انصاف اور سچائی کی اعلیٰ اسلامی تعلیم
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ اپریل ۲۰۱۳ء)
ایک مومن کا ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا دعویٰ اور ظلم روکنے کا دعویٰ تبھی سچا ہو سکتا ہے جب وہ انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ اپنی گواہیوں کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے یہ معیار کن بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے سورۃ مائدہ کی جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ صرف تمہارے معاشرے میں، تمہارا جو چھوٹا ماحول ہے، اُسی میں تمہاری گواہیاں انصاف کے قائم کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ تمہارے دشمن بھی اگر تمہارے سے انصاف حاصل کرنا چاہیں تو وہ بھی انصاف حاصل کرنے والے ہوں۔ اُن کو بھی یہ یقین ہو کہ تم جو بات کہو گے حق و انصاف کی کہو گے۔ یا دشمن پر یہ ظاہر کر دو کہ ایک مومن ہر کام تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے۔ کسی کی دشمنی ہمیں انصاف اور سچائی سے دُور نہیں ہٹا سکتی۔ ہمارے دل تو دشمنی سے پاک ہیں۔ ہم تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں کسی سے نفرت یا دشمنی نہیں ہے۔ لیکن دشمن کے دل کے کینے، بغض اور دشمنی بھی ہمیں اس بات کی طرف مائل نہیں کرے گی کہ ہم غلط طور پر اُسے نقصان پہنچانے کے لئے انصاف سے ہٹی ہوئی بات کہیں گے۔ یہ خوبصورت تعلیم ہے جو ہم غیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اُن پر اسلامی تعلیم کی خوبیاں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہماری باتیں سن کر اسلام کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری باتیں بیشک دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرتی ہیں لیکن ہماری سچی گواہی دینے کی باتیں، ہماری انصاف کے قائم کرنے کی باتیں، ہماری معاشرے میں دشمنیاں دور کرنے کی باتیں، ہماری امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کی باتیں حقیقت میں دنیا کو اُس وقت اپنی طرف متوجہ کریں گی جب ہمارے عملی اظہار بھی اُس کے مطابق ہو رہے ہوں گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرماکر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے کہ قَوَّام بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ یعنی انتہائی گہرائی میں جا کر (کام کرو)۔ قَوَّام کا مطلب ہے کہ انتہائی گہرائی میں جا کر اور مسلسل اور مستقل مزاجی سے کوشش کرتے ہوئے انصاف قائم کرو یا کوئی بھی کام کرو۔ یہاں کیونکہ انصاف کا ذکر ہے اس لئے گہرائی میں جا کر انصاف کے تمام تقاضے پورے کرو اور پھر مسلسل اور مستقل مزاجی سے اس کو قائم کرنے کی کوشش کرو۔ یہ گہرائی میں جا کر اور انتھک اور مسلسل کوشش ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں انصاف بھی قائم ہو گا اور سلامتی کا اور امن کا پیغام بھی دنیا کو ملے گا۔
پس آج دنیا میں انصاف قائم کرنے، سچائی کو پھیلانے، امن اور سلامتی کی ضمانت بننے کا کام مسلسل اور باریک در باریک پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا ایک مومن کا کام ہے، ایک حقیقی احمدی کا کام ہے۔ اس زمانے میں احمدی مسلمان ہی ہیں جو اس دعویٰ کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں، ہم حقیقی مومن ہیں کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ کیونکہ ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہی حاصل کی ہے اور زمانے کے امام کو مان کر صرف ذوقی اور علمی آگاہی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حاصل نہیں کی بلکہ ہم ان احکامات پر کاربند ہونے کا عملی نمونہ بننے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم انصاف پر قائم ہیں۔ کس حد تک ہم سچائی پر قائم ہیں۔ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح اپنے خلاف اور اپنے والد کے خلاف گواہی دے کر دنیاوی فائدے کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی، آج ہم آپ سے جُڑنے کا دعویٰ کر کے یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم حقیقت میں یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو پھر یہ دیکھنے اور سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے گھروں میں بے اعتمادی کی فضا کیوں ہے؟ جن گھروں میں یہ بے اعتمادی کی فضا ہے وہ جائزے لیں میاں بیوی کے تعلقات میں پیارو محبت کیوں نظر نہیں آتا۔ بچے کیوں اس وجہ سے ڈسٹرب ہیں؟ بھائی بھائی کے رشتے میں دراڑیں کیوں پڑ رہی ہیں؟ بدظنیوں کی وجہ سے یا سچائی کی کمی کی وجہ سے تعلقات کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟ دوستی کی بنیاد پر شروع کئے گئے کاروبار ناراضگیوں اور مقدموں پر کیوں منتج ہو رہے ہیں؟ قضاء میں مقدمات کی تعداد میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ یا عدالتوں میں کیوں زیادہ مقدمات احمدیوں کی طرف سے بھی جانے لگ گئے ہیں؟ ظاہر ہے دلوں کی حالت اور ظاہری حالت یا قول میں تضاد ہے۔ اپنے لئے کچھ اَور معیار ہیں اور دوسروں کے لئے کچھ اَور۔ پس ہر احمدی کو، چاہے وہ جماعتی خدمات پر مامور عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے اس بارے میں فکر کی ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے جو دنیا کو انصاف دینے اور سچائی پھیلانے کا اتنا بڑا کام ہے، اُس کو ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے کس طرح سرانجام دے سکتے ہیں تاکہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اُس کی مغفرت کی چادر میں لپٹ سکیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے ٹھہر سکیں۔ یقیناً اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے احکامات پر نظر رکھنی ہو گی۔ اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کی حفاظت جیسا اَور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں۔ لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدتِ بھوک سے ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا؟ بالکل نہیں۔ بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پیے یا کھانا نہ کھا لے، تسلّی نہ ہو گی۔ اسی طرح جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ ناقص اعمال اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے اور نہ وہ بابرکت ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو۔ پھر مَیں برکت دوں گا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 639 ایڈیشن 2003ء)
پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے اُس کے لئے ہر سطح پر ہمیں انصاف کو قائم کرنا ہو گا۔ سچائی کو قائم کرنا ہوگا۔ انصاف اللہ تعالیٰ کے احکامات کو گہرائی میں جا کر جاننے اور عمل کرنے سے قائم ہوتا ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی گہرائی میں جا کر اُن کو جاننے اور اُن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو گہرائی میں جا کر جاننے اور اُن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے تا کہ جہاں ہم اپنے گھروں اور اپنے معاشرے کو انصاف پر قائم رکھتے ہوئے جنت نظیر بنائیں، وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں تبلیغ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ دنیا پر حقیقی انصاف کی تعلیم واضح کر کے اُسے تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے والے ہوں۔ دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی ناانصافیوں اور شامتِ اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُس کے نتائج سے بے خبر نہیں تو لاپرواہ ضرور ہے۔ پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