شامِ زندگی
بڑھاپا کیا ہے؟ بائیولوجیکلی ( Biologically) انسان تقریباً ۲۵ سال کی عمر سے ہی جسم میں توڑ پھوڑ کے آغاز کے نتیجہ میں دراصل بڑھاپے میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ۶۵ سال والوں کو بڑی عمر والے اور ۸۰ سال والوں کو بوڑھا قرار دیتی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق بڑھاپے کی اصل وجہ DNA میں موجود Telomere کی لمبائی کم ہونا ہے۔ ہمیشگی کی زندگی تو ممکن نہیں مگر اس بات پر بھی تحقیق ہورہی ہےکہ کس طرح ان Telomere کی لمبائی کو کم ہونے سے روکا جا سکے اور یوں عمر کو کم از کم ۱۲۰ سے ۱۵۰ سال تک بڑھایا جا سکے۔ آج کل epigenetic analysis کے ذریعہ عمر کا ممکنہ حد تک درست تعین کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَمَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ۔ (فاطر :۱۲) یعنی اور کوئی معمّر (انسان) بڑی عمر نہیں پاتا اور نہ اس کی عمر سے کچھ کم کیا جاتا ہے مگر وہ (ایک) کتاب میں موجود ہے۔ یقیناً یہ (بات) اللہ پر آسان ہے۔ غالباً یہاں کتاب سے مراد ڈی این اے اور ٹیلومیئر ہی ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس ’’کتاب ‘‘پر مزید تحقیق کریں۔
نظام شمسی کی گردش کے نتیجے میں زمین پر جس رفتار سے انسان بوڑھا ہوتا ہے وہ رفتار اس وسیع کائنات میں کسی اور سیارے پر یا کسی اور نظام شمسی میں بالکل مختلف ہوگی۔ اور اس لحاظ سے وہاں وقت، عمر اور بڑ ھاپے کا مطلب بھی مختلف ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الحج آیت ۴۸ میں فرماتا ہے: وَاِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ۔ اور یقیناً تیرے ربّ کے پاس ایسا بھی دن ہے جو اس شمار کے مطابق جو تم کرتے ہو ایک ہزار برس کا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سورۃ المعارج آیت ۵ میں فرماتا ہے: تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ فرشتے اور روح اس کی طرف ایک ایسے دن میں صعود کرتے ہیں جس کی گنتی پچاس ہزار سال ہے۔
دراصل پیدائش کے ساتھ ہی انسان بڑھاپے اور موت کا سفر شروع کر دیتا ہے۔ یوں انسان ایک ازلی سفر کا مسافر ہے۔ زندگی گزارنے اور بوڑھا ہونے کا ہر ایک کا اپنا تجربہ ہے۔ بعض کے نزدیک بڑھاپا ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے اور عمر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سوچ کی بنا پر چھوٹی عمر میں انسان بوڑھا ہو سکتا ہے اور بعض دفعہ بڑی عمر میں بھی جوان ہی رہتا ہے۔ یعنی انسان تب بوڑھا ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بوڑھا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ دراصل کام نہ کرنے کی خواہش اور پھر اس پر عمل درآمد بڑھاپے کی بنیاد ہیں۔ امید اور زندگی میں دلچسپی کی کمی اور رفتہ رفتہ اس کا ختم ہونا بڑھاپے کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔ عموماً جوانی کو خواہشات اور بڑھاپے کو مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی دوسری مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو بوڑھا تصور کرنا شروع کرتے ہیں۔ کچھ انصار کی عمر میں قدم رکھنے سے اور بعض بال سفید ہونے پر اپنے آپ کو یا دوسروں کو بوڑھا سمجھتے ہیں اور بعض کے نزدیک زندگی کی آزمائشیں اور غم جس میں والدین کی جدائی، اولاد کی پریشانیاں یا ان کے غم، مالی معاملات میں نقصان اور عشق میں ناکامی وغیرہ انسان کو بوڑھا کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ افزائش نسل کی صلاحیت میں کمی کو بڑھاپا تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ اپنے جیون ساتھی یا اپنے ہم عمر قریبی دوستوں کی وفات پر اپنے آپ کو کمزور اور بوڑھا تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ڈیپریشن کے علاوہ دوسرے عوارض کا شکا ر ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں جو حضور نے ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ءکو جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمائی انسانی زندگی کے تین ادوار بیان فرمائے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں:’’جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے ہوشی میں گذرجاتا ہے۔ یہ بے ہوشی کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوتی جو بچپن میں تھی لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کردیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہے کہ نفس امارہ غالب آجاتا ہے۔ اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے کہ علم کے بعد پھر لاعلمی آجاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے۔ یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے۔ بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہوجاتے ہیں اور قویٰ بےکار ہوجاتے ہیں…غرض اگرایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہوجانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے اور ضعف و تکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے…آخری زمانہ میں گو بڑھاپے کی وجہ سے سستی اور کاہلی ہوگی لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں۔ جوانی میں اگر نیکیوں کی طرف مستعد اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا …تو بڑھاپے میں گو ان اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سستی بھی ہوجاوے لیکن اللہ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۷، صفحہ ۲۵۴تا۲۵۷، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
جسم کی مختلف صلاحیتیں عمر کے مختلف حصوں میں کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔ عمر، علم اور تجربہ میں اضافہ کے ساتھ عموماً انسان کی دماغی صلاحیتیں ترقی کرتی چلی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ دماغ کو جلا بخشتا چلا جاتا ہے۔ چالیس سال کی عمر کو اللہ تعالیٰ نے پختگی کی عمر قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الاحقاف آیت ۱۶ میں فرماتا ہے: حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَاَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَاِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اس نے کہا اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اورایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تُو راضی ہو اور میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کردے۔ یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’چالیسواں سال نیک بندوں پر مبارک آتا ہے اور جس میں سچائی کی روح ہے وہ روح ضرور چالیسویں سال میں حرکت کرتی ہے۔ خدا کے اکثر بزرگ نبی بھی اسی چالیسویں سال پر ظہور فرما ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ چالیسیویں برس میں ہی خلق اللہ کی اصلاح کے لئے ظہور فرماہوئے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۲۲)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ۔ (یٰس:۶۹)اور جس کی ہم بہت زیادہ لمبی عمر کرتے ہیں اس کو جسمانی طاقتوں میں کمزور کرتے جاتے ہیں کیا وہ سمجھتے نہیں۔
بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ جب دوسرے اعضاء کی طرح دماغ بھی کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اس قدر بھولنا شروع کردیتا ہے کہ اردگرد کی بھی کوئی خبر نہیں رہتی، اور اپنی کسی بھی صلاحیت کو صحیح طریقے سے بروئے کار نہیں لا سکتا۔ عمر کے اسی حصہ کو قرآن کریم نے ارذل العمر قرار دیا ہے۔ سورۃ الحج آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا اور تم ہی میں سے وہ بھی ہے جو ہوش وحواس کھو دینے کی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد کلیۃً علم سے عاری ہوجائے۔ اسی طرح سورۃ النحل آیت ۷۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاللّٰہُ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ یَتَوَفّٰٮکُمۡ ۟ۙ وَمِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡ لَا یَعۡلَمَ بَعۡدَ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ۔ اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں وفات دے گا اور تم ہی میں سے وہ بھی ہے جو ہوش و حواس کھو دینے کی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد کلیّۃً علم سے عاری ہو جائے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ اگرچہ بہت سے انبیاء نے غیر معمولی طویل عمریں پائیں لیکن کوئی بھی ارذل العمر کی حالت تک نہیں پہنچا کہ دماغی یا جسمانی کمزوری ان کی روحانی ترقیات میں حائل ہوسکتی۔ لیکن یہ بات انبیاء سے ہی خاص ہے کیونکہ مورد وحی کی عقل کی حفاظت کرنا بھی خدا کا ہی کام ہے۔ ورنہ دوسرے نیک لوگ بعض اوقات ان آزمائشوں سے گذرتے ہیں۔
جہاں عام انسان بڑی عمر میں علم و معرفت سے عاری ہوجاتا ہے وہاں ایسی صورت حال میں بعض اوقات اپنی ظاہری صفائی پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دے سکتا۔ پھر مختلف بیماریوں مثلاً فالج، پارکنسن، ڈپریشن، سانس کے عوارض، جوڑوں کی بیماریاں، اور عضلاتی کمزوریوں کی وجہ سے روز مرہ کے کام کاج اور عبادات بجا لانے میں مشکل کا سامنا کرتا ہے۔ وضو، غسل اور قضائے حاجت کے بعد صحیح طریقے سے صفائی نہ کرسکنے کے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ اسی طرح مردوں میں پراسٹیٹ کے مسائل اور پیشاب پر مکمل کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ناپاکی کا احساس رہتا ہے۔بعض دفعہ تو ان حالات میں اپنے قریبی حتٰی کہ اولاد بھی تنگ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اچھا بھلا انسان دیکھتے ہی دیکھتے کسی کام کا نہیں رہتا۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے یک پیری و صد عیب۔ عموماً ایسی صورت حال کو انسان قبول نہیں کرتا اور مزید مسائل کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے لائف سائیکل کو سمجھ جائیں اور بڑھتی ہوئی عمر اور اس کے مسائل کو قبول کرلیں تو ان سے بہتر طور پر نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔
خوشخبری کی بات یہ ہے کہ بڑھاپے کے مسائل تو اسی دنیا میں ہی ہیں۔ دوسری اور ابدی زندگی میں تو کوئی بھی بوڑھا نہیں ہو گا۔ آنحضور ﷺ نے ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت سے کہا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ عورت پریشان ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ جنت میں وہ جوان ہو کر جائے گی۔ حضرت کعب بن مرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو تو اس کا یہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لیے نور ہے۔(ترمذی۔نسائی)
بڑھاپے کے مسائل کا حل
یقین رکھیں کہ زندگی کے ہر دور سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے اور اس میں بڑھاپا بھی شامل ہے۔ بروقت چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرکے بڑے بڑے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بڑھاپے کو مغلوب کرکے بہترین زندگی گزارنے کے مزید چند اصول پیش خدمت ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہوسکتا ہے ہم اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی اجاگر کر سکیں ان شاءاللہ۔ موت تو آنی ہی ہے تو پھر کیوں نہ زندگی کو بھرپور انداز میں گزاریں۔کہتے ہیں کہ انسان کو اتنی دنیا دیکھنی چاہیے اور اتنے کارنامے کرنے چاہئیںکہ بڑھاپا قصے سناتے گزر جائے۔
کچھ مسائل سے تو صحت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئےبچا جا سکتا ہے، بعض بیماریوں کا علاج کروایا جاسکتا ہے مگر بعض عوارض سے بہرحال بچانہیں جاسکتا لیکن ان کے ساتھ زندہ رہنے کا کسی حد تک حل نکالا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دانش مندی سے، علم سے اور پھر معاشرتی اور مذہبی روایات پر عمل کرکے بڑھاپے کی عمرکو بہتر طور پر گزارا جاسکتا ہے۔
وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا(بنی اسرائیل: ۲۴)ایک بنیادی اصول تو یہ ہے کہ اگر والدین اور بچے ایک دوسرے کی ضرورتوں اور جذبات کا خیال رکھنا سیکھ جائیں تو بہت سے مسائل سے بہترطور پر نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بزرگوں کو اولڈ ہومز میں بھیجنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ پھر ہمارے دین نے بھی والدین کی خدمت کی بہت تاکید کی ہے اور خاص طور پر بڑھاپے میں ’’اف ‘‘یعنی ان سے اونچا بولنے، ڈانٹنے وغیرہ سے منع کیا ہے اور نرمی سے بات کرنے کی نصیحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورت بنی اسرائیل میں فرماتا ہے: وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا۔(بنی اسرائیل:۲۴)۔ اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے بچپن میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، محبت سے پرورش کی، بعض اوقات اپنے اوپر مشکلات برداشت کرکے پڑھایا لکھایا، تو اب بچوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر قدم پر ان بزرگوں کا ساتھ دیں، ان سے تنگ نہ آئیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کے مسائل کو سمجھیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ یہ محبت کرنے والے، دعائیں دینے والے بزرگ صرف چند سال تک ہمارے پاس ہیں، پھر ہم ان کی جگہ پر ہوں گے اور ہم بھی ایسے ہی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں ہمارے بچے والدین کے ساتھ ہمارے رویے کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں اور یہ بات ان کی تربیت پر اثر انداز ہورہی ہوتی ہے اور آنے والے وقت میں اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: مَا اَكْرَمَ شَابُّ شَيْخاً لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللّٰهُ لَهٗ مَنْ يُكْرِمُهٗ عِنْدَ سِنِّهِ.(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی إجلال الکبیر، ۴: ۳۲۷، رقم: ۲۰۲۲) ’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔‘‘
زندگی بھر بزرگوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا بھی ہے کیونکہ ان کے پاس زندگی کا تجربہ ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ ان کے مفید مشورے اور نصائح بڑی مشکلات سے بچانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ عام قصہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ لڑکی والوں نے اس شرط پر رشتہ دینا منظور کیا کہ شادی والے دن وہ جو بھی شرط رکھیں گے لڑکے والوں کو اسے پورا کرنا پڑے گا اور ساتھ یہ شرط بھی لگائی کہ بارات پر ان کو کسی بھی بوڑھے شخص کو لانے کی اجازت نہ ہوگی۔ لڑکے والے کسی بھی مشکل سے بچنے کے لیے ایک بوڑھے کو کسی طریقے سے چھپا کر ساتھ لے گئے۔ اسی بوڑھے نے ان کی اس وقت مدد کی جب وہ لڑکی والوں کی اس شرط پر پریشان تھے کہ بارات کے ہر فرد کو ایک بکرا کھانا پڑے گا۔ بوڑھے کے اس مشورہ نے کہ ایک ایک کرکے بکرا سب باراتیوں کے سامنے پیش کیا جائے نے آخرکار سو بکرے کھا کر لڑکی والوں کی شرط جیت لی۔
