ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دوازدہم)
احمدیوں کے جذبات
۱۸؍اگست بروز جمعرات کو،باوجود اس کے کہ اگلے روز حضورِانور نے خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمانا تھا،۹۱؍احمدی فیملیز نے اپنے پیارے امام یعنی حضورِ انور سے شرف ملاقات حاصل کیا۔
ناروے کے ایک احمدی دوست عبدالقدوس عامر صاحب (عمر ۴۸؍سال) نے مجھے حضورِانور سے ملاقات اور جلسہ سالانہ کے تجربات کے بارے میں بتایاکہ آپ میرے چہرےپر مسکراہٹ دیکھ سکتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے میں اُڑ رہا ہوں۔ یہ سب آج میری حضورسے ملاقات کی خوشی کے باعث ہے۔جب آپ حضورِانور کے قرب میں ہوتے ہیں یا آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں تو باقی دنیا کو یکسر بھول جاتے ہیں۔
عبدالقدوس صاحب نے بتایا کہ ۱۹۸۶ء میں جب وہ نوجوان خادم تھے تو انہیں سندھ پاکستان میں حضورِانور کے ساتھ ایک ہفتہ گزارنے کا موقع ملا تھا جہاں حضورِانور کسی زمین کے معائنہ کے لیے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں اس وقت کافی چھوٹی عمر کا تھا لیکن تب بھی حضورِانور کی شخصیت کا میرے اوپر بہت اثر تھا۔ ایک بات جو مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے وہ یہ ہے کہ کھانے کے اوقات میں حضورِانور ہم سب کو بلا لیا کرتے اور ہمارے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے۔ آپ وہی کھانا اور انہی برتنوں میں تناول فرماتے جو ہم استعمال کرتے ۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر ابھی بہت چھوٹے بچے تھے پھر بھی آپ نے کبھی اپنے آپ کو ہم سے برتر قرار نہیں دیا یا ہم سے الگ تھلگ رہنا پسند نہیں فرمایا۔میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں کیونکہ وہ میری زندگی کا قیمتی ترین وقت تھا اور اسی کی بدولت آج حضورِانور مجھے جانتے ہیں ۔
جلسہ سالانہ کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ امسال جلسہ سالانہ غیر معمولی طور پر اچھا تھا۔ روحانی لحاظ سے توکوئی چیز اس کا مقابلہ کر ہی نہیں کرسکتی لیکن انتظامی طور پر بھی بہت عمدہ انتظامات تھے۔ میں ہر سال جلسہ سالانہ یوکےپر آکرغور کرتا ہوں کہ کیا بہتری لائی جا سکتی ہے اور پھر اپنی تجاویز براہ راست حضورِانور کی خدمت میں بھجوا دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ماضی میں مجھے محسوس ہوا کہ جلسہ گاہ کا فرش بہت سخت اور آرام دہ نہیں ہے ۔لیکن اب ایسا نہیں ۔بہرحال اس مرتبہ میرے پاس بہتری کی کوئی تجویز نہیں۔
ماریشس سے ایک احمدی دوست فضل احمد تاؤ صاحب (عمر ۵۸؍سال )نے بتایا کہ حضورِانور کی موجودگی آپ کوورطۂ حیرت میں مبتلا اور جذبات سے مغلوب کر دیتی ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اسلامی تعلیمات کی سچائی پر آپ کے ایمان کو بڑھاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضورِانور اپنے خطابات ہمارے دلوں کے احوال اور ہماری کمزوریوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ارشادفرما تے ہیں۔
میری ملاقات افضال احمد رؤف صاحب مربی سلسلہ یوگنڈا سے بھی ہوئی، جنہوں نے بتایا کہ ان کا تقرر اب نائیجیریا ہوا ہے۔ اپنے تجربات کے بارے میں افضال صاحب نے بتایا کہ وہ لوگ جو دور رہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ افریقہ کی زندگی بہت کٹھن اور دشوار ہو گی تاہم ہمیں مشکلات پریشان نہیں کرتیں کیونکہ ہمیں وہاں حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ ہم وہاں خدمت کرنے کو اللہ تعالیٰ کا فضل گردانتے ہیں اور ہمیں بار بار یہ حقیقت اس بات کو باور کرواتی ہے کہ ہمارے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح کی دعائیں ہیں جو ہماری حفاظت کر رہی ہیں۔
کینیڈا کی وقفِ عارضی ٹیم کے لیے ایک بابرکت موقع
