آنحضورﷺ کی غزوات اور جنگوں کے بارے میں تعلیم
اسلام امن وسلامتی کا مذہب اور دنیا میں قیام امن کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ دنیا میں قیام امن کے بارےمیں اسلامی تعلیم کو یکجا ئی نظر سے دیکھ کر ہر صاحبِ بصیرت جان سکتاہے کہ تمام مذاہب میں صرف دین اسلام نے ہی ایسے راہ نما اصول بیان فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہونے سے دنیا میں مستقل اور پائیدارامن کا قیام ممکن ہے۔ اسلام نے حالت امن اور حالت جنگ ہر دو صورتوںمیں مذہب کے نام پر غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکات سے نہ صرف منع کیا ہے بلکہ اپنے ماننے والوں کوزندگی کے ہر معاملہ میں عدل و انصاف کے سنہری اصولوں پر کاربندرہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ امام راغب اصفہانیؒ اسلام کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:سلم اور سلامۃکے معنے ظاہری اور باطنی مصائب وتکالیف سے بچنے کے ہیں اور اسلام کے معنے سلم (سلامتی) میں داخل ہونے کے ہیں۔ (مفرادت راغب)
پس مسلمان وہ ہے جو سلامتی اور صلح کاری میں داخل ہوکر دوسروں کے سکھ اور آرام کا موجب بنتا ہے۔وہ خود بھی امن سے رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی سلامتی چاہتاہے۔وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کے آگے سرتسلیم خم کرکے اُن پر عمل پیرا ہوتا ہے اور مذہبی واعتقادی اختلافات میں پڑے بغیر ہمیشہ انصاف سے کام لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی قوم یا قبیلہ کی دشمنی اُسے حق بات کہنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میںفرمایا ہے :وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا اِعۡدِلُوۡا ھُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المآئدۃ:۹)اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔
امن جس کامادہ ’’ ا۔ م۔ ن‘‘ ہے، عربی زبان کا لفظ ہے اورلغوی اعتبار سے اس کے بہت سے معانی ہیں چنانچہ لفظ ’’ امن‘‘ اطمینان کے علاوہ سلام اور سلامتی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب ؒ امن کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اَ لۡاَمۡنُ۔اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں۔اَمۡنٌ، اَمَانَۃٌ اور اَمَانٌ یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے۔(مفردات القرآن (مترجم )صفحہ ۴۹۔اسلامی ا کادمی اردوبازار لاہور۔تاریخ اشاعت جون ۱۹۸۷ء )
اس کے بالمقابل جنگ نام ہی وحشت وبربریت اور قتل وغارت گری کا ہے۔جب فاتح اقوام کسی شہر یا ملک میں داخل ہوتی ہیں تو سفّاکی اور درندگی کی تمام حدیں پارکرجاتی ہیں۔انسانی خون ندیوں کی صورت میں بہایا جاتا ہے حتیٰ کہ معصوم بچے،بوڑھے، بیمار اور عورتوں تک کی جان اورعزت محفوظ نہیں رہتی۔مفتوح اقوام کے گھرباراور کاروبار تباہ وبرباد کرکے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے اور اُن کے ساتھ انتہائی ذلت آمیز سلوک رَوارکھا جاتا ہے۔یہ ماضی بعید کے قصے یا باتیں نہیں بلکہ آج بھی اہل دنیا اسی سوچ اور خود ساختہ اُصول پر کارفرما ہے۔ آج بھی جن کے پاس طاقت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے لیے اُصول و قواعد بنانا اور اُن پر عمل کروانا گویا صرف اُنہی کا حق ہے۔ قرآن کریم ایسے ہی جنونیوں کے بارے میں فرماتا ہے :اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡھَا وَجَعَلُوۡٓا اَعِزَّۃَاَھۡلِھَآاَذِلَّۃً وَکَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ۔(النّمل:۳۵)یقیناً جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کردیتے ہیں اور اس کے باشندوںمیں سے معزز لوگوںکو ذلیل کردیتے ہیں اور وہ اسی طرح کیا کرتے ہیں۔
کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ یہ بات کسی ایک بادشاہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے تمام بادشاہ یا طاقتوراسی طرح کرتے رہے ہیں اورآئندہ بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔ تاریخ انسانی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت سے عاری طاقتوروں نے ہمیشہ خون کی ندیاں بہائیںاورانسانی کھوپڑیوں کے مینار بلند کیے۔جنگ عظیم اوّل اور دوم کی تباہ کاریاں ماضی قریب کی انتہائی دردناک اور سچی داستانیں ہیںجن کے بارےمیں سوچ کر ہی انسانی سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔پھرجاپان کے انڈونیشیا پر خوفناک اور انسانیت سوز مظالم درندوں کو بھی شرمسار کردیتے ہیں۔ امریکہ کے جاپان کے دو شہروں پرگرائے گئے ایٹم بموں نے ناصرف آن واحد میں لاکھوں لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیابلکہ اُن شہروں کے باسی آج بھی اُن کے خوفناک نتائج سے دوچار ہیں۔ ویتنام میں وحشت وبربریت کی جو داستانیں رقم کی گئیں اُنہیں تاریخ کیسے فراموش کرسکتی ہے۔ مستقبل قریب میں ایران عراق جنگ، عراق کویت جنگ، عراق پر امریکہ اور اتحادیوں کی چڑھائی،شام، لیبیااور افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگیں اُسی سفاکیت اور درندگی کی مثالیں ہیں جو حضرت ِانسان کے ذریعہ صدیوں سے بےگناہ اور معصوم لوگوں سے رَوا رکھی جارہی ہے۔اسی طرح مذہب کے نام پر اپنے مخالفین پرمسلط کی جانے والی سفاکانہ کارروائیاں مذاہب کی تاریخ پر ایک سیاہ دھبے کے طور پر نظر آتی رہیں گی۔ پس اگر جنگوں کا نام لیں تواُن کی تباہ کاریاں دنیا کے ہر خطے اورہر ملک میں بھیانک اور دردناک صورت میں دکھائی دیں گی۔ ان دنوں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں بھی وحشت و بربریت کی اُنہیں داستانوں کو دہرایا جارہا ہے۔
اس کے بالمقابل رحمت دوعالم نبی مکرمﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں ایک بالکل مختلف تصویر دکھائی دیتی ہے۔جب آپﷺاور آپ کے متبعین پرمخالفین کی طرف سے جنگیں مسلط کی گئیں تو اُن دفاعی جنگوں میںبھی آپؐ نے ایسے اعلیٰ اخلاق دکھلائے کہ جنہیں جان کر انصاف پسند بیگانے بھی حیران وششدرہیں اور تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔اس جگہ بطور نمونہ غیروں کے دو حوالہ جات بیان کیے جارہے ہیں۔ مؤرخ اعظم ایڈورڈ گبن اسلام کی پُرامن تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ہر انصاف پسند آدمی ا س حقیقت کا اقرار کرنے کے لیے مجبورہے کہ قرآن ایک بے نظیر قانون ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات فطرتِ انسانی کے مطابق ہیں اور وہ اپنے اثر کے لحاظ سے ایک حیرت انگیز پوزیشن رکھتا ہے۔ اس نے وحشی عربوں کی زبردست اصلاح کی۔ ہمدردی اور محبت کے جذبات سے ان کے دلوں کو معمور کردیا اور قتل و خونریزی کو ممنوع قرار دیا۔ یہ اس کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ ‘‘ (ہسٹری آف دی ورلڈ صفحہ ۲۸۸بحوالہ الفرقان ربوہ فروری ۱۹۵۵ءصفحہ ۲۶)
اسی طرح مصنفہ روتھ کرینسٹین(Ruth Cransto) جنگوں کے دوران آنحضرتﷺکے پاکیزہ اسوہ اور عیسائیوں کے نمونہ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’محمد عربی(ﷺ) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا۔ ہر جنگ جو انہوں نے لڑی، مدافعانہ تھی۔ وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لیے اور ایسے اسلحے اور طریق سے لڑے جو اُس زمانے کا رواج تھا۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چودہ کروڑ عیسائیوں میں سے [یہ کتاب ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی تھی] جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کردیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو تہ تیغ کیا ہو۔ عرب کے نبی کے ہاتھوں ساتویں صدی کے تاریکی کے دور میں جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہوں، ہونے والی ان ہلاکتوں کا آج کی روشن بیسویں صدی کی ہلاکتوں سے مقابلہ کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس بیان کی تو حاجت ہی نہیں جو قتل انکوزیشن(Inquisition)اور صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہوئے جب عیسائی جنگجوؤں نے اس بات کو ریکارڈ کیا کہ وہ ان بے دینوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان ٹخنے ٹخنے خون میں پھر رہے تھے۔‘‘(World Faith by Ruth Cranston, Haper and Row Publishers, New York, 1949,page 155)
نبی کریمﷺ کی مکی زندگی کے تیرہ سال گواہ ہیں کہ آپؐ نے کفار مکہ کی تمام تر اذیتوں، تکلیفوں اور دکھوں کو نہایت صبر اور حوصلہ سے برداشت کیا اور اپنے صحابہؓ کو بھی اسی کی تلقین فرمائی۔پھرجب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی تو آپﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ اپنی خوابوں کی بستی، اپنے گھربار،جائیدادیں اور کاروبارحتّٰی کہ اپنے عزیزواقارب کو چھوڑ کرایک ایسی دُوردراز اور اجنبی بستی میں آبسے جہاںکی فضا بھی اُن کی طبیعتوں کے ناموافق تھی لیکن وہ اس بات پر خوش تھے کہ انہیں ایک گونہ سکون کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرنے، عبادت الٰہی سے لطف اندوز ہونے اور اپنے دین کی تبلیغ کے مواقع میسر آئیں گے۔ لیکن اللہ اور اُس کے رسولﷺکے دشمنوںکومسلمانوں کا سکون کے ساتھ رہناایک آنکھ نہ بھایا اور وہ اپنی طاقت کے نشے میںچُور، اللہ کے دین کو مٹانے کے لیے مدینہ کی طرف چڑھ دوڑے۔ان نازک حالات میں اُسی خدا نے جوہمیشہ آپ کو صبر کی تلقین فرمایا کرتا تھا،یہ اجازت عطافرمائی کہ اللہ کے دین کو دشمن کے بدارادوں سے بچانے کے لیے تمہیں اپنا دفاع کرنے کی اجازت ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ اورآپؐ کے ماننے والوںکو دفاعی جنگوں کی اجازت دے کر اپنی نصرت کا وعدہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡاؕ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ۔ۣالَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ(الحج:۴۱-۴۰) اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جارہا ہے (قتال کی ) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے۔ اور یقیناً اللہ اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔
جنگ کی ابتدا نہ کرنے کی نصیحت
آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ سے اظہر من الشمس ہے کہ آپﷺ کا دل نوع انسان کی ہمدردی اور اُن کی خیرخواہی کے جذبات سے موجزن تھا۔ انسان تو انسان آپؐ تمام مخلوقات کے لیے نہایت مہربان اور رحیم وکریم وجودتھے۔جبکہ جنگوں کے دوران بھی دنیانے آپ کی رأفت و محبت اور شفقت علیٰ خلق اللہ کے عجیب نظارے دیکھے۔
حضرت بُرَیدَہ ؓکا بیٹا اپنے والد سے روایت کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ جب کسی شخص کو کسی سَرِیَّہکا امیر مقرر فرماتے تو اُسے خصوصی طور پر خود تقویٰ سے کام لینے کا ارشاد فرماتے اور جو مسلمان اس کے ساتھ جا رہے ہوتے ان کی خیر خواہی کا ارشاد فرماتے۔ پھر آپؐ فرماتے: اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جائو اور ان لوگوں سے جنگ کرو جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا ہے۔ جہاد کرو اور فساد نہ کرو اور مُثلہ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں سے ملو تو (جنگ سے قبل) ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دو اور ان تینوں میں سے وہ جو بھی قبول کر لیں وہ ان کی طرف سے قبول کر لو اور اُن سے جنگ کرنے سے رک جائو۔وہ تین باتیں یہ ہیں۔۱۔ ان کو دعوت اسلام دو۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کا اسلام لانا قبول کر لو اور ان پر حملہ کرنے سے رک جائو۔۲۔پھر اُن کوان کے گھروں سے مہاجرین کے گھروںکی طرف منتقل ہونے کا کہو اور ان کو بتا دو کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں۔ اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین کی ہیں…۳۔ پس اگر اسلام میں آنے سے انکار کر دیں تو ان کو کہو کہ جزیہ دینا منظور کر لیں۔ پس اگر وہ جزیہ دینا منظور کرلیں تو ان سے جزیہ لینا قبول کر لو اور ان پر حملہ آور ہونے سے رُکے رہو۔ اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں تو اُن کے خلاف اللہ کی مدد طلب کرو اور ان سے جنگ کرو…(سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد باب وصیۃ الامام حدیث نمبر ۲۸۵۸)اسی طرح ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر بھیجتے ہوئے نصیحت کے رنگ میں فرمایا:لا تقاتلوھم حتی تدعوھم فان اَبَوَا فلا تقاتلوھم حتی یبدؤوۡکم فان بدؤوۡکم فلا تقاتلوھم حتی یقتلوا منکم قتیلًا ثم اروھم ذالک القتیل وقولوا لھم ھل الٰی خیرٍ من ھٰذا سبیل؟ فلأن یھدی اللّٰہ تعالٰی علٰی یدیک خیرٌ لک مما طلعت علیہ الشمس وغربت۔(المبسوط از امام ابوبکر محمد بن ابی سھل سرخسی جلد اول صفحہ ۱۲۱۲۔کتاب السیر باب معاملۃ الجیش مع الکفار، بیت الافکار الدولیۃ،اردن۲۰۰۹ء ) دشمن جو مقابل پر آیا ہے سب سے پہلے اسے دعوتِ اسلام دو۔ اگر وہ انکار کرے تو بھی حملہ میں پہل نہ کرو۔ اور اگر وہ پہل کرے تو بھی آگے نہ بڑھو۔ جب وہ آگے بڑھ کر تمہارا کوئی آدمی مارڈالیں تو ا ن کو یہ شہید دکھائو اور کہو کچھ سوچو کیا تم اس سے بہتر طرز عمل اختیار نہیں کرسکتے۔ اگر وہ پھر بھی نہ سمجھیں تو اس وقت ان کے حملہ کا بھرپور جواب دو۔ یہ تدریج اس لیے ضروری ہے کہ تیرے ذریعہ کوئی ہدایت پاجائے تو یہ تیرے لیے ساری دنیا سے بہتر ہے جس پر صبح وشام سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
پس آنحضرتﷺ نے اپنے پیغام امن کے ذریعہ جنگوں کے دوران بھی نہ صرف بہت احتیاط اور صبر سے کام لینے کی تلقین فرمائی ہے بلکہ اپنے ماننے والوں کو یہاں تک نصیحت فرمائی ہے کہ اگر کسی جگہ اذان کی آواز سنو تو اُس جگہ کسی شخص کو قتل مت کرنا یعنی بلا تفریق مذہب وملت سب کو امان دے دینا۔ چنانچہعِصَام مُزَنِی اپنے والدکے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک سَرِیَّہ پر روانہ کرتے ہوئے یہ ہدایات دیں کہ اگر تم کوئی مسجد دیکھو یا کسی مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو کسی شخص کو بھی قتل نہ کرو۔(ابو داؤد کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین – حدیث نمبر ۲۶۳۲)
حضرت انس ؓبن مالک روایت کرتے ہیں کہ (ایک لشکر روانہ کرتے وقت) آنحضورﷺ نے فرمایا: اللہ کا نام لے کر،اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور رسول اللہ کی امت پر قائم ہوتے ہوئے جائو اور کسی انتہائی بوڑھے شخص، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل نہ کرو۔ دھوکا دہی نہ کرو اور اپنے اموال غنیمت اکٹھے کرو۔ صلح جوئی سے رہو اور ایک دوسرے سے احسان کا معاملہ کرو۔یقیناً اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔(ابو داؤد کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین حدیث نمبر ۲۶۱۱)
کلمۂ توحید پڑھنے والے کو قتل نہ کیا جائے
