خلاصہ خطبہ جمعہ

سنہ دو اور تین ہجری کے بعض واقعات کا تذکرہ نیز فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرر تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۰؍نومبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… عثمان بن مظعون ؓکي وفات کا آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا اور روايت کے مطابق آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے انہيں بوسہ ديا

٭ … غزوہ بنی غطفان کے واقعات میں حضرت رقیہؓ  کی وفات اور حضرت ام کلثومؓ کی شادی کا بھی ذکر ہے

٭…اکثر بڑی حکومتیں اور سیاست دان بھی فلسطینیوں کے جانی نقصان کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے

٭…ہميں مظلوم فلسطينيوں کے ليے بہت دعا کرني چاہيے

٭…مکرمہ منصورہ باسمہ صاحبہ اہلیہ حمید الرحمان خان صاحب اور مکرم چودھری رشید احمد صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍نومبر۲۰۲۳ء بمطابق۱۰؍نبوت۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۰؍نومبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کےحوالے سے بدر کےفوری بعدکا مَیں ذکرکررہاتھا۔ اس حوالے سے دو ہجری کے واقعات میں ایک جنت البقیع کے قیام کا ذکر ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہود اور دیگر قبائل سب کے اپنے اپنے قبرستان تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینےپہنچےتومسلمانوں کےلیے علیحدہ قبرستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ بقیع الغرقد کے قبرستان کومسلمانوں کے لیے منتخب کیا گیا۔

اس قبرستان میں سب سےپہلےحضرت عثمان بن مظعونؓ مدفون ہوئے۔

بقیع عربی میں ایسی جگہ کوکہتے ہیں جہاں درختوں کی بہتات ہو۔ اس قبرستان کوجنت البقیع بھی کہاجاتاہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے ایک مقبرہ منتخب فرمایا جسے جنت البقیع کہتے ہیں۔ عثمان بن مظعونؓ کی وفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا اور روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا۔

اب میں غزوہ بنی غطفان کا ذکر کرتا ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ غطفان کی شاخ بنی ثعلبہ اور بنو محارب مسلمانوں کے خلاف ایک مقام پر جمع ہو رہے ہیں۔

اس اطلاع کے موصول ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساڑھے چار سَو صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ماہ ربیع الاول تین ہجری میں یہ غزوہ پیش آیا۔ مشرکین کی جتھہ بندی کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو راستے میں بنو غطفان کا ایک شخص ملا جسے صحابہؓ نے گرفتار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قبیلے کی نقل و حرکت کے متعلق آگاہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس کی قوم کو جب یہ معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف آرہا ہے تو وہ کبھی بھی آپ کا مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ ارد گرد کے پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے ان کی جانب پیش قدمی کی تو واقعی انہوں نے مقابلہ نہ کیا بلکہ ارد گرد کے پہاڑوں پر چڑھ گئے۔

اسی موقعے پر وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں استراحت فرما رہے تھے اور صحابہؓ اپنے کاموں میں مشغول تھے تو ایسے میں ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار سونت لی تھی۔

اس شخص نے پوچھا کہ اے محمد! اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ۔ تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔

اس غزوے کے واقعات میں ایک واقعہ حضرت رقیہؓ کی وفات اور حضرت ام کلثومؓ کی شادی کابھی ہے۔روایت کے مطابق جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدر پر روانہ ہوئے تو حضرت رقیہؓ بیمار تھیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان ؓکو ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ چھوڑ گئے تھے۔ حضرت رقیہؓ نے اس روز وفات پائی جس روز حضرت زید بن حارثہؓ بدر کی فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ آئے۔ حضرت رقیہ ؓکی وفات کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ سے ملے تو انہیں فرمایا کہ اللہ نے ام کلثوم ؓکا نکاح رقیہ جتنے حق مہر اور حسنِ سلوک پر تمہارے ساتھ کردیا ہے۔ شادی کے تین دن بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام کلثومؓ کے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اے میری پیاری بیٹی! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس پر ام کلثومؓ نے کہا کہ عثمانؓ بہترین شوہر ہیں۔ حضرت ام کلثومؓ نو ہجری میں بیمار ہوکر وفات پاگئی تھیں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثوم ؓکی وفات پر فرمایا کہ

اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو مَیں اس کی شادی بھی عثمانؓ سے کروا دیتا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت ام کلثومؓ کی شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم ؓکا نکاح ربیع الاول تین ہجری میں ہوا تھا۔ یہ حضرت ام کلثومؓ کی دوسری شادی تھی۔ اس سے قبل حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کے نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب کے دو بیٹوں کے ساتھ ہوئے تھے تاہم رخصتی سے قبل مذہبی مخالفت کی وجہ سے یہ نکاح ختم ہوگئے تھے۔

اس عرصے کے واقعات میں غزوہ بنو سلیم بھی مذکور ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تھی کہ بنو سلیم کی بڑی تعداد مسلمانوں کے خلاف جمع ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں عبداللہ بن ام مکتوم ؓکو اپنا نائب مقرر فرما کر تین سو صحابہؓ کے ہمراہ چھ جمادی الاولیٰ کو روانہ ہوئے۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں بنوسلیم کا ایک آدمی ملا جس نے بتایا کہ بنو سلیم منتشر ہوگئے ہیں۔

تحقیق کرنے پر اس شخص کی اطلاع درست ثابت ہوئی۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹ آئے اور جنگ کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔

ایک سریہ زید بن حارثہ ہے۔

اس کی تفصیل کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ ایک دن صفوان بن امیہ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ مسلمانوں نے ہمارا تجارتی مرکز شام تک جانا بند کر دیا ہے۔ ایک شخص نے مشورہ دیا کہ ساحل سمندر کا راستہ چھوڑ کر عراق کی طرف سے شام جایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ راستے کو جاننے والے ایک شخص کی مدد سے صفوان بن امیہ نے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا اور قافلے نے تیاری شروع کردی۔ یہ سریہ جمادی الآخر تین ہجری میں پیش آیا۔ اہل قافلہ کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح یہ خبر اہل مدینہ کو نہ پہنچے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔چنانچہ یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو شہ سواروں کو حضرت زید بن حارثہؓ کی سربراہی میں روانہ فرمایا۔ یہ حضرت زیؓدکا پہلا سریہ تھا جس میں آپ بطور امیر روانہ ہوئے اور کامیاب واپس لوٹے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ان تجارتی قافلوں کو اس لیے روکا جاتا تھا کیونکہ ان قافلوں سے ہونے والا نفع پھر مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا۔ ان قافلوں کو روکنا اُس دور میں ایسے ہی تھا جیسے آج کل مختلف ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ آج کل تو یہ ممالک بسا اوقات زیادتی کرتے ہوئے بھی پابندیاں لگاتے ہیں، انہوں نے اسلام پر کیا اعتراض کرنا ہے۔

خطبے کے دوسرے حصے میں حضور انور نے فرمایا کہ

اس وقت مَیں فلسطین کے لیے دوبارہ دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں۔

اب کم از کم اتنا ہوا ہے کہ بعض لوگ ڈرتے ڈرتے ہی سہی لیکن اس ظلم کے خلاف بولنا شروع ہوئے ہیں۔ بلکہ اب تو بعض یہودیوں نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور اپنی حکومت سے کہا ہے کہ کیوں ہمیں بھی بدنام کرتے ہو۔ بہرحال چھوٹی چھوٹی آوازیں غیروں میں اٹھنے لگی ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ روزانہ چار گھنٹے کے لیے جنگ روکی جائے تاکہ فلسطینیوں تک امداد پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوگا اور باقی بیس گھنٹوں میں انہوں نے کتنی گولہ باری کرنی ہے۔ اکثر بڑی حکومتیں اور سیاست دان بھی فلسطینیوں کے جانی نقصان کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایک مدت تک ہی ڈھیل دیتا ہے۔ پھر یہ دنیا ہی نہیں بلکہ اگلا جہان بھی ہے، اس دنیا میں بھی پکڑ ہوسکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی ضرور پکڑ ہوگی۔ بہرحال

ہمیں مظلوم فلسطینیوں کے لیے بہت دعا کرنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ انہیں ان مظالم سے نجات دے۔ آمین۔

خطبے کے آخر میں حضور انور نے درج ذیل دو نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔مکرمہ منصورہ باسمہ صاحبہ اہلیہ حمید الرحمان خان صاحب

جو گذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔ انا للہ واناالیہ رجعون۔ مرحومہ حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ اور حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی پوتی اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت بوزینب بیگم صاحبہؓ کی نواسی تھیں۔ مرحومہ میاں عباس احمد خان صاحب اور امۃ الباری بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ان کے نکاح کے موقعے پر نصائح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نکاح کے ساتھ لڑکے اور لڑکی پر ایسی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں جو اس سے پہلے ان پر عائد نہ تھیں۔ ایک تو میاں بیوی کی باہم ذمہ داریاں ہیں اور دوسرا وہ ذمہ داریاں ہیں جو دونوں نے ساتھ مل کر نبھانی ہیں۔ نکاح کے موقعے پر پڑھی جانے والی آیات میں یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمْ کے الفاظ کے ساتھ ’رب‘ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جیسے خدا تمہاری ربوبیت کرنے والا ہے ویسے ہی اب تم پر بھی ایسی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں کہ جنہیں ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم بھی ربوبیت کے جذبے کے ساتھ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔

مرحومہ نیک، ایثار کے ساتھ لوگوں کا خیال رکھنے والی، غریبوں سے حسنِ سلوک کرنے والی، واقفینِ زندگی کا ادب کرنے والی، رشتوں کو نبھانے والی، خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والی، صاف گو، صوم و صلوٰۃ کی پابند، خلافت کا بہت ادب کرنے والی خاتون تھیں۔

چودھری رشید احمد صاحب سابق رجسٹرار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد۔

آپ گذشتہ دنوں امریکہ میں وفات پاگئے تھے۔انا للہ واناالیہ رجعون۔خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ مرحوم نیک، ایمان دار، احمدیت کے لیے غیرت رکھنے والے، چندوں کی ادائیگی اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے، قناعت پسند شخصیت کے حامل تھے۔

حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button