غزل
تمہیں وہ جان سے پیارا ہو، اب ضروری ہے
تمہاری آنکھ کا تارا ہو، اب ضروری ہے
تمہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے اب رستہ
علاجِ چشم تمہارا ہو، اب ضروری ہے
یہ مان جاؤ مسیحا کی تم کو حاجت ہے
تمہارے درد کا چارا ہو، اب ضروری ہے
تمہاری پیاس بجھانے کو ایک دریا ہو
کہیں قریب کنارا ہو اب ضروری ہے
ڈھلی جوانی، بڑھاپے کے ہیں عیاں آثار
تمہارے پاس سہارا ہو، اب ضروری ہے
بھروسہ ہم پہ کرو ہم تمہیں سنبھالیں گے
ہمارا ساتھ، گوارا ہو، اب ضروری ہے
تمہارے راج میں انصاف مل نہیں سکتا
تو تخت و تاج ہمارا ہو، اب ضروری ہے
بگاڑ بیٹھے تعلّق، خدا ہوا ناراض
یہ کام تم نے سُدھارا ہو، اب ضروری ہے
جسے غرور سے ردّ کر دیا، کہا جھوٹا
تمہارا راج دُلارا ہو، اب ضروری ہے
قریب ہے کہ کرے فیصلہ مقدّر کا
کہ اونچا اُس کا منارا ہو، اب ضروری ہے
مگر ہے وقت مقرّر ہر ایک چیز کا جب
کچھ اور صبر ہمارا ہو، اب ضروری ہے
خدا رحیم ہے طارقؔ، مگر بغیر اس کے
ترا کہیں نہ گزارا ہو، اب ضروری ہے
(ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔ لندن)