چلے گئے۔
قائد مجلس تولوز(Toulouse) نے بتایا کہ ان کے علاقے میں چودہ خدام ہیں۔
ایک قائد مجلس سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ قائد کو تو پانچ نمازوں کے ساتھ تہجد بھی پڑھنی چاہیے، نوافل پڑھنے چاہئیں تا کہ کام میں برکت پڑے۔
قائد مجلس سینٹ ا یٹین(Saint-Étienne) نے بتایا کہ ان کی مجلس میں کل ۷۶؍خدام ہیں جو کہ تعداد کے لحاظ سے ملک بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ قائد مجلس پارسی(Parsi) ریجن ایولین (Yvelines)نے بتایا کہ ان کی مجلس میں ۲۷؍خدام ہیں۔
حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کے حوالے سے فرمایا کہ اگرچہ یہ ایک چھوٹی مجلس ہے لیکن اسے ایک مثالی مجلس بننے کی کوشش کرنی چاہیے جو ایک مثبت مثال قائم کر سکے۔
قائد مجلس سین اے مارن (Seine-et-Marne)نے بتایا کہ وہاں کل ۲۳؍خدام ہیں۔
مقامی مسجد مبارک کے قائد مجلس نے بتایا کہ ان کےریجن میں ۱۰۶؍خدام ہیں جن میں سے تقریباً ستّر فی صد فعال ہیں۔
اس کے بعد قائدین مجالس ابے پَرنے (Eparney)اور گوسان ویل(Goussainville) کو اپنی رپورٹس پیش کرنے اور حضور انور ایدہ الله سے بات کرنے کا موقع ملا۔
بعد ازاںحضور انور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایاکہ اب آپ لوگوں کا کام ہے، کام کرنا اور فرانس کی مجلس کو آئیڈیل(ideal) مجلس بنانا۔ یہ بہانہ تھا، وہ بہانہ تھا، اِس نے وہ کر دیا ، اُس نے وہ کر دیا، ہمارے جماعت والوں نے یہ روک ڈال دی، فلاں نے یہ کہہ دیا، یہ سب بہانے ہیں۔اس لیے محنت سے کام کریں اورجو پیچھے رہنے والے خدام ہیں ان کو بھی آگے لے کے آئیں اور آرگنائز(organize)کریں۔یہی اصل مقصد ہے۔جو پیچھے رہنے والے ہیں ان کو چھوڑ نہیں دینا۔ کوئی اپنے بھائی کو ضائع نہیں ہونے دیتا، اس کو بچاتا ہے۔پیچھے رہنے والوں کواپنے بھائی سمجھیں اور سامنےلے کے آئیں۔
میٹنگ ختم ہونے پر کچھ اراکین عاملہ کو سوال کرنے کا بھی موقع ملا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ آجکل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر دیکھیں تو غیر احمدی کھل کر جماعت کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں سیکیورٹی پوائنٹ آف ویو (point of view)سے کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ کھل کے جماعت کی مخالفت کرتے ہیں تو آپ کھل کے تبلیغ کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایکٹو (active)کرو، کھل کے ان کے جواب دو۔اس لیے اپنی مجلس سلطان القلم بناؤ جو کہ جواب دینے والی ہو۔کھل کے فرانس میں، اخبار ، سوشل میڈیاپر، اِدھر اُدھر جو بھی جواب آتے ہیں، جہاں بھی احمدی یا ختم نبوت یا اس قسم کے ٹاپک(topic) پر کوئی بات ہوتی ہے تو وہاں آپ کا نقطۂ نظر بھی سامنے آ جانا چاہیے۔اتنی زیادہ بھر مار ہو کہ جو کوئی کھولے آپ کا نقطۂ نظر، آپ ہی کا سٹانس(stance) سامنے ہو۔
باقی سیکیورٹی (security)کے لیے اِکا دُکا واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں جس طرح دو سویڈش لوگوں کو بیلجیم میں فٹبال میچ میں قتل کر دیا گیا تھا۔اسی طرح یہاں بھی واقعات ہوتے رہتے ہیں ، ان کو یہ خطرہ تو بہرحال ہے کہ کوئی پاگل سرپھرا کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے خاص طور پر جب فنکشنز (functions)ہو رہے ہوں، اجتماعات ہو رہے ہوں ، جمعہ وغیرہ ہو رہا ہو تو جماعت کو سیکیورٹی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ایک دوسرےپر نظر رکھیں، vigilanceہوں، نظر رکھنے والے ہوں۔ اگلے کو یہ پتا لگ جائے کہ آنے جانے والے کو کوئی گھور کےدیکھ رہا ہے تو اگلا ویسے ہی محتاط ہو جاتا ہے۔ باقی سوشل میڈیا کا حل تو یہی ہے کہ تبلیغ کرو، زیادہ سے زیادہ ان کے اعتراضوں کے جواب سوشل میڈیا پر ڈالو۔
