ذکرِ حبیبﷺ بزبان مسیح الزمان
جو عشق حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے آقا و مطاعﷺ سے تھا اس کی نظیر نہیں ملتی اور آپؑ اس عشق کا برملا اظہار بھی فرماتے۔ چند نمونے قارئین کے پیش نظر ہیں تا ذکرِ حبیبﷺ بھی ہوجائے اور جو لذت اس سے ہمیں حاصل ہو وہ ہماری زبانوں کو درود سے تر کرنے والی بھی ہو۔آمین
حضرت مسیح موعودؑ عربی قصیدہ میں یوں ذکر فرماتے ہیں:
لَا شَکَّ اَنَّ مُحَمَّدًا خَیْرُالْوَرٰی
رَیْقُ الْکِرَامِ وَ نُخْبَۃُ الْاَعْیَانٖ
یعنی بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے بہترین ہیں اور معز ّزین میں سے برگزیدہ اور سرداروں میں سے منتخب وجود ہیں۔
وَاللّٰہِ اِنَّ مُحَمَّدًا کَرِدَافَۃٍ
وَ بِہِ الْوُصُوْلُ بِسُدَّۃِ السُّلْطَانٖ
یعنی بخدا !بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم (خدا کے) نائب کے طور پر ہیں اور آپ ہی کے وسیلے سے دربارِ شاہی میں رسائی ہو سکتی ہے۔
اِنِّیْ لَقَدْ اُحْیِیْتُ مِنْ اِحْیَائِہٖ
وَاھًا لِاِعْجَازٍ فَمَا اَحْیَانِیْ
یعنی بیشک میں آپ کے زندہ کرنے سے ہی زندہ ہوا ہوں، سبحان اللہ! کیا اعجاز ہے اور مجھے کیا خوب زندہ کیا ہے۔
یَا سَیّدِیْ قَدْ جِئْتُ بَابَکَ لَاھِفًا
وَالْقَوْمُ بِالْاِکْفَارِ قَدْ آذَانِی
یعنی اے میرے آقا! مَیں آپ کے دروازے پر مظلوم و فریادی بن کر آیا ہوں۔ جبکہ قوم نے مجھے کافر کہہ کر دکھ دیا ہے۔
اُنْظُرْ اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَّتَحَنُّنٍ
یَا سَیّدِیْ اَنَا اَحْقَرُالْغِلْمَانٖ
یعنی تُو مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر۔اے میرے آقا میں ایک حقیر ترین غلام ہوں۔
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَالَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیَرَانٖ
یعنی میرا جسم تو شوقِ غالب سے تیری طرف سے اُڑتا ہے، اے کاش! مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۹۰ تا ۵۹۴)
اپنے فارسی منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
(ازالۂ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۷۵)
کہ خدا کے بعد میں عشق محمدؐ سے مخمور ہوں اگر یہ کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں۔
اردو منظوم کلام میں آپؑ فرماتے ہیں:
وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے
وہ طیب و امیں ہے اس کی ثنا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیزکیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم، صفحہ ۴۵۶)
اب حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز اَرضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیدو مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۱۶۰۔۱۶۱)
فرمایا: ’’چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا و صدق و صفا و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلیٰ و اصفا تھے اس لیے خدائے جل شانہٗ نے ان کو عطر کمالات ِخاصّہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفاتِ الٰہیہ کے دکھلانے کے لیے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو ‘‘۔(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۷۱، حاشیہ)
فرمایا: ’’میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ؐہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اُس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے۔ اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی۔ اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی۔ اس لیے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹)
فرمایا: ’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذر چکے تھے۔ سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی۔ ہر گز نہ کرسکتے۔ ان میں وہ دل اور قوّت نہ تھی جو ہمارے نبیؐ کو ملی تھی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذاللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا۔ میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں، لیکن نبی کریمؐ کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے کہ اس کو نکال دوں۔ بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہوسکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ۔‘‘(ملفوظات جلداول صفحہ ۴۲۰)
فرمایا:’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفےٰ و احمد مجتبیٰ ﷺ ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔ (سراج منیر،روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۲)
آپؑ فرماتے ہیں:’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیوںکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں، لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایساکام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۵۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضور ﷺ کے مقام و مرتبہ کو حقیقی رنگ میں سمجھنے اور اس اعلیٰ و ارفع و عظیم نبی کے اسوہ کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین