امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ احباب جماعت احمدیہ کوسوو کی (آن لائن) ملاقات
مورخہ۲۹؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ کوسوو کے ممبران کی آن لائن ملاقات ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ افراد جماعت نے کوسوو کے دار الحکومت پرشٹینا (Pristina)میں واقع مشن ہاؤس سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز تلاوت اور اس کے ترجمہ کے ساتھ ہوا۔ جس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی نظم کا البانین زبان میں ترجمہ پیش کیا گیا۔
سب سے پہلے حضور انور ایدہ الله تعالیٰ کی خدمت اقدس میں کوسوو مشن ہاؤس کے متعلق ایک ویڈیو پریزنٹیشن (presentation) پیش کی گئی جس میں مشن ہاؤس کےمناظر تفصیل سے دکھائے گئے اوربتایا گیا کہ اس کے لیے زمین ۲۰۰۷ء میں خریدی گئی جبکہ تین منزلہ عمارت ۲۰۰۸ء میں بنائی گئی۔اس کا کُل رقبہ دو ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ ملحقہ باغ کی بابت بیان کیا گیا کہ یہ کورونا وباکے دوران بنایا گیا تھا جسے کنویں کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور اس میں سیب، ناشپاتی، آلو بخارہ اور انگور کے پودے لگائے گئے ہیں ۔
باہر کی پارکنگ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مشن ہاؤس پرشٹینا کی اینٹرنس(entrance) سے جب اندر آتے ہیں تو سیدھے ہاتھ پر ملٹی پرپس (multi purpose) ہال واقع ہے جہاں لائبریری بھی موجودہے۔ پھر مردوں اور عورتوں کے نماز ادا کرنے کے ہالز کے مناظر دکھائے گئے نیز خواتین کے نماز ادا کرنے کی جگہ کےمتعلق بتایا گیا کہ ساؤنڈ سسٹم کے ذریعہ یہاں آواز آتی ہے جس کے ذریعہ سےلجنہ اماء اللہ بھی پروگرامز میں شامل ہوتی ہیں۔
بعدازاں پروگرام کی بابت حضور انور کے دریافت فرمانے پر صدر و مشنری انچارج صاحب جماعت کوسوو نے عرض کیا کہ اراکین جماعت کچھ سوالات کرنے کے خواہش مند ہیں، جس پر شاملین ِمجلس کو مختلف موضوعات پر سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔ جن احباب نے مقامی زبان میں سوالات کیے ان کا ترجمہ حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا۔
پہلا سوال ایک نو سالہ طفل کی جانب سے کیا گیا کہ قرآن کریم پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ قرآن شریف پڑھنے کی اس لیے ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری شریعت کے طور پر نازل فرمایا اور اس میں ساری باتیں بتائیں کہ ایک اچھا انسان بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں، ایک اچھا مسلمان بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے طریقے کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ کا صحیح عبادت کرنے والا بننے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرور ت ہے اور پھر جو زندگی کے مختلف پہلو ہیں، روزمرہ کے کام ہیں، ان کو کس طرح ہمیں ادا کرنا چاہیے اور کیا کیا اچھے اخلاق ہیں وہ سارے اس میں بیان کیے ہیں ۔ یہ ایک آخری شریعت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا کہ اس کو پڑھو، اس کو سمجھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور اس لیے ہم قرآن شریف پڑھتے ہیں ۔اگر صرف عربی پڑھ کے اس پر عمل نہیں کرنا تو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پڑھنے کا فائدہ تبھی ہے کہ آدمی اس کو پڑھے، عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اس کا حق ادا کرے اور جو اچھے اخلاق اور اچھی باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں سکھائی ہیں ان پر عمل کرے۔
ایک لجنہ ممبر کا سوال پیش کیا گیا کہ مَیں بطور سیلز وومن (saleswoman) کام کرتی ہوں ، شفٹوں کا کام ہوتا ہے، کام کے دوران نماز اس وجہ سے جلدی پڑھنی پڑتی ہے کہ کوئی گاہک (customer) نہ آ جائے۔اب عادت بن گئی ہے۔ گھر میں ہونے کے باوجود بھی اس عادت کی وجہ سےنماز جلدی سے پڑھ لیتی ہوں۔ اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ مَیں اِس عادت کو کیسے ٹھیک کر سکتی ہوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت دن کے مختلف حصوں میں نمازیں فرض کی ہیں تاکہ دن کے مختلف حصوں میں اللہ تعالیٰ یاد رہے، اس کی عبادت کا حق بھی انسان ادا کرتا رہے اور اپنی اخلاقی ، روحانی حالت کو بہتر کرتا رہے۔ اب اگر آپ سیلز وومن ہیں تو آپ چوبیس گھنٹے تو کام نہیں کرتیں۔ نہ ہی بارہ ، اٹھارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔زیادہ سے زیادہ چھ، سات گھنٹے کی شفٹ ہوتی ہو گی تو اس میں ایک یا دو نمازیں بیچ میں آپ کی آتی ہیں ، وہ آپ جلدی پڑھ لیتی ہیں، باقی دو یا تین نمازیں فجر، عشاء، مغرب ہے وہ آرام سے، سنوار کر ادا کریں۔ یا اگر لیٹ (late)جا رہی ہیں، مختلف شفٹوں کے وقت ہیںعصر اور مغرب کا وقت آ گیا ہے تو اس میں ایک یا دو نمازیں آپ کی شفٹ کے دوران آتی ہوں گی ۔ ان دو نمازوں میں اگر آپ نے نمازجلدی پڑھ بھی لی تو کوئی ہرج نہیں۔باقی نمازیں جو فرض ہیں وہ آرام سے سنوار کر ادا کریں ۔
دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نفل بھی پڑھا کرو۔ جب آپ دوسرے اوقات میں گھر میں ہوتی ہیں تو اس وقت جو نمازیں پڑھتی ہیں وہ اچھی طرح سنوار کر پڑھا کریں اور اس میں جلدی نہ کیا کریں۔ اسی طرح نفل پڑھا کریں ان میں رو رو کر دعائیں کیا کریں اور اچھی طرح سنوار کر ادا کریں تو یہ کمی وہاں سے پوری ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو فرائض ہیں ان کی کمی کو تم نفلوں سے پورا کرو۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ بعض دفعہ فرائض ادا کرنے میں بعض روکیں سامنے آ جاتی ہیں تو اس کے لیے نفل ادا کرنے چاہئیں۔ تو یہی ایک طریقہ ہے۔ باقی اس کی وجہ سے کیونکہ اب دو نمازیں جلدی جلدی پڑھتی ہیں، اس لیے دن میں ساری نمازیں جلدی پڑھیں یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ باقی نمازیں آپ کو سنوار کر اچھی طرح پڑھنی چاہئیں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ مَیں ۲۰۱۵ء میں بیعت کرکے احمدی ہوا تھا اور اس وقت اسلامی فیکلٹی(faculty) میں سٹوڈنٹ تھا تو میرے عزیز و اقارب اور جو لوگ میرے ساتھ studyکر رہے تھے وہ مجھ پر یہ الزام لگاتے تھے کہ مَیں نے پیسوں کی وجہ سے بیعت کی ہے کہ جماعت احمدیہ مجھے پیسے دیتی ہے۔ مَیں اس الزام کا لوگوں کو کیسے جواب دے سکتا ہوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ جواب تو بڑا آسان ہے! پھرحضور انور نے موصوف سےدریافت فرمایا کہ کیا آپ کو جماعت سے پیسے ملتے ہیں؟ اس پر موصوف نے نفی میں جواب دیا۔ حضور انور نے فرمایاکہ جب کچھ نہیں ملا تو یہ سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس لیے یہ الزام ہی غلط ہے کہ مجھے پیسے ملتے ہیں۔
یہ کہہ سکتے ہیں کہ مَیں نے اپنا دین بیچا نہیں ہے، مَیں نے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے آنے والے امام مہدی اور مسیح موعود کو مانا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آنے والے امام مہدی اور مسیح کا پیغام تمہارے تک پہنچے تو اسے میرا سلام کہنا اور اس کو قبول کر لینا اور اس وجہ سے مَیں نے اس کو قبول کر لیا ہے۔ مَیں نے تو اچھی باتیں سیکھی ہیں ، بری باتیں مَیں نے کوئی نہیں سیکھیں۔ مَیں اسی ایک الله پر یقین رکھتا ہوں، ایمان لاتا ہوں ، جس پر سارے مسلمان ایمان لاتے ہیں۔ مَیں اسی رسولؐ پر یقین رکھتا ہوں اور خاتم النبیین مانتا ہوں جس پر سارے مسلمان یقین رکھتے ہیں۔ مَیں اسی قرآن کو پڑھتا ہوں جو آخری شرعی کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری۔ اس لیے کوئی فرق تو ہے نہیں۔