ایک خادم نے اطفال الاحمدیہ کے نصاب کے بارے میں راہنمائی طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ اطفال الاحمدیہ میں عموماً دو معیار ، معیار صغیر اور میعار کبیر ہو تے ہیں،کیا ضرورت کے پیش نظر اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ معیار نہ بھی ہو تو سات سے دس سال والے بچوں کو علیحدہ رکھ لیں اور اس سے اوپر والوں کا پرچہ علیحدہ رکھ لیں۔ وہ معیار صغیر، معیار کبیر ہی کہلائیں گے لیکن عمر کے لحاظ سے معیار صغیر کی عمر فلاں سے فلاں تک اور معیار کبیر کی عمر بارہ سے پندرہ سال تک ہے، اس کے مطابق امتحان لے لیا کریں ، وہ کون سا ایسا مسئلہ ہے۔ بچوں کو مشکل سوال نہ ڈالیں، بچوں کو بچوں والے آسان سوال دیں تا کہ ان کیencouragementہو اور وہ پاس ہوں۔ بلکہ اچھی بات ہےکہ جب آپ subdivisionکر کے دیں گے اور کوئی اچھے نمبر لے لے گا ، اس کو انعام دے دیں گے تووہ encourageہو گا اور آئندہ شامل ہو گا۔ تو معیار بے شک وہی رہے، پیپر (paper)کی عمر اس سے پوچھ کےبتا سکتے ہیں کہ تمہاری عمر کیا ہے، اس حساب سے اس کو اتنا پیپر دے دیا۔معیاروں کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عمروں کے گروپ تو آپ internal arrangement حساب سے کر سکتے ہیں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب تین بندے غار میں بند ہو گئے تو ان تینوں نے اپنی اپنی اچھی نیکیاں خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیں، اس میں سے ایک بندے نے یہ پیش کیا تھا کہ مَیں جب بھی گھر جاتا ہوں سب سے پہلے دودھ دوہ کر مَیں اپنے ماں باپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، تو ایک دفعہ جب وہ لیٹ گھر پہنچا اس کے ماں باپ سو گئے تھے۔
موصوف کی اتنی بات پر حضور انور ایدہ الله نے بقیہ روایت مکمل فرمائی کہ ٹھیک ہے والدہ سو گئی تھی اور والدہ کے پاس گلاس لے کروہ صبح تک کھڑا رَہا اور اس کے بعد اس نے اس کو پیش کیا۔ اس نے یہ کہا تھا کہ مَیں نے تو اللہ کی خاطر کیا تھا ، اگر مَیں نے تیری خاطر یہ کام کیا تھا تو تُو اس پتھر کو ہٹا دے۔ حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ آپ کا سوال کیا ہے؟
موصوف نے عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ ہم اپنے ماں باپ اور بچوں کے حقوق کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی نیکی گنوائی تھی کہ ہم نے تیری خاطر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف ان کے دل میں تھا اور اس خوف کی وجہ سے یا اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں تھی تو اس محبت کی وجہ سے انہوں نے یہ کام کیا۔ آپ بھی اللہ کا پیار اور رضا حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہر کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرنا چاہیے۔قرآن شریف میں اتنا حکم ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے اپنے حق ادا کریں ،بچوں کے حق ادا کریں، تربیت کریں، ان کے لیے دعا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری باتیں بتائیں۔
قرآن شریف کہتا ہے عَاشِرُوۡھُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النساء:۲۰)کہ ان سے اچھی طرح حسن سلوک کرو۔ بیویوں سے لڑائیاں نہ کیا کریں، ان سے حسن سلوک کیا کریں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔حدیث میں آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کی خاطر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالتا ہے تو اس کواس کا بھی ثواب ملے گا۔ صرف ذاتی پیار نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا مطلوب ہو تو پھر سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اگر آپ کا ہر کام اللہ کی رضا کے لیے ہو تو پھر ان کے حقوق ادا کریں۔ماں باپ کی ذمہ داری ہے بچوں کو سنبھالنا اور ان کی تربیت کرنا۔ ان کے سامنے اپنا نیک نمونہ دینا۔ اب اگر قائد ہی چار نمازیں پڑھ رہاہو اور مہتمم تین نمازیں پڑھ رہا ہو تو اس کے بعد بچوں کے سامنے کیا نمونہ پیش کرے گا کہ پانچ نمازیں پڑھو، پھر دعا کیا کرے گا؟
پہلی بنیادی چیز جو اللہ کا حق ادا کرنے کی ہے، اللہ کی خاطر وہی تو بنیادی عبادت ہے۔ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔(الذّٰریٰت:۵۶)کہ اللہ نے انسانوں اور جنّوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔تو وہی عبادت جب ہمارے عہدیدار پوری طرح ادا نہیں کر رہے تو باقی حق اللہ کی خاطر کہاں سے ادا کرنے ہیں ؟
اللہ کا حق ادا کریں اور بندوں کے حق ادا کریں، یہی دو مقصد ہیں جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے اور یہی مقصد ہے جس کو ہم نے خود بھی اختیار کرنا ہے اور آگے لوگوں کو پہنچانا بھی ہے۔ اسی کو لے کے ہم نے اپنے بچوں کی تربیت بھی کرنی ہے۔
ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ چلو پھر۔اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم۔