اسی طرح حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا یہ واقعہ کتب حدیث میں درج ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے ایک سَرِیَّہ کے لیے روانہ کیا ہم بنوجُھَینَہ کی ایک شاخ حُرُقَاپر صبح کے وقت حملہ آور ہوئے (دورانِ جنگ )میں نے ایک شخص پر قابو پالیا۔ اس پر اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھنا شروع کر دیا۔ (اس کے باوجود)میں نے اسے نیزہ مار کر ختم کر دیا مگر یہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہی۔ چنانچہ میں نے اس واقعہ کا ذکر نبیﷺ سے کیا۔ اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا: کیا اس کے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا، یارسول اللہ ! اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اسلحہ کے خوف کے باعث کہا تھا۔ اس پر آنحضورﷺنے فرمایا: أَ فَـلَا شَقَقۡتَ عَنۡ قَلۡبِہٖ حَتّٰی تَعۡلَمَ أَ قَالَھَا اَمۡ لَا تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اس نے خوف کے باعث لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہکہا تھا یا ویسے ہی توحید کا اقرار کیا تھا۔ آنحضورﷺ نے یہ بات میرے سامنے اتنے تکرار سے کہی کہ میں نے اس بات کی خواہش کی کہ کاش میں آج ہی ایمان لایا ہوتا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد قولہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حدیث نمبر۲۷۷)
سو واضح ہو کہ شرفِ انسانی کے قیّمﷺ نے ہر قسم کے حالات میں انسانی شرف قائم کرنے کی کوشش فرمائی ہے یہاں تک کہ تلوار کے سائے تلے کسی کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کی بھی قدر افزائی کی تاکہ انسان کی تکریم قائم ہو اور دنیا میں امن کی راہ ہموار ہو۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کسی کام کے سلسلہ میں مامور فرماتے تو اسے یہ نصیحت فرماتے: بَشِّرُوۡا وَ لَا تُنَفِّرُوۡا وَ یَسِّرُوۡا وَ لَا تُعَسِّرُوۡا یعنی خوشخبری دو اور نفرت نہ پھیلائو،آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا کرنے سے گریز کرو۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب فی الامر بالتیسیر و ترک التنفیر حدیث نمبر۴۵۲۴) آنحضرتﷺکے اس ارشاد سے واضح ہے کہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں بنی نوع انسان کا ہمدرد، خیر خواہ اور اُن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے والا ہو تاکہ اُس کے نرم،ہمدردانہ اور نیک رویّے سے لوگوں کو خوشیاں ملیں، اُن کی باہمی نفرتیں دُور ہوں، اُن کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوںاور اس کے نتیجہ میں وہ ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیرخواہ بن جائیں۔
میدان جنگ میں دشمن سے حسن سلوک
جب ہم میدان جنگ کی بات کریں تو عام طور پر دنیاداروں کا یہ قاعدہ ہے کہ جنگ کے موقع پر اپنے مخالفین کا راشن پانی اور دیگر سہولیات بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تاکہ اُنہیں تکلیف اور اذیت کا سامنا کرنا پڑے جبکہ نبی کریمﷺ کسی بھی موقع پر دوسروں کے لیے زحمت اور تکلیف گوارا نہ فرماتے۔چنانچہ جنگ بدر کے واقعات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ ابتدا میںجنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی۔اس پرحباب بن منذر ؓنے آنحضرتﷺ سے دریافت کیا کہ آیا آپؐ نے خدائی الہام کے ماتحت یہ جگہ پسند فرمائی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اس کو اختیار کیا ہے؟ آنحضرتﷺنے فرمایا :یہ تو محض جنگی حکمتِ عملی کے باعث ہے تو انہوں نے عرض کی پھر تویہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمہ پر قبضہ کرلیں۔ ہم وہاں ایک حوض بنا لیں گے اور پھر جنگ کریں گے۔ اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن انہیں پینے کے لیے پانی نہیں ملے گا۔اس پر آپؐ نے فرمایا: تم نے اچھی رائے دی ہے چنانچہ صحابہ نے اُس جگہ پڑاؤ ڈال دیا۔ تھوڑی دیر بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ ؓنے اُنہیں روکنا چاہا۔اس پر آنحضرتﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا: ان کو پانی لے لینے دو۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ۴۲۴غزوۂ بدر الکبری، اسلام ابن حزام و سیرۃ خاتم النبین صفحہ۳۵۸)
