مفوّضہ دینی کام کو مرتے دم تک کرو (قسط دوم۔ آخری)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۹ء)
(گذشتہ قسط کے لیے ملاحظہ فرمائیے شمارہ ۲؍ نومبر۲۰۲۳ء )
پس ایسی حالت میں اسامہ نے اپنے تئیں اس کام کے جو اسے سپرد کیا تھا نا قابل ظاہر کر کے علیحدگی نہیں چاہی اور یہ نہیں کہا کہ مَیں استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔ اور اگر وہ ایسا کرتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ مَیں دین سے علیحدہ ہوتا ہوں۔ اسی طرح ہم دوسرے کاموں کو دیکھتے ہیں کہ مثلاً حضرت عمرؓ ابو عبیدہؓ کو کمانڈر مقرر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت خالدؓ کو کرتے ہیں جو ایسا شخص تھا، لڑائی میں پیدا ہوا لڑائی میں پلا اور جوان ہوا۔ اور جس کے سر کی چوٹی سے پاؤں کے تلووں تک کوئی جگہ ایسی نہ تھی جس پر تلوار اور نیزے کے زخم نہ ہوں۔ ابو عبیدہ وہ شخص ہیں جو واعظ اور امین تو ہیں مگر سپاہیانہ اوصاف کے نہیں۔ ان کے ماتحت خالد کو کیا جاتا ہے۔ ابو عبیدہ یہ نہیں کہتے کہ مَیں اس خدمت کا اہل نہیں مجھے معاف کیا جائے، وہ یہ نہیں کہتے کہ مَیں اس خدمت کے لائق نہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجھے اس بوجھ سے سُبکدوش کیا جائے۔ وہ اس خدمت کو بجا لاتے رہتے ہیں۔ اس وقت تک کہ ان کی جان نِکل جاتی ہے۔
ساری اسلامی تاریخ میں اس خلافت کے عرصہ میں جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے کسی کا استعفیٰ نظر نہیں آیا کہ کسی شخص نے یہ کہا ہو کہ مَیں اس کام کو پسند نہیں کرتا۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکتا، مَیں استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔ اس عرصہ میں صرف ایک نظیر استعفیٰ کی ملتی ہے۔ جو وہ بھی اس طرح نہیں کہ اس کا م سے نفرت کے باعث استعفیٰ پیش کیا گیا ہو۔ وہ واقعہ حضرت عثمانؓ کے وقت کا ہے کہ ایک قاضی جو بہت بڑی عمر کے ہو گئے تھے اور چلنے پھرنے اور گھر سے نکلنے تک سے معذور ہو گئے تھے اُنہوں نے حضرت عثمانؓ سے عرض کیا تھا کہ اگر اجازت ہو تو مَیں اپنے کام سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں اور وہ واقعہ میں کام کے ناقابل تھے۔ چونکہ وہ دُور رہتے تھے اس لئے ان کی حالت کا حضرت عثمانؓ کو علم نہ تھا۔
بس یہی ایک مثال ہے جو استعفیٰ کی ملتی ہے۔ ورنہ
اسلام کے سارے زمانے میں ایک بھی نظیر نہیں کہ کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کیا گیا ہو اور اس نے اس کام سے نفرت یا خلافِ طبیعت ہونے کے باعث علیحدگی چاہی ہو
اور کہا ہو کہ یہ کام میری طبیعت کے مخالف ہے اور مجھے اس کام سے لگاؤ نہیں۔ یہ کام میری لیاقت سے بالا ہے۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں کیونکہ یہ نفس کے دھوکے ہیں۔