ہاں! اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حکم تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۂ جمعہ میں بھی فرمایا وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡھُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِھِمۡ (الجمعہ:۴) کہ آخری زمانے میں بھی میرے جیسا ایک متبادل نبی آئے گا یا میرا نمائندہ آئے گا اس کو قبول کر لینا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہم ایک شخص کو بھیجیں گے اور اس کی ہم جو تشریح کرتے ہیں وہ آپ قرآن شریف میں پڑھ سکتے ہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح موعود اور مہدی معہود آئے گا۔ تو مَیں نےتو ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لیے اور اس حکم کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے دیا تھا احمدیت قبول کی ہے نہ کہ کسی لالچ کی وجہ سے۔مجھے کوئی لالچ نہیں بلکہ الٹا مَیں جماعت کو پیسے دیتا ہوں تا کہ جماعت تبلیغ اسلام بھی کر سکے اور لٹریچر بھی شائع کر سکے اور اسی لیے جماعت احمدیہ چندوں کےان پیسوں سےقرآن کریم کی اشاعت کرتی ہے، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کےتراجم اور لٹریچر شائع کرتی ہے۔ آپ کے ہاں بھی لٹریچر پڑا ہو گا۔ اس لیے یہ تو بڑا آسان سوال ہے۔ آپ نے بیعت کی ہے، آپ تو جواب دے سکتے ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مختلف امور میں گہری بصیرت، فراست اور دُوراندیشی عنایت فرمائی ہے۔آپ انسانیت کے مستقبل کو کس پیرائے میں دیکھتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے جائزے لینے کے لیے ہر انسان کو عقل دی ہے ۔ اگر انسان اس عقل کو بھی استعمال کرے اور دنیا میں جو واقعات ہو رہے ہیں ان کو بھی دیکھے اور تاریخ پر بھی نظر ڈالے تو حالات سامنے آجاتے ہیں۔ انسانیت کا مستقبل تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم میرے حکموں پر چلو گے تو مَیں تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازوں گا اور تمہاری مشکلات کو دُور کروں گا۔ اگر تم میری ہدایات پرعمل نہیں کرو گے تو پھر اس دنیا میں بھی تمہیں نقصان ہو گا اور اگلے جہاں میں بھی نقصان ہو گا۔
انسانیت کا مستقبل تو اب اسی صورت میں محفوظ ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی بات کو سنے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ؐکو مان لے۔اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب آخری شرعی نبی ہیں، آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہمیشہ قیامت تک کے لیے ہے۔اس کے بعدکوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی اور آپؐ آخری شریعت لانے والے نبی ہیں۔ اس کے بعد جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایاآپؐ کی پیروی میں مسیح موعود علیہ السلام نے بھی آنا تھا ۔اللہ تعالیٰ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب وہ آئے گا تواس کو بھی قبول کرنا۔
اس بارے میں بھی مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں ، کئی دفعہ تقریروں میں ، خطبوں میں بیان کر چکا ہوں، سوال و جواب میں بتا چکا ہوں کہ اگر دنیا اپنے اللہ تعالیٰ کو پہچاننے لگ جائے، اگر دنیا والے اللہ تعالیٰ کی بات کو مان لیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں اور اس کاحق ادا کرنے لگ جائیں اور اسی طرح ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں، حق مارنے والے نہ ہوں، اچھے اخلاق دکھانے والے ہوں اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے والے ہوں تو پھر انسانیت کا مستقبل محفوظ ہے۔ پھر اگر انسان چھوٹے موٹے گناہ کرےتو ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، وہ اگلے جہان میں جا کر اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ ان سےکس طرح کا معاملہ کرنا ہے۔ لیکن اس دنیامیں اللہ تعالیٰ پھر ان لوگوں پر اپنا فضل نازل فرماتا رہتا ہے ۔