دشمن کے اموال کی حفاظت
پھر دنیا داروں کی یہ بھی رِیت رہی ہے کہ وہ جنگوںکے دوران اپنے دشمنوں کے ساتھ جوسلوک کرنا چاہیں وہ جائز سمجھا جاتا ہے۔موجودہ ترقی کے دَور میں بھی اپنے دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے ہر انسانی قدر پامال کردی جاتی ہے اور اپنے دشمن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے نبی کریمﷺ نے جنگوں کے دَوران بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہر فرمایا اور اپنے عملی نمونے سے اپنے ماننے والوں کے راہنما اُصول وضع فرمادیے۔ جنگ خیبر کے واقعات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ جنگ خیبر کے موقع پر یہودیوں کا ایک چرواہا مسلمان ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے عرض کیا کہ ان سینکڑوں بکریوں کا کیا کروں جو میری تحویل میں ہیں۔ آپﷺنے فرمایا : یہودیوں کے قلعہ کی طرف اُن کو ہانک دو حسبِ عادت یہ خود بخود قلعہ کے اندر چلی جائیں گی۔ (السیرۃ النبویۃ از اسماعیل بن کثیر جزء ۳صفحہ ۳۶۱سنۃ سبع من الھجرۃ، غزوہ خیبر فی اولھا، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت )
اگر آج کے مہذب کہلانے والے دنیا داروں کی روّیوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہمارے رسول کریمﷺ کے اخلاق حسنہ سے کوسوں دُور ہیں لیکن اپنے زعم میں پھر بھی مہذب اور بااخلاق ہونے کے دعویدار ہیں بلکہ اسلام اور بانی اسلامﷺ کے خلاف نفرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
راستہ میں کسی کو نقصان پہنچانے کی ممانعت
جنگوں کے دوران دنیا داروں کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کے آرام کی خاطر دیگر لوگوں کے حقوق کو بری طرح پامال کرتے ہیں لیکن آنحضرتﷺنے لشکر اسلام میں شامل لوگوں کو اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ وہ بلاضرورت زیادہ جگہ گھیر لیں یا راستے میں کسی کی تکلیف کا باعث بنیں۔چنانچہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ میں رسول اللہﷺکے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ جب لشکر نے ایک مقام پر پڑائو کیا تو بعض لوگوں نے بلا ضرورت زیادہ جگہ گھیر لی اور راستے میں لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ اس پر رسول اللہﷺنے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے مقرر فرمایا کہ جو جگہ کو تنگ کرے یا راستہ میں کسی کو نقصان پہنچائے اس کا کوئی جہاد نہیں۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب مایومر من انضمام العسکر حدیث نمبر ۲۲۶۰)
عام طور پر جنگوں کے دوران اہل دنیا کی یہ رِیت رہی ہے کہ فاتحین جس علاقہ یا ملک میں داخل ہوتے ہیں،وہ وہاں کے باشندوں کو ذلیل وخوار اور رسوا کرکے کسی لائق نہیں چھوڑتے۔آج ترقی کے اس دَور میں اپنے زعم میں مہذب کہلانے والی قومیں،جنگوں کے دوران اورجنگ کے بعد مفتوح قوم کے بڑے لوگوں کو ذلیل وخوار کرنا اور اُن کے مذہبی جذبات کو کچلنا اپنا حق سمجھتی ہیں جبکہ شرفِ انسانی کے قیم ہمارے آقاو ہادی حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ نے اپنے ماننے والوں کو یہ درس دیا ہے کہ امن ہو یا جنگ،مشکلات کا سامنا ہو یا مصائب کا زمانہ ہر حالت میں ہر انسان کی جان و مال اور عزت وآبرو کا خیال رکھا جائے اور انہیں کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہ دی جائے۔ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابوسفیان کو ایک جنگی مہم پر روانہ کرتے ہوئے رسول کریمﷺ کی جنگوں کے بارےمیں تعلیم کو خلاصۃً بیان کرتے ہوئے فرمایا:تم کو کچھ ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے خود کو اللہ کی خاطر محبوس کر رکھا ہو گا (راہب وغیرہ) پس تم ان کو اور ان اموال کو جو انہوں نے خدا کی خاطر جمع کیے ہوئے ہیں چھوڑ دینا…