کیا اُسامہ متکبر تھا کہ اس کے ماتحت عمرؓ اور عمروؓ بن العاص اور خالد بن ولیدؓ ایسے اشخاص کو کردیایا عرب کے سب کے سب لوگ اس قسم کے تھے کہ وہ انکسار مجسم تھے۔ یا عرب کے لوگوں کو ہر ایک کام سے جس پر انہیں متعیّن کیا جاتاتھا۔ فطرتی لگاؤ تھا یا ان سے غلطی نہ ہوتی تھی۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہ تھی۔ نہ تو عرب کا ہر ایک باشندہ علم و ہُنر کا ماہرِ کامل ہوتا تھا۔نہ یہ کہ انتخاب میں غلطی نہ ہوتی تھی اور تو اَور بعض اوقات رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے انتخاب میں غلطی ہو جاتی تھی۔ پہلے آپ ایک شخص کو مقرر کرتے مگر پھر اس کو بدل دیتے اور اس کی جگہ ایک اَور شخص کو کھڑا کردیتے۔ فتح مکّہ کے موقع پر ایک شخص کو افسر مقرر فرمایا، لیکن تھوڑی دیر میں اس کو بدل کر دوسرا مقرر کر دیا۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخاب میں غلطی ہو جاتی تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے خالدؓ کو افسر بنایا، لیکن حضرت عمرؓنے ان کو بدل کر ابوعبیدہ بن الجراح ؓکو مقرر فرما دیا۔ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک شخص اَحَقّ تھا لیکن اس ادل بدل میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اس کا م سے معاف فرمایا جائے۔ کیونکہ جب انہوں نے بیعت کی تھی تو
بیعت کرنے والے کو اختیار نہیں ہوتا کہ وہ یہ سوال اُٹھائے کہ مَیں یہ نہیں کر سکتا یا وہ نہیں کر سکتا کیونکہ بیعت کرنے والے نے اپنی آزادی تو بیچ دی۔
اگر وہ یہ کہے کہ مَیں یہ نہیں کر سکتا تو اس نے خدا کے ہاتھ پر یا اس کے نائب کے ہاتھ پر کیا بیعت کی؟ کیونکہ وہ تو وہ کام کرتا ہے جو اس کا نفس چاہتا ہے جب نفس کے خلاف ہوتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ میرا استعفیٰ ہے۔
مثنوی والے کہتے ہیں کہ چوہا اُونٹ کی مہار پکڑ کر اُدھر لے جاتا ہے جدھر اونٹ جارہا ہو۔ لیکن اگر اونٹ ادھر نہ جانا چاہتا ہو آدمی بھی اُدھر مشکل سے لے جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک انسان خدا کے نائب کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُدھر نہ چلے جدھر چلانا اس کو مقصد ہے اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کرے تو اس کی باگ خدا کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کے نفس کے ہاتھ میں ہے۔
خدا کے ہاتھ میں اس کی باگ تبھی ہو گی جب خدا کے منشاء کو پورا کرے گا اور جدھر کو اس کو کھینچا جائے کھنچتا چلا جائے۔
جب تک یہ نہیں دعویٰ بیعت باطل ہے۔
افسوس! حریت کے غلط معنے سمجھنے کی وجہ سے جماعت کے بعض لوگوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ جب ان کو کوئی کام سُپرد کیا جاتا ہے تو بعض تو کہتے ہیں ہم اس کا م کے قابل نہیں۔بعض کہتے ہیں ہمیں اس کام سے مناسبت نہیں۔ بعض کہتے ہیں یہ کام ہماری طبیعت کے مخالف ہے۔ حالانکہ ان کا یہ قول و فعل ان کی بیعت کے مخالف۔ ان کے ایمان کے مخالف۔ ان کے اس یقین کے مخالف ہے جس کے وہ مُدعی ہیں۔
بیعت کے بعد تو مُشکل سے مُشکل کام پر ان کو لگایا جائے گا اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ اس کام کو بجالائیں۔
