حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاقِ فاضلہ کی ایک مثال
حضرت مخدو م الملّت مو لانا مو لوی عبد الکریم صا حب رضی اللہ عنہ الحکم میں ہفتہ وار ایک خط لکھا کر تے تھے جو نہا یت مقبو ل ہو تے تھے۔ان خطو ط میں سے بعض میں آپ نے حضرت مسیح مو عو د علیہ السلام کی سیرت کے بعض حصص بھی لکھے جو سیرت مسیح مو عو د علیہ السلام کے نام سے الگ بھی شا ئع ہو ئی ہے۔اس میں وہ تحریر فر ما تے ہیں کہ ’’ایک عو رت نے اندر سے کچھ چاول چُرا ئے۔ چور کا دل نہیں ہو تا اور اس لئے ا س کے ا عضاء میں غیر معمو لی قسم کی بے تا بی اور اس کا ادھر ادھر د یکھنا بھی خاص و ضع کا ہو تا ہے کسی دوسرے تیز نظر نے تا ڑلیا اور پکڑ لیا۔شور پڑگیا۔اس کی بغل سے کو ئی پندرہ سیرکی گٹھر ی چاولوں کی نکلی۔ اِدھر سے ملامت، اُدھر سے پھٹکا رہو رہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے اُدھر آنکلے۔ پو چھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا۔ فر ما یا۔’’محتا ج ہے۔ کچھ تھو ڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خدا تعا لیٰ کی ستّا ری کا شیوہ ا ختیا ر کرو۔‘‘…
غو ر کرو اور بتاؤ کہ کیا یہ کسی معمو لی حو صلہ اور قلب کے انسان کا کام ہے یا یہ فعل ایسے عا لی ہمت سے سرزد ہو سکتا ہے جس کا دل ہر قسم کی تلخی سے صا ف کر دیا گیا ہو اور کو ہِ و قا رہو۔ چوری کی ہے اور خو ب کی ہے اور معلوم نہیں کہ کتنے د نوں اور عر صہ سے یہ کام جا ری تھامگر خدا کا بر گز یدہ فر ستا دہ ظا ہر ہو جا نے اور پکڑ ے جانے پر بھی صا ف معا ف کر دیتا ہے اور نہ صرف معا ف کر تا ہے بلکہ کچھ دے د یتا ہے۔اور دوسروں کو فضیحت سے رو کتا ہے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ حصہ اول صفحہ ۱۰۱)