قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے (قسط اول)
اسلام سادگی اور قناعت کا حکم دیتا ہے۔ یہ ایک عمدہ اور نہایت نیک صفت ہے جس کے ذریعہ انسان بہت سی پریشانیوں اور مشکلات سے بآسانی گزر سکتا ہے۔ سادہ طرز زندگی درحقیقت اسلام کا وہ پیغام ہے جو انسان کی فلاح اور کامرانی کا ضامن ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَنِیۡنَ وَالۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالۡفِضَّۃِ وَالۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَرۡثِؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَاللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ۔ (آل عمران:۱۵) ترجمہ:لوگوں کے لئے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے۔ اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لَوٹنے کی جگہ ہے۔(ترجمہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)
انسان طبعی طور پر حسن پرست اور مال و دولت کا دلدادہ ہے۔ عموماً رشتہ کرتے وقت مال و دولت اور حسن کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ چیز دین ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ اس کی پروا کم ہی کی جاتی ہے۔ پہلے وقتوں میں بھی اور اس ترقی یافتہ دور میں بھی اولاد جیسی نعمت کے حصول کے لیے یہ سوچ بکثرت پائی جاتی ہے کہ زیادہ لڑکے پیدا ہوں تاکہ باپ کے دنیاداری کے کاموں میں مل کر کام کریں۔ قیمتی موبائل، قیمتی پوشاک، قیمتی گاڑیاں، عالی شان بنگلہ، نوکر چاکر اور زیورات کے انبار یعنی انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں۔ جس کے پاس جتنا ہو اتنا ہی کم لگتا ہے۔ ایسے میں انسان حلال و حرام کی تمیز کھو دیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کی طلب انسان کو حریص بنادیتی ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ۔ وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیۡدٌ۔ وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ۔ (العاديات:۷-۹) ترجمہ: یقیناً انسان اپنے رب کا سخت ناشکرا ہے۔ اور یقیناً وہ اس پر ضرور گواہ ہے۔ اور یقیناً مال کی محبت میں وہ بہت شدید ہے۔(ترجمہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ )
جو شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے وہ اس کم وبیش کے چکر میں نہیں پڑتا وہ قناعت اور بردباری سے کام لیتا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا : ’’حرص و طمع سے بچو کہ اس نے تم سے پہلوں کو برباد کیا، اسی نے اُنہیں آمادہ کیا کہ اُنہوں نے خون بہایا (قتل و غارت گری کی) اور حرام کو حلال سمجھا۔‘‘( صحیح مسلم)
دنیاوی مال و دولت کی حرص و ہوس نہایت خطر ناک ہے۔ اس سے اجتناب نہ کیا جائے تو یہ بعض اوقات دنیاوی بربادی کے ساتھ ساتھ اخروی بربادی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
قناعت ہوس کی زِد ہے۔ قناعت کے لفظی معنی تھوڑی چیز پر راضی ہوجانا ہے۔حرص و لالچ چھوڑ دینے کو قناعت کہتے ہیں۔ قناعت پسند انسان سکون کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے جبکہ حریص اور لالچی انسان کو کسی پل چین نہیں ملتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو(جو لوگ قناعت نہیں کرتے اور حرص میں رہتے ہیں ان کے بارے میں یہ ہے)۔ ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو تب بھی وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دوسری وادی بھی آجائے۔ اس کے منہ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘۔ (سنن الترمذی کتاب الزھد باب ما جاء لوکان لابن آدم وادیان…)
قناعت سے منہ موڑنے والا نفس کا غلام ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ بے سکون اورادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے۔ اس کا حرص اور لالچ اس کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ایک کے بعد دوسری خواہش جاگتی رہتی ہے۔یہی چیز اس کو اللہ سے دُور لے جاتی ہے یہاں تک کہ وہ قبر میں جا پہنچتاہے۔
حضرت اقد س مسیح موعودؑاس بارہ میں فرماتے ہیں: ’’جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں، کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔ کہتے ہیں ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا راستے میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔ اُس نے اُس سے پوچھا کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اسےتعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں، تو گویا سب حاصل ہوگئیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن جب قناعت کرکے سب کو چھوڑ دے، تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۲۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
دنیا اور آخرت میں کامیابی کا بنیادی اصول اللہ پرکامل یقین ہے۔ بے یقینی کا ایک لمحہ کامیابی کے حصول کے لیے سالہا سال کی جانے والی محنت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ بعض اوقات ساری زندگی ناکام ہونے والے شخص کو لمحہ بھر کا یقین کامیابی سے ہمکنار کردیتا ہے۔ یہ قُوتِ یقین قناعت پیدا کرنے کے لیے بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا قناعت کے ضمن میں ایک نہایت حسین واقعہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے خو اتین سے خطاب کے دوران پیش فرمایا۔ حضورؒ نے فرمایا:’’خلافت سے پہلے جب جموں میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ طبیب تھے۔ وہ ایک راستہ سے گزرتے تو ایک ننگے فقیر کو دیکھتے جو دھوتی پہنے بیٹھارہتاتھا۔ اس کا چہرہ غم آلود رہتا، جیسے اسے اپنی غربت کا بہت دکھ ہو۔ تا ہم وہ مانگتا پھر بھی نہ تھا، جو چا ہے ڈال د ے۔ ایک دفعہ خلیفہ اولؓ پاس سے گزر ے تو وہ خوشی سے اچھل رہاتھا۔ چھلانگیں مار رہا تھا۔ اس سے وجہ پو چھی تو اس نے کہا کہ جس کو کوئی خواہش نہ رہے اُسے تو خزانے مل گئے۔ (الفضل۳؍ ستمبر ۱۹۹۸ء)(باقی آئندہ)