حضورِانور نے کینیڈا سے آئے ہوئے ۱۵۴؍خدام سے ملاقات فرمائی جو جلسہ سالانہ میں وقفِ عارضی کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس ٹیم کے ذمہ جلسہ کے اختتام پر حدیقۃ المہدی میں wind up کی ڈیوٹی تھی۔ حضورِانور نے از راہِ شفقت انہیںمحمود ہال میں شرفِ ملاقات بخشا اور خدام کو حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت نصیب ہوئی۔خدا م ایک قطار میں گزرتے جاتے اور حضورِانور سے مصافحہ کرتےجاتے۔ حضورِانور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا سے استفسار فرمایا کہ ان کے وفد کے کل خدام کی تعداد کیا ہے؟ صدر صاحب نے بتایا کہ اندازاً ۱۵۰؍ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ آپ کو معین تعداد کا علم ہونا چاہیے، اندازاً نہیں۔
بعد ازاں میری ملاقات ایک خادم غلام مقصود صاحب سے ہوئی جنہوں نے وقفِ عارضی کے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں ان خدا م میں سے ایک تھا جنہیں وقار عمل کرنے کا موقع ملا اور میں نے جلسہ سالانہ (یو کے )کے wind up میں حصہ لیا۔ ہمارے سپرد مختلف نوعیت کےکام کیے گئے جن میں کرسیاں اٹھانا، قالین اور فرش وغیرہ کا wind upشامل تھا۔ میں نے کچھ وقت لنگر خانہ میں بھی گزارا اور وہاں بعض نئے ہنر سیکھے۔اس کے علاوہ ہم نے کوڑا کرکٹ اٹھایا اور ٹائلٹ بھی صاف کیے۔
غیر از جماعت لوگوں کے لیے شاید یہ بات حیران کن ہو کہ ہم اس قسم کے کاموں کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کر رہے ہیں لیکن ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کو ایک بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر میں اپنی معمول کی زندگی میں ایسی جسمانی مشقت طلب کاموں کا دسواں حصہ بھی کرنے کی کوشش کروں تو میں تھک کر چُور ہو جاؤں گا لیکن جس دوران میں جلسہ پر ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مستقل ہمیں طاقت اور توفیق بخش رہا ہے۔ یہ ہماری زندگی کے بہترین دنوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضورِانور سے ملاقات کا شرف بخش کر ہمیں اس کا خوب اجر عطا فرمایا۔ الحمدللہ
وقفِ عارضی ٹیم میں شامل ایک اور دوست رومی ساہی صاحب (عمر۳۴؍سال) تھے۔انہوں نے بتایا کہ یہ جلسہ میرے لیے روحانی طراوت کا باعث بنا۔میں رات کو جلسہ گاہ میں سوتا اور اپنی آنکھوں سے دیکھتا کہ لوگوں نے کس طرح بہادری سے سردی کا مقابلہ کیا اور نماز تہجد ادا کرنے کے لیے اپنے بستر چھوڑ کر بشوق و رغبت آتےرہے۔ ان کو دیکھ کر مجھے اپنے اندر بھی بہتری پیدا کرنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی رغبت پیدا ہوئی۔
موصوف نے مزید بتایا کہ وقفِ عارضی ٹیم کا حصہ بننا ایک ایسا تجربہ تھا جو میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ مَیں نے خود میں اور اپنی ٹیم کے ہر ممبر میں ایک روحانی تبدیلی محسوس کی ہے۔پھر حضورِانور نے خطبہ جمعہ میں بھی ہماری ٹیم کا تذکرہ فرمایا جو ہمارے لیے بہت خوش آئند تھا اور ہمیں یو ں لگا کہ اب ہم تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
ایک یاد گار انٹرویو
Boliviaسے تشریف لانے والے ایک صحافی نےایک انٹرنیشنل وفد میں شامل ہو کر کچھ روز قبل حضورِانور کا انٹرویو کیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے درخواست کی کہ وہ حضورِانور سے one-on-one انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ حضورِانور نے ازراہ شفقت یہ درخواست قبول فرما لی اور یہ انٹرویو ۱۹؍اگست کی شام کو ہوا۔ حضورِانور کے کئی انٹرویوز میں مجھے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا ہےلیکن بالخصوص یہ انٹرویو مجھے سب سے زیادہ پسند آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض سوالات کے جواب میں حضورِانور نے بعض ذاتی واقعات بیان فرمائے جو جذباتی اور ایمان افروز تھے۔
