ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ یا زدہم)
وکیلِ اعلیٰ صاحب کے تاثرات
اس ہفتے مجھے چودھری حمید اللہ صاحب سے ملنے کا موقع ملا جو ربوہ سے تشریف لائے ہوئے تھے، انہیں کئی سال سے جماعت کی بطور وکیل اعلیٰ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ چودھری صاحب کو ۲۰۰۳ءمیں انتخابِ خلافت کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی سعادت بھی نصیب ہوئی جس میں حضورِانور کا بطور خلیفۃ المسیح انتخاب ہوا۔
میں پہلے بھی چودھری صاحب سے کئی بار مختلف مواقع پر مل چکا ہوں لیکن ان کے ساتھ بہت اچھا تعارف نہ تھا اس لیے جب میں ان کو ملنے گیا تو میں کچھ گھبراہٹ کا شکار تھا۔ آپ مسجد فضل کےبالمقابل واقع ایک جماعتی گیسٹ ہاؤس میں رہائش پذیر تھے۔ میں آپ کے کمرے کی طرف گیا اور دروازے پر دستک دی۔ جب انہوں نے دروازہ کھولا تو مجھے نظر آرہا تھا کہ آپ آرام کر رہے تھےجس پر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔ بہرحال میں نے آپ سے درخواست کی کہ کیا آپ کچھ وقت نکال سکتے ہیں تاکہ میں آپ کے تجربات سے کچھ سیکھ سکوں۔ بجائے اس کے کہ مجھے کسی اَور وقت آنے کا کہتے چودھری صاحب نے مجھے باہر ایک منٹ کے لیے انتظار کرنے کا کہا۔
وقت کی پابندی کے ساتھ پورےایک منٹ کے بعد آپ نے دروازہ کھولا تو آپ اچکن اور ٹوپی زیب تن کیے ہوئے تھے۔ آپ گیسٹ ہاؤس کے ایک چھوٹے لاؤنج میں مجھے لے گئے۔ آپ کے ساتھ گفتگو دلچسپ رہی اور مجھے آپ سےبہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ آپ نے مجھے بتایا کہ کس طرح آپ نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ جماعت نے مستقل ترقی کی اور بہت زیادہ وسعت اختیار کر گئی ہے۔ آپ نے بتایا کہ آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا الہام کہ جہاں کہیں بھی تم ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا، کئی مواقع پر پورا ہوتا ہوا دیکھا ہے جس کی ایک عظیم مثال جلسہ سالانہ ہے، جس میں ہزاروں احمدی پوری دنیا سے اپنے خلیفہ کو ملنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
میں نے چودھری صاحب کو بتایا کہ حضورِانور روزانہ سو سے زائد فیملیز کو شرفِ ملاقات بخشتے ہیں اور ان سے پوچھا کہ انہیں کیا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ اسی طرح جاری رہے گا؟ اس کے جواب میں چودھری صاحب نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ممکن ہے کہ کچھ پابندیاں لگانی پڑیں کیونکہ جماعت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عملی طور پر سب سے ملاقات کرنا ممکن نہ رہے۔ یہ بھی جلسہ سالانہ کی ایک برکت ہے کہ ہزاروں احمدی اپنے خلیفہ کا دیدار کر سکتے ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جب خلیفۂ وقت کسی کو دیکھتے ہیں تو اگرچہ وہ اس شخص کو ذاتی طور پر نہ بھی ملیں پھر بھی وہ اس کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔
اس لیے اگر آئندہ کسی خلیفہ کے لیے جملہ افراد جماعت سے ملنا ممکن نہ بھی ہوا تب بھی ان شاء اللہ احمدیوں کو اپنے خلیفہ کا دیدار کرنے اور خلیفہ وقت کو افراد جماعت کو دیکھنےکا موقع ملتا رہے گا ۔
ایک جذباتی واقعہ