لیکن اگر اللہ کی بات نہیں مانیں گے، اللہ کے حق ادا نہیں کریں گے، ایک دوسرے کے بھی حق ماریں گے اور ظلم کریں گے تو انسانیت کا مستقبل بڑا تاریک ہے اور فی الحال یہی لگ رہا ہے کہ انسان نہ اللہ تعالیٰ کی بات سننے کو تیار ہے، نہ اس کے رسولؐ کی بات سننے کو تیار ہے، نہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کو تیار ہے، نہ اس کے بندوں کا حق ادا کرنے کو تیار ہے۔ ہر ایک دوسرے پر ظلم کر رہا ہے اور یہی نفسا نفسی کا عالم دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہی دنیا میں ہر طرف فساد پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا مشکل میں گرفتار ہے۔ ہر جگہ جنگیں ہو رہی ہیں اور بلاک(block) بن رہے ہیں اور اگر یہ اسی طرح ہوتا رہا تو یہ بلاک وسیع ہوتے چلے جائیں گے اور جیسا کہ پہلے بھی مَیں وارننگ(warning) دے چکا ہوں، بتا چکا ہوں، حالات بھی ایسے نظر آ رہے ہیں کہ پھر تیسری عالمی جنگ شروع ہوگی اور اس کے بہت خطرناک نتائج ہوں گے اور تباہی ہی تباہی ہو گی۔اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو عقل اور سمجھ دے، وہ اپنے اللہ تعالیٰ کو بھی پہچاننے والے ہوں، اس کا حق ادا کرنے والے ہوں، اس کے حکم کے مطابق اس کے بندوں کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور جب یہ ہوگا تو پھر انسانیت محفوظ رہ سکتی ہے۔ نہیں تو تباہی کے علاوہ اور کچھ ہمیں نظر نہیں آتا۔
ایک لجنہ ممبر نے سوال کیا کہ جب بچے نماز پڑھنے سے بھاگتے ہوں تو ہمیں ان کو نماز کی طرف کیسے توجہ دلانی چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ آپ خود نماز کی طرف زیادہ توجہ رکھیں۔بچوں کے سامنے نماز پڑھیں اور جب بچے آپ کو دیکھیں گے کہ میری ماں نماز پڑھ رہی ہے اور بڑے خوف،خشیٔت اور سوز سے نماز پڑھ رہی ہے اور دعا بھی کر رہی ہے تو بچے پر ایک نفسیاتی اثر بھی ہو گا کہ مجھے بھی اپنی ماں کی طرح کرنا چاہیے کیونکہ بچوں کو قدرتی طور پر ماں باپ سے ایک ہمدردی کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ میری ماں ایک درد کے ساتھ نمازیں پڑھ رہی ہے تو ان کو بھی احساس ہو گا کہ مَیں بھی اس ماں کے درد کو بانٹوں اور اسی طرح کروں جس طرح میری ماں کر رہی ہے اور جب اس کو نصیحت کریں گے کہ نمازیں پڑھا کرو، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو پھر وہ کہیں گے اچھا میری ماں نے نصیحت کی تھی اور اس نے ایک درد کے ساتھ مجھے نصیحت کی تھی تو مَیں عمل کرنے کی کوشش کروں۔
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ نماز میں بچوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیکیوں پر قائم کرے، ان کو نمازیں پڑھنے کی طرف توجہ دے اور اچھے اخلاق پیدا کرنے کی طرف توجہ دے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں کی دعا بچوں کے حق میں قبول ہوتی ہے، تو جب مائیں اس طرح دعا کریں گی تو اللہ تعالیٰ سنتا ہے۔پیار سے سمجھاتے رہیں۔ ہمارا کام سمجھانا ہے اور اللہ کے فضل سے بچے نیک فطرت ہوں گے اور آپ کا عمل دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے۔ زبردستی تو ہم کر نہیں سکتے، نہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک حد تک ہی سختی کرنی ہے۔ایک عمر تک سختی کرو، دس بارہ سال کی عمر تک، اس کے بعد پھر وہ خود ہی نماز پڑھنے لگیں گے۔لیکن سب سے بڑا سمجھانے کا طریقہ یہی ہے کہ خود ماں باپ کا عمل نیک ہو۔ اگر وہ نمازیں پڑھنے والے ہوں گے، توجہ دینے والے ہوں گے، ایک درد کے ساتھ دعا کرنے والے ہوں گے تو یقیناًبچوں پر اس کا اچھا اور نیک اثر ہو گا۔
کوسوو کے شہریوں کو ۲۰۲۴ءسے یورپ کا سفر بغیر ویزہ کرنے کی اجازت دینے والے نئے قوانین کے متعلق ایک سوال پوچھا گیا کہ کوسوو میں نئے سال سے یورپ کے شینگن (Schengen) ریجن کے لیےویزا فری (free) ہو جائے گا جس سے لوگ ویزے کے بغیر کوسوو سے باہر یورپ کے ممالک میں جا سکتے ہیں ۔حضور انور احمدی احباب کی اس حوالے سے کیا راہنمائی فرماتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اگر تو یہاں لوگوں کو کوئی دقّت نہیں، کوئی مشکل اور پریشانی نہیں ہے ، حالات بھی ٹھیک ہیں تو پھر اپنے ملک میں رہنا چاہیے اور وہیں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور تبلیغ کر کے جماعت کو بڑھانا چاہیے اور اگر بعض حالات ایسے ہیں کہ مجبوریاں ہیں، معاشی حالات ایسے ہیںکہ تنگدستیاں ہیں تو پھر اگر جانا ہو تو جو جا سکتے ہیںجائیں لیکن پھر بھی اپنے ملک سے رابطہ رکھیں، آنا جانا رکھیں اور اپنے دائرے کو وسیع کریں ا ور تبلیغ کریں تا کہ کوسوو میںجماعت زیادہ سے زیادہ پھیلے۔
