تقویٰ کا مطلب ہے نفس کو خطرے سے محفوظ کرنا
اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہی شخص ہے وہی قبیلہ یا وہی قوم ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہے اور یاد رکھیں کہ تقویٰ کا معیار اپنی نیکیوں کے اظہار سے نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہماری ہر حرکت اور فعل سے باخبر بھی ہے اور اس کا علم بھی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سب علم ہے کہ کون سا فعل دکھاوے کی خاطر کیا گیا ہے اور کون سا فعل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے کیا گیا ہے۔ تقویٰ کے مختصراً معنی بتاتا ہوں۔ تقویٰ کا مطلب ہے نفس کو خطرے سے محفوظ کرنا اور شرعی اصطلاح میں تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ نفس کو ہر اس چیز سے بچانا جو انسان کو گناہگار بنا دے۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب ممنوعہ اشیاء سے بچا جائے بلکہ اس کے لئے بعض اوقات جائز چیزوں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ مثلاً رمضان میں پاک اور جائز چیزوں سے بھی مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے رک جاتا ہے۔ تو بہرحال اصل تقویٰ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچانا جو گناہوں کی طرف لے جائے۔ اور یہ ہر مسلمان کے لئے فرض ہے چاہے وہ کسی قوم کا ہو۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں پوچھے گا کہ تم فلاں قوم کے ہو جو امیر ہے اس لئے تمہیں کچھ چھوٹ دی جاتی ہے۔ یا تم فلاں قوم کے ہو جو ترقی یافتہ نہیں اس لئے چھوٹ دی جاتی ہے۔ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے یہ عذر قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس لئے ہر ایک کو اپنے آپ کو ہر برائی سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور ہر نیکی کو بجا لانے کے لئے تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم امام الزمان کی جماعت میں شامل ہیں۔ یاد رکھیں کہ تمام بری باتوں سے اس وقت بچا جا سکتا ہے جب دل میں خداتعالیٰ کی خشیت ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ایساخوف ہو جس سے اس کی محبت بھی ظاہر ہوتی ہو۔ اور یہ باتیں تب ملتی ہیں جب اس کے آگے جھکا جائے، اس سے مانگا جائے۔ یہ دعا کی جائے کہ اے خدا! میں تیری محبت میں وہ تمام باتیں چھوڑنا چاہتا ہوں جن کے چھوڑنے کا تُو نے حکم دیا ہے۔ اور وہ تمام باتیں اختیار کرنا چاہتا ہوں جن کے کرنے کا تُو نے حکم دیا ہے۔ لیکن تیرا قرب پانے کے لئے بھی تیرا فضل ہونا ضروری ہے۔ اے اللہ! اپنے فضل سے مجھے تقویٰ عطا فرما۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍مارچ ۲۰۰۴ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍اپریل ۲۰۰۴ء)