صحافی نے پہلا سوال حضورِانور سے یہ پوچھا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ میں ہر سال اتنے زیادہ لوگ کیوں شامل ہو رہے ہیں؟
اس کے جواب میں حضورِانور نے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ مذہب کا معاملہ دل کے ساتھ ہے۔ لوگوں کی ہمارے میں شامل ہونے کی یہ وجہ ہے کہ ان کے دل ہماری تعلیمات پر مطمئن ہوتے ہیں۔انہیں ہمارے پیغام سے امن اور سکون محسوس ہوتا ہے۔
بعد ازاں حضورِانور نے اپنے ذاتی ایمان کے متعلق فرمایا کہ میں ایک احمدی مسلمان کے طور پر پیدا ہوا تھا لیکن میں اس کی تعلیمات پر اندھا دھند عمل پیرا نہیں ہوتا بلکہ بے شمار نشانات کا شاہد ہوتے ہوئےمیں دل و جان سے اسلام پر ایمان رکھتا ہوں۔ کئی مواقع پر میں نے کسی چیز کے لیے دعا کی ہے اور میری دعائیں قبول ہوئیں ۔ بعض اوقات یہ دعائیں چند منٹ کے بعدہی قبول ہو جاتی ہیںجبکہ بعض دوسرے مواقع پر چند دن ،ہفتوں یا مہینوں میں قبول ہو جاتی ہیں ۔
صحافی نے حضورِانور سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا خاص تجربہ ہے جس نے آپ میں اسلام کی سچائی پر ایمان پیدا کیا ہو؟ اس پر مجھے حضورِانور کا جواب نہایت دلکش لگا۔ حضورنے فرمایاکہ ایک موقع پر جب میری عمر ۱۷؍سال تھی، مجھے اپنے والد صاحب سے کوئی چیز چاہیے تھی لیکن میں ان سے براہ راست مانگنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے خلوص سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ وہ چیز جلدمیرے والد صاحب کے ذہن میں ڈال دے چونکہ اس چیز کے حصول کے لیے میرے پاس پچیس سے تیس منٹ کا وقت ہی تھا۔چنانچہ اللہ کے فضل سے اسی دورانیہ میں میرے والد صاحب نے مجھے بلایا اور میری اس خواہش کو پورا کر دیا اوراس طرح مجھے آپ سے براہ راست مانگنا بھی نہیں پڑا۔
جونہی حضورِانور نے یہ فرمایا تو مجھے تجسس ہوا کہ وہ کیا چیز تھی جس کے لیے حضورِانور نے اتنے سال پہلے دعا کی تھی ؟ میں نے سوچا بھی کہ اس بارے میں حضور سے پوچھوں گا تاہم پھر میں نے یہ ارادہ ترک کر دیا اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھےتوفیق دی کہ میں اس موقع پر موجود تھا جب حضورِانور نے یہ ذاتی واقعہ بیان فرمایا۔
بعد ازاں ایک موقع پر حضورِانور نے خاکسار کو اس واقعہ کی کچھ مزید تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ میں نے جس دعا کا ذکر کیا تھا وہ نماز کے دوران نہیں کی تھی بلکہ اس وقت میں باہر کھڑا تھا۔ میں نے وہ بہت تضرّع اور دل لگا کر دعا کی تھی۔
یہ بات بالکل واضح تھی کہ حضورِانور کے الفاظ میں صحافی نے بےحد دلچسپی دکھائی۔ چنانچہ اس کے بعد اس نے پوچھا کہ اس لمحہ کی کیا خصوصیت تھی اور کیا حضور اسے اپنی زندگی میں ایک خاص موڑ قرار دیتے ہیں؟
اس پرحضورِانور نے فرمایاکہ اس سے پہلے بھی کئی واقعات تھے جنہوں نے مجھ پر ظاہر کیا کہ اگر ہم اخلاص سے دعا کریںتواللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ میرا ریاضی کا پرچہ تھا اور میں نے بہت اچھا پرچہ نہیں کیا اور کمرہ امتحان سے نکلتے وقت مجھے یقین تھا کہ میں فیل ہو جاؤں گا۔ بہر حال نتیجہ آنے میں دو ماہ کا وقت تھا تو میں نے بہت دعا کی اور کسی نہ کسی طرح میں پاس ہو گیا۔
حضورِانور نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ربوہ میں مسجد مبارک کے نام سے ایک مسجد ہے۔نوجوانی کے اس دور میں مَیں اس مسجد کے ایک کونے میں اپنے خدا کے حضور رو رو کردعا کرتا رہا۔ جس انداز میں میرے دل سے دعا نکل رہی تھی وہ مجھے اس بات کی یقین دلانے کے لیے کافی تھے کہ میری دعائیں اللہ تعالیٰ تک پہنچ چکی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں پاس ہوگیا۔ بعد ازاں مجھے پتا لگا کہ examination board نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ طلبہ کو رعایتی نمبر دیں گے اور انہی نمبروں کی وجہ سے میں پاس ہو گیا۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)