ایک چھ سالہ بچے نے سوال کیا کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ سے معانقہ (hug)کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ ہم اللہ تعالیٰ سے معانقہ نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کوئی فزیکل باڈی(physical body) نہیں ہے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب مَیں نے کسی کو دکھانا ہوتا ہے تو اپنے نیک بندوں کو سامنے نظر آتا ہوں۔ مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو دکھاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو چیزیں پیدا کی ہیں ، پہاڑ ہیں، درخت ہیں، پانی ہے، دریا ہے، خوبصورتی ہے ، چاند ہے ، ستارے ہیں، سورج ہے، یہ سارے اللہ تعالیٰ کے وجود کا پتا دیتے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ ہماری طرح کا کوئی فزیکل باڈی نہیں ہے جو اس کوhugکیا جا سکتا ہے۔ ہاں! بعض دفعہ بعض لوگوں کو خواب میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو کسی شکل میں دکھا دیتا ہے اور وہاں اس کو مل لیتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے الله کوhug کیا۔ لیکن یہ کوئی ایک چیز نہیں ہے ، مختلف شکلوں میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو دکھاتا ہے اگر دکھانا چاہے تو، اور یہ اللہ کی مرضی ہے۔ اس لیےhugتو اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کوئی فزیکل باڈی ہو، جب وہ نہیں ہے تو ایسا ممکن نہیں۔الله تعالیٰ تو ایک لطیف نور ہے، اس کو ہم اپنے بازوؤں میں تو اس طرح نہیں سمیٹ سکتے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے، ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے رکھے تا کہ ہم اللہ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں۔
ایک لجنہ ممبر نے راہنمائی طلب کی کہ تجارت میں کوئی کیسے کامیابی حاصل کر سکتا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ سب سے پہلی بات ایک مومن کو یہ کرنی چاہیے کہ اس کے ایمان میں کس طرح ترقی ہو۔ اس کا اللہ تعالیٰ سے کس طرح تعلق پیدا ہو۔ جب اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے، ایمان میں ترقی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں ان کو مَیں خود رزق دیتا ہوں اور ایسے ایسے ذریعوں سے رزق دیتا ہوں کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ وعدہ کیا ہوا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓبھی بہت کاروبار کیا کرتے تھے اور انہوں نے تھوڑے سے کاروبار سے اتنی ترقی کی کہ لاکھوں کروڑوں درہم کے مالک بن گئے، بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن گئے۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو کبھی نہیں بھلایا اور انہوں نے نمازیں وقت پر ادا کیں، انہوں نے تہجد بھی پڑھی، نفل بھی ادا کیے، صدقہ و خیرات بھی بہت کھل کے دیا کرتے تھے اور ان کا مقصد یہ ہوتا تھاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ان کا ایسا دل ہوتا تھا کہ ہاتھ دنیا کے کام کر رہے ہیں لیکن دل اللہ تعالیٰ کی یادسے بھرا ہوا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان میں نیکی پیدا ہو جائے ، تقویٰ پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انسان کو خود ہی نوازتا ہے اور برکت ڈالتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ جو بھی آپ کمائیں اس میں اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی رکھیں، چندہ بھی دیں ، صدقہ بھی دیں، غریبوں کا خیال رکھیں اور جب اس طرح کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈالتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ محنت کریں اور ایمانداری سے کام کریں۔کاروبار میں کوئی دھوکا نہیں ہونا چاہیے۔اگر کاروبار میں دھوکا ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے شرک کیا اور اللہ تعالیٰ کو شرک پسند نہیں ہے۔ جو کام ہو ، فیئر(fair) ہو، ایمانداری سے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈالتا ہے۔ پس اللہ کو یاد رکھنا، ایمانداری سے کام کرنا ، ہر دھوکے سے پاک رہ کے کام کرنا، جو کمائی ہے اس میں سے صدقہ و خیرات کرنا ، چندہ دینا اور دل لگا کے محنت کرنا ، یہ کام کرتے رہیں گے تو آپ کے کاروباروں میں برکت پڑتی رہے گی۔