(۱)کسی عورت کو قتل نہ کرنا۔(۲) کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔ (۳) کسی بہت بوڑھے شخص کو قتل نہ کرنا۔(۴) پھل دار پودے نہ کاٹنا۔(۵) آباد زمین کو برباد نہ کرنا۔ (۶) بکری یا اونٹ کی کونچیں نہ کاٹنا سوائے اس کے کہ تم نے ان کو ذبح کر کے کھانا ہو۔ (۷) کھجوروں کو نہ جلانا۔(۸) اور نہ انہیں پھاڑنا۔ (۹) دھوکہ دہی نہ کرنا۔(۱۰) اور نہ ہی بزدلی کا مظاہرہ کرنا۔(موطا امام مالک کتاب الجہاد باب النھی عن قتل النساء و الولدان فی الغزو)
آنحضرتﷺ کی سیرت کے ان واقعات کے بعد چند منصف مزاج غیروں کے حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح ہمارے رسول کریمﷺنے دنیا میں امن کی راہ ہموار کی۔ ایک مشہورمصنف سٹینلے پول (Stanley Lane Poole) آنحضرتﷺ کے بارےمیں یہ گواہی دیتے ہیں کہ حضرت محمد (ﷺ) اپنے آبائی شہر مکہ میں جب فاتحانہ داخل ہوئے اور اہل مکہ آپ کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے تو اُن سب کو معاف کردیا۔ یہ ایسی فتح تھی اور ایسا پاکیزہ فاتحانہ داخلہ تھا جس کی مثال ساری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ (The Speeches and Tablets of the Prophet Mohammad by Stanley Lanepoole, Macmillan and Co. 1882, page xlvi-xlvii)
اسی طرح ایک اور مصنف جناب واشنگٹن اروِنگ (Washington Irving) اپنی کتاب ’’ لائف آف محمدؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آپ(ﷺ) کی جنگی فتوحات نے آپ کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم کی مصنوعی شان وشوکت پیدا کی۔ اگر ان فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کرتے۔ اپنی طاقت کے جوبن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی۔ یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرے میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اسے ناپسند فرماتے۔ (The Life of Mahomet by Washington Irving, Leipzig Bernhard Touchritz 1850,pp.272-273)
پھرمشہور مستشرق سر ولیم میور (Sir William Muir)نے آنحضرتﷺ کے جنگی دشمنوں سے حسن سلوک کے بارہ میں لکھا ہے کہ اپنی طاقت کے عروج پر بھی آپ منصف اور معتدل رہے۔ آپ اپنے اُن دشمنوں سے نرمی میں ذرہ بھی کمی نہ کرتے جو آپ کے دعاوی کو بخوشی قبول کرلیتے۔ مکہ والوں کی طویل اور سرکش ایذارسانیاں اس بات پر منتج ہونی چاہئے تھیں کہ فاتح مکہ اپنے غیظ و غضب میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتا۔ لیکن محمد(ﷺ) نے چند مجرموں کے علاوہ عام معافی کا اعلان کردیا اور ماضی کی تمام تلخ یادوں کو یکسر بھلا دیا۔ ان کے تمام استہزا، گستاخیوں اور ظلم وستم کے باوجود آپ نے اپنے سخت ترین مخالفین سے بھی احسان کا سلوک کیا۔ مدینہ میں عبداللہ اور دیگر منحرف ساتھی جو کہ سالہا سال سے آپ کے منصوبوں میں روکیں ڈالتے اور آ پ کی حاکمیت میں مزاحم ہوتے رہے، ان سے درگزر کرنا بھی ایک روشن مثال ہے۔ اسی طرح وہ نرمی جو آپ نے اُن قبائل سے برتی جو آپ کے سامنے سرنگوں تھے۔ اور قبل ازیں جو فتوحات میں بھی شدید مخالف رہے تھے، ان سے بھی نرمی کا سلوک فرمایا۔ (The Life of Mahomet by William Muir, Vol.IV, London: Smith, Elder and co., 65 Cornhill, 1861,pp.305-307)
خلاصہ کلام یہ کہ شارع اسلامﷺنے اپنے قول و عمل سے اسلام کی امن پسند تعلیم کو نہ صرف پھیلایا ہے بلکہ اپنے ماننے والوں کو اس تعلیم پر عمل کرنے کی واضح نصائح فرمائی ہیں۔پس وہی شخص حقیقی معنوں میں آپ کا مطیع اور فرمانبردارہے جو آپ کی تعلیم پر کاربندہو اوراس دین پر اُس کی روح کو سمجھتے ہوئے اُس پر چلنے کی کوشش کرے۔