ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دُور بھاگنا چاہیے
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیٴِ ذِی الۡقُرۡبٰی (النحل:۹۱)یعنی بیشک اﷲ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتاہے اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتاء ذی القربیٰ کا حکم ہے۔
عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امارہؔ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے۔ اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبالوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گذرجاوے۔ اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہوگا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں۔عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دَین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں۔یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرتﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے۔
(ملفوظات جلد ۸صفحہ ۳۱۳-۳۱۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)