ایک اور سائل نے سوال کیا کہ جب بچہ غلطی کرتا ہے تو اسے کیسے سمجھایا جائے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اگر اس نے پہلی دفعہ کوئی حرکت کی ہے تو یونہی سزا نہیں دینی چاہیے اور ذرا ذرا سی بات پربچوں کو سزا دینا اور غصہ کرنا ، اس سے بچے اَور بگڑ جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو پیار سے سمجھانا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے کہ لوگ جتنا بچوں پرغصہ نکالتے ہیں، ان کو سزائیں دینے کی طرف توجہ کرتے ہیں، اتنی اگر ان کے لیے دعاؤں کی طرف توجہ دیں تو بچوں کی تربیت اچھی ہو جاتی ہے۔ پھر ماں باپ اگر اپنا اچھا نمونہ دکھائیں، بچے کو پتا ہو کہ یہ اچھے اخلاق ہیں، یہ برے اخلاق ہیں، یہ اچھی بات ہے، یہ بری بات ہے تو بچہ وہ غلط حرکت کرے گا ہی نہیں، وہ ماں باپ کے منہ کو دیکھے گا۔
اس لیے پہلے ماں باپ اپنی اصلاح کریں پھر بچے کو پیار سے سمجھائیں ۔ سزا دینا تو آخری حدہے جس نےکوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو سزا ملتی ہے۔اس میں بھی احتیاط سے سزا دینی چاہیے۔ ہاں! ذرا سا جھاڑ دیا ، ڈانٹ دیا، ذرا سے غصہ کا اظہار کر دیا، لیکن وہ بھی ایک عمر کے بچہ کے بعد ۔ چھوٹے بچوں کو اگر آپ اس طرح کریں گے تو بچے بگڑ جائیں گے۔ بچوں کو سزا نہیں دینی چاہیے ان کو پیار سے سمجھانا چاہیے کہ یہ بری بات ہے، یہ اچھی بات ہے۔اگر نیک فطرت بچہ ہے اور عموماً نیک فطرت ہوتے ہیں تو بچے سمجھ جاتے ہیں۔اگر ان کو یہ یقین ہو کہ ہمارے ماں باپ ہمارے سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ہمیں نیک بات بتاتے ہیں۔
ایک شامل مجلس نے اس ملاقات کی سعادت کے ضمن میں اپنے فرط محبّت اور جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ آج ہمارے لیے ایک بہت عظیم برکت والا دن ہے۔ہمارے دلوں میں آپ کے لیے بہت عزت اور پیارہے اور یہ ہمارے ملک کے لیے بھی بہت عظیم لمحات ہیں۔
ایک صاحب نے حضور انور ایدہ الله تعالیٰ کے دورۂ کوسوو کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ایسا دَور ہ کب ممکن ہو سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نےتلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے اس خواہش کے پورا ہونےکے لیے دعا کریں۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انورایدہ الله تعالیٰ نے حاضرین مجلس کو ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی جانب توجّہ مبذول کرواتے ہوئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنے والے مسیح موعود کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی، جس نے آکر اسلام کی تعلیم کوحقیقی اور صحیح رنگ میں دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کرنا اور پھیلانا تھا۔اب آپ لوگوں کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو فضل فرمایا اور آپ کو احمدیت ، حقیقی اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ، اس پیغام کو اپنے ہم وطنوں، اپنے ملک والوں میں بھی پھیلائیں اور زیادہ سے زیادہ تبلیغ کی طرف توجہ رکھیں۔ اس کے لیے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دیں، اپنے اعلیٰ اخلاق بنائیں، دینی علم بھی بڑھانے کی کوشش کریں اور روحانیت کو بھی بڑھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب ،عورتوں، مردوں اور بچوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کرے جلد کوسوو میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائے۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