اگر یہ نہ ہو اور ہر شخص مُشکل سے جی چُرائے تو پھر مُشکل کاموں کو کون کرے۔ اور پھر وہ حصّہ خالی رہ جائے۔ جنگ میں کوئی پہلی لائن میں نہ جائے۔ دُنیاوی معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ افسر جہاں کھڑا کرتا ہے وہاں کھڑے ہونا پڑتا ہے اور افسر کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔ اسلامی طریق میں استعفیٰ کا کوئی طریق نہیں۔ دنیاوی جنگوں کے موقع پر بھی اگر کوئی شخص استعفیٰ پیش کرے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ حریت کا دعویٰ کرنے والی قومیں جو ذراذرا سی بات پر سٹرائیک کر دیتی ہیں۔ جنگ کے موقع پر کوئی استعفیٰ نہیں دیتیں۔
وہ فلسفی حکومتیں جن میں ہر ایک شخص مرضی کا مالک کہا جاتا ہے ان میں جنگ کے موقع پر کوئی سپاہی استعفیٰ نہیں دیتا۔
اس وقت میں حُریّت کے دلدادے بھی اس خیال کو چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی استعفیٰ وغیرہ نہیں رہتا۔ تو دینی حکومت جس میں پہلے ہی یہ قانون نہ تھا اس میں کیسے اب ہوسکتا ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ غلطی کرتا ہے۔ گناہ کرتا ہے۔ مومن کا فرض ہے کہ اسے جس کام پر مقرر کیا جاتا ہے اس کو بجا لائے۔ اس سے یہ نہیں سنا جاسکتا ہے کہ اس کو اس کام سے لگاؤ نہیں اور وہ اس کام کا اہل نہیں۔ اگر فی الواقع وہ اہل بھی نہ ہو گا اور محض خدا کے لئے اس کام کو کرے گا تو
خدا تعالیٰ اس نیک نیتی کے باعث اس کو اس نیک کام کے سر انجام دینے کی توفیق دے گا اور خدا آپ اس کو ہمت دے گا اور اس کی طرف سے نصرت اس کا ہاتھ بٹانے کے لئے آئے گی۔
دیکھو ابو عبیدہ اس کام سے انکار نہیں کرتا جس پر اسے متعین کیا جاتا ہے اور ابو عبیدہ وہ شخص ہے جسے امین تو کہہ سکتے ہیں، لیکن اُمّت کا سپاہی اور جری نہیں کہہ سکتے جیسے کہ خالد بن ولید کو کہہ سکتے ہیں۔ مگر ابو عبیدہ سے جو کام ہوا وہ خالد سے نہیں ہوا اس لئے نہیں کہ وہ اہل تھے یا اپنے آپ کو اس کام کا اہل جانتے تھے۔ بلکہ اس لئے کہ اُنہوں نے اس کام کو خدا کے لئے اپنے ذمہ لیا تھا۔ اور خدا کے مقرر کردہ انتظام کے ماتحت لیا تھا۔ اس لئے خدا نے ان کی مدد کی اور ان کے ذریعہ نہایت عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
جو خدا کے لئے اُٹھتا ہے خدا اس کی مدد فرماتا ہے۔
تو ایک موقع پر دُنیاوی حکومتوں میں ڈپٹی۔ نائب تحصیلدار۔تحصیلدار۔ کلرک کو اجازت ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ مگر دین کے انتظام میں عذر کا موقع نہیں ہے۔ جو ایسا کرتا ہے اُس کے دل پر زنگ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر جب وہ دوسری دفعہ انکار کرتا ہے تو دوسرا سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔پھر جب تیسری دفعہ انکار کرتا ہے تو تیسرا نقطہ لگ جاتا ہے حتّٰی کہ ایک وقت آتا ہے کہ
اس شخص کا یہ بار بار کا انکار اُس کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے۔ پس جتنا وہ انکار کرتا ہے اُتنا ہی اُس کا ایمان مرتا چلا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ آپ کو سمجھنے کی توفیق دے اور وہ اطاعت پیدا کرے جو وہ اپنے بندوں میں چاہتا ہے کہ پیدا ہو۔ آمین۔
(الفضل ۱۵؍نومبر ۱۹۱۹ء)