میں نے چودھری صاحب سے ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ءکے سانحہ جب ۸۶؍احمدیوں کو لاہور کی دو مساجد میں ایک دہشت گرد حملہ میں شہید کردیا گیا تھا ،کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے بتا یا کہ وہ وقت ساری جماعت کو جذباتی کر دینے والا تھا۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ حضورِ انور کی ہدایات کی روشنی میں ربوہ سے جماعت کا وفد ہر شہید کے گھر گیا اور انہیں تسلی دی، ان کی بات سنی اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی اور جو بھی مسائل یا مشکلات ان کو درپیش تھے انہیں حل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم سب سے بڑی تسلی انہیں حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے ملی جب حضورِ انور نے ہر شہید کی فیملی سے فون پر گفتگو فرمائی۔
چودھری صاحب نے مزید بتایا کہ لاہور میں حملوں کے اگلے ہفتے ہی احمدی ماؤں نے جن کے شوہر شہید ہو گئے تھے،اپنے بچوں کو بتایا کہ وہ مسجد میں جا کر اسی جگہ جمعہ کی نماز ادا کریں جہاں ان کے والد بیٹھا کرتے تھے۔
جب چودھری صاحب نے مجھے ان احمدی ماؤں کی کیفیت بتائی جو بیوہ ہو چکی تھیں اور پھر بھی غیر متزلزل ایمان اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئےاپنے بیٹوں کو مسجد بھجوایاتو میں بھی جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ اس واقعہ نے مجھے یہ بات باور کروائی کہ میرے جیسے لوگ یہاں مغربی دنیا میں کس قدر آرام دہ اور سہولت والی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر ہمیں ان حالات کا سامنا ہوتا تو ہم کیا کرتے؟ کیا ہم بھی اگلے ہی ہفتے اپنے بچوں کو انہی مساجد میں بھجوانے کے لیے تیار ہوتے؟ کیا ہم پوری شرح صدر سے انا للہ و انا الیہ راجعون کہہ کر صبر اور حوصلہ سے آگے بڑھنے کی طاقت رکھتے؟
ایک ایمان افروز خواب
بعد ازاں چودھری صاحب نے مجھے ایک ایمان افروز خواب سنائی جو آپ نے ۱۹۹۸ء میں دیکھی تھی۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ آپ ایک باغ میں کھڑے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا بھی ہے جس کی عمر کا اندازہ آپ کے نزدیک بارہ یا تیرہ سال تھا۔ یہ باغ ایک عمارت کے قریب ہے جس میں آپ کو احساس ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام موجود ہیں ۔ اس خواب کے دوسرے حصے کا ذکر کرتے ہوئے مکرم چودھری صاحب نے بتایا کہ وہ نوجوان لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرا کوٹ لاؤ جو پانچویں درخت پر لٹک رہا ہے۔ یہ ہدایت سننے پر میں نے درخت گننا شروع کیے اور پانچویں درخت کے پاس پہنچا جہاں ایک خاکستری رنگ کا کوٹ لٹکا ہوا تھا جسے ابھی ابھی استری کیا گیا تھا۔ میں نے اس کوٹ کو نیچے اتارا اور اسے اس لڑکے کے حوالے کر دیا جو اسے اپنے ساتھ لے گیا۔
مکرم چودھری صاحب نے مزید بتایا کہ پانچ سال بعد،میں نے خلافت خامسہ کا انتخاب کروایا اور جو کوٹ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے انتخاب کے دوران زیب تن فرمایا وہ خاکستری رنگ کا تھا، جو بالکل ویسا ہی تھا جیسا میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس کوٹ میں آپ بطور خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے۔ اس سے قبل میں نے اپنی خواب کی تعبیر کئی جہات سے کرنے کی کوشش کی لیکن صرف اس انتخاب کے بعد ہی مجھے حقیقی طور پر معلوم ہوا کہ وہ خواب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز سے متعلق تھا۔
محترم چودھری صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنا میرے لیے باعثِ سعادت تھا۔ ظاہر ی طور پر مکرم چودھری صاحب ایک با رعب شخصیت کے مالک ہیں مگر جب میں نے آپ کے ساتھ بات کی تو آپ کو نہایت شفیق اور ہمدرد پایا۔
[محترم چودھری حمید اللہ صاحب مورخہ۷؍ فروری ۲۰۲۱ء کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون]
کبھی نہ بھلائے جانے والے دن
[ایک ]میٹنگ کے اختتام پر حضور انور نے خاکسار کو بلایا اور استفسار فرمایا کہ کیا میں گذشتہ چند دنوں میں بہت سی میٹنگز سے تھک تو نہیں گیا؟ جواباً خاکسار نے عرض کیا کہ حضور! یہ دن بہترین اور خوشی سے بھرپور دن ہیں کیونکہ روزانہ مجھے سارا دن حضور انور کی قربت نصیب ہو رہی ہے۔اوریہی حقیقت بھی تھی۔اس وقت بھی جب میں یہ ڈائری لکھ رہا ہوں اور اپنے روزمرہ معمولات میں واپس آ چکا ہوں، میں جلسہ سالانہ یوکے،کے دنوں کو بہت زیادہ یاد کر رہا ہوں۔ مسجد فضل کے اردگرد کا ماحول یکسر مختلف تھا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ حضور انور صرف چند میٹر کے فاصلے پر ہم میں موجودہیں۔
احمدیوں کے جذبات
اس دن پچھلے پہر،میری ملاقات چند احمدیوں سے ہوئی جن کی کچھ ہی دیر قبل حضور انور کے ساتھ فیملی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
میری ملاقات ماریشس کی ایک خاتون امۃ القیوم صاحبہ اور ان کے بیٹے جمشید کے ساتھ ہوئی۔
امۃ القیوم صاحبہ نے بتایا کہ میرے لیے اپنےجذبات کے اظہار کے لیے الفاظ ملنا مشکل ہیں۔ حضور انور نے ہمارے ساتھ جس محبت کا سلوک فرمایا ہے اور دیگر احمدیوں سے بھی فرماتے ہیں اس کا بیان مشکل ہے۔میں نے عہد کیا ہے کہ میں پہلے سے زیادہ مخلص احمدی بنوں گی، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کروں گی اور خلیفۃ المسیح کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں گی۔
عزیزم جمشید نے بتایا کہ حضور انور سے مل کر عاجزی کا احساس ہوتا ہے کیونکہ ہم کچھ بھی نہیں اور خلیفہ وقت ہمارا استقبال کرتے ہیں اور ہمیں شرف ملاقات بخشتےہیں۔ آپ اس قدر شفیق، نرم خُو اور عاجز ہیں کہ آپ سے ملاقات دل اور دماغ کو چُھو لینے والی ہوتی ہے۔ اس لیے حضورِانور کے ساتھ گزارے ہوئے ان دو سے تین دنوں نے مجھے احمدیت کا مخلص خادم بننے کی خوب ترغیب دی ہے۔
میری ملاقات ایک احمدی دوست نعمان بشارت نون صاحب (عمر ۳۹؍سال) سے ہوئی جن کا تعلق بیلجیم سے تھا اور کچھ ہی دیر قبل ان کی حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔ حضور انور سے ملاقات اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کے تجربہ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران ہمیں حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت ملی اور حضور انور نے میرا ہاتھ پکڑا۔ یہ میری زندگی کا سب سے قیمتی لمحہ تھا۔ مجھے لگا جیسے میں کسی دوسری دنیا میں ہوں۔مجھے لگا جیسے میں جنت میں ہوں۔کوئی دوسرا ایسی روحانی خوشی نہیں پہنچا سکتا جیسی حضرت خلیفۃ المسیح پہنچا سکتے ہیں۔
نعمان صاحب نے مزید بتایا کہ جب میں کئی سال پہلے پاکستان سے بیلجیم آیا تھا تو میں غیر شادی شدہ اور اکیلا تھا۔ نہ میرے والدین میرے ساتھ تھے اور نہ ہی میں شادی شدہ تھا۔اس لیے میرے لیے گمراہی اختیار کرنا اور اپنے عقائد کو بھولنا نسبتاًآسان تھا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وقفہ وقفہ سے مجھےحضرت خلیفۃ المسیح سے ملاقات کرنے کا موقع نصیب ہوتا رہا جب حضور انوربیلجیم تشریف لاتے اوراس بات نے مجھے ہمیشہ جماعت سے قریب رکھا۔یوں خلافت احمدیہ نے مجھے بچا لیا۔