اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
عمران خان کا دَور حکومت اور جماعت احمدیہ
مئی ۲۰۲۳ء:جب ۲۰۱۸ء میں عمران خان کی جماعت کو حکومت ملی تو احمدیوں نے اس بات کی امید کی تھی کہ ملکی حالات میں کافی بہتری آئے گی جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا۔ہر کوئی ایک تبدیلی کا منتظر تھا اور عمران خان جو کہ پہلی بار ملک کا وزیر اعظم منتخب ہوا تھا اس سے تو اس بات کی قوی امید کی جارہی تھی کہ وہ تبدیلی لائے گا۔
احمدی نقطہ نظر سے اس کی کارکردگی کا مختصر احوال ریکارڈ کا حصہ بننے کے مستحق ہیں۔
پانچ سال قبل عمران خان نے غلط سمت میں قدم اٹھایا۔ حکومت سنبھالنے کےچند ہی ہفتوں کے بعد اس کی پارٹی نے اسلام آباد میں ایک فرقہ ورانہ بحث کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا ’’ختم نبوت اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں‘‘۔ اس کی موجودگی میں مولویوں نے بے دریغ جماعت احمدیہ کے خلاف تقاریر کیں۔پی ٹی آئی کی سیاسی حمایت کو بڑھانےکےلیے اس کے ایک وزیر ،اعظم سواتی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ’’میں ان پر لعنت بھیجتا ہوں اور عمران خان بھی قادیانیت پر لعنت بھیجتاہے‘‘۔اوپر کی قیادت کی طرف سے اس کھلی مخاصمت سے شہ پا کر مذہبی شدت پسندوں اور اخلاقیات سے عاری انتظامیہ نے احمدیوں کی مساجد کے خلاف خوفناک قسم کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ عمران خان کےدور حکومت میں پچیس احمدی مساجد کو شہید کیا گیا یا نقصان پہنچایا گیا اور کئی ایک کو جلا دیا گیا۔چار مساجد کو سیل کیا گیا اور چار مساجد کے تعمیری کام کو درمیان میں روک دیا گیا۔ ملاوٴں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر تین سو چوہتر احمدیوں کی قبروں کے کتبے شہید کر دیے۔یقین تو نہیں آتا ہے لیکن یہ سچ ہے۔مذہب کا استعمال کر کے جھوٹے مقدمے بنانے اور گرفتاریوں میں تیزی آگئی۔جماعت کی قیادت کو ایسے مقدمات میں نامزد کیا گیا جن کی سزائیں بہت لمبی ہیں۔احمدیو ں کو عید الاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرنے اور اپنے عقائد پر عمل کے جرم کی پاداش میں مقدمے بناکر جیلوں میں ڈالا گیا۔
عمران خان کے معاون وزیر علی محمد خان نے عوامی جلسے میں کہا کہ ’’عمران خان نے قادیانیت کی کمر توڑ دی ہے‘‘۔ یہ تو اس کی خام خیالی ہے لیکن اس نے اپنے عزم کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں تحریک انصاف کی تھیں۔ لہٰذا جو کچھ یہ وفاق میں نہ کر سکے وہ انہوں نے ان صوبوں میں کیا۔۲۰۱۹ء میں پنجاب اسمبلی نے قرارداد پیش کی کہ توہین کے قوانین کو مزید سخت کیا جائے۔اور یہی اسمبلی بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ پر شرمناک انداز میں تنقید کرتی رہی۔پھر اسی اسمبلی نے نیا قانون متعارف کروایا کہ اگر کوئی نکاح کرے گا تو دلہا،دلہن اور دیگر کاغذی کارروائی کرنے والوں کو ایک حلف نامہ لکھ کر دینا ہو گا کہ وہ ختم نبوت پر ایمان لاتے اور بانی جماعت احمدیہ کو (نعوذباللہ ) جھوٹا تسلیم کرتے ہیں ورنہ ان کا نکاح تسلیم نہ کیا جائے گا۔ان حالات کے پیش نظر عمران خان نے طاہر اشرفی کو مذہبی ہم آہنگی کے لیے اپنا نمائندہ چنا۔ اس سے قبل اشرفی جب علماء بورڈ کا صدر تھا تو وہ یہ بیان دے چکا تھا کہ’’میں احمدیوں کی اس ملک میں موجودگی کو قبول نہیں کر سکتا،قادیانیوں کے خلاف بات کرنا ہی مذہبی ہم آہنگی ہے‘‘۔اوپر سے آنے والے اس اثر کی وجہ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کے متعلق سکول کے نصاب میں کسی مثبت تبدیلی کو خارج کردیں۔ حتیٰ کہ احمدی اکثریت والے سکول بھی اس چیز سے محفوظ نہ رہے حالانکہ وہاں پر غیر احمدی کم تعداد میں تھے۔اسی کے پیش نظر راجن پور میں ایک سکول کو بند کر دیا گیا اور وہاں کے چھ احمدی سرپرستوں پر مقدمہ درج کر دیا گیا۔اور جو دفعات لگائی گئیں ان کی سزا تا حیا ت عمر قید ہے۔
نیشنل سائنس کالج کے باہر لگی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تصویر پر چند متعصب طلبہ نے سیاہی پھیر دی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل لمز (LUMS) کی انتظامیہ کو ریاستی اداروں نےپاکستان میں عفو کے موضوع پر گفتگو کرنے کےلیے آنے والے ایک احمدی مقرر کو تقریر کرنے سے روکنے پر مجبور کر دیا۔
عمران حکومت نے احمدیوں کی حالت کو بد تر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انتظامیہ نے روزنامہ الفضل ربوہ کو بھی بین کر دیا اور ساتھ ہی کیبل نیٹ ورک چلانے والوں کو کہا گیا کہ وہ ایم ٹی اے نہیں دکھا سکتے۔عمران حکومت نے الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کےلیے ۲۰۱۸ء کا ایکٹ لاگو کیا اور اس کو امتناع احمدیت قانون کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔یہاں پر وہ سب چیزیں بیان کرنا ممکن نہیں ہیں جو عمران حکومت نے احمدیوں کی زندگی اجیرن کرنے کےلیے کی ہیں۔
کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ امریکہ کے انسٹیٹیوٹ آف پیس(ادارہ برائے امن) اور انسانی حقوق کے سرگرم رکن ناکس تھیمزکو ایک مضمون لکھنا پڑا جس کا عنوان تھا’’پاکستان میں بطور احمدی درپیش خطرات‘‘۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد ۔یوکے)