نافع الناس وجود کو اللہ تعالیٰ تکالیف سے بچاتا ہے
اگر انسان سماجی طور پر سرگرم ہے، شوق سے فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف رہتا ہے تو یہ چیز جہاں آپ کو بے انتہا خوشی دے گی وہاں آپ کو اطمینان بھی نصیب ہو گا۔ رات سونے سے پہلے سارے دن کا جائزہ لیں کہ آج آپ کس کس کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بنے۔ اور اس طرح اپنا اگلا دن پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
لمبی عمر پانے کا نسخہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو، لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کیا ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو۔ قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے۔ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد: ۱۸) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں۔اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں۔‘‘( ملفوظات جلد ۳صفحہ ۹۲-۹۳ ایڈیشن ۲۰۱۶ء)۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ دین کے لیے سچا جوش رکھتے ہیں۔اُن کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی۔ اس کے معنے یہی سمجھائے گئے ہیں کہ جولوگ خادمِ دین ہوں گے اُن کی عمریں بڑھائی جاویں گی جو خادم نہیں ہو سکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہے۔کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے۔‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۱۶۶-۱۶۷ ایڈیشن ۲۰۱۶ء)
کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ
کوشش کرکے صحبت صالحین اپنائیں۔اردگرد میں ضرور آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے۔ اگر بڑھاپے میں آپ کا صرف ایک مخلص دوست بھی ہو جس کے ساتھ آپ وقت گزار سکیں اور جسے اپنی خوشی غمی میں شریک کرسکیں تو اس سے دماغی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ پرانی دوستی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ایک لمبی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جن لوگوں کے آپس کے تعلقات اچھے اور مضبوط تھے وہ زندگی میں پرسکون اور خوش تھے اور انہوں نے زندگی بھی لمبی پائی۔ جماعتی پروگراموں میں حصہ لیں گے، احباب جماعت کی خوشی اور غمی میں شریک ہوں گے تو دوستیاں اور رشتے مضبوط ہوں گے۔ دوستوں کے گھر جائیں، انہیں دعوت پر بلائیں۔کبھی گھر والوں اور کبھی دوستوں کے ساتھ پکنک پر جائیں۔ اپنے مزاج کے مطابق بچوں کو دوست بنائیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں یہ آپ کو بہت خوشی دیں گے۔بعض بزرگ اپنے بیٹے یا بیٹی کے پاس والے فلیٹ میں رہنے کی وجہ سے بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو بزرگ ملنسار اور سماجی طور پر زیادہ سرگرم تھے، ان کے دماغوں میں سرمئی مادّہ بہتر تھا اور اس میں زندہ اور فعال اعصابی خلیات بھی زیادہ تھے۔ان کے برعکس، گوشہ نشین اور میل جول ترک کردینے والے بزرگوں میں یہی دماغی حصہ خاصی کمزور حالت میں تھا جبکہ یہاں زندہ اعصابی خلیات کی تعداد بھی بہت کم دیکھی گئی۔ ہر ممکن تنہائی سے بچیں۔
جہاں تک ممکن ہو اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ انسان کا سب سے بڑا ساتھی وہ خود ہوتاہے۔ اپنے کاموں کے لیے اپنے ساتھی اور بچوں پر بے جا بوجھ نہ ڈالیں۔ دیکھا گیا ہے کہ عموماً کوئی دوسرا تیار شدہ کھانا اور لوازمات پیش کرے تو بخوشی استعمال کرتے ہیں، نہ کرے تو خود تردد نہیں کرتے اور سستی کا شکار ہو کر اپنی زندگی کے معیا ر کو کم کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عادت کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اپنا خیال خود کریں۔ یہی نہیں بلکہ کوشش کرتے رہیں کہ جہاں تک ممکن ہو آپ دوسرں کے بھی کام آئیں۔ دوسروں سے سیکھیں۔ آس پاس کئی معمر افراد بہت آسانی سے مل جائیں گے جو انٹرنیٹ اور موبائل کی نئی ایپلی کیشنز کا استعمال سیکھ کر خود بل کی ادائیگی، شاپنگ، ٹکٹوں کی بکنگ اور بینک سے متعلق کام وغیرہ کرتے ہیں اور اس کےلیے انہیں دوسروں پر انحصار نہیں کرناپڑتا۔ ہمارے کلچر میں بسا اوقات خدمت کے نام پر بزرگوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا اور بعض بزرگ بھی اسی کو خدمت سمجھتے ہیں کہ ان کو مکمل آرام دیا جائے۔ حالانکہ بڑی عمر میں بھی کچھ نہ کچھ کام کرتے رہنا صحت اور زندگی کی دلچسپی کو قائم رکھتا ہے۔
کتاب بہترین ساتھی ہے
اگرآپ کے دوست نہیں یا دوست اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں مگر آپ کو کتاب پڑھنے کی عادت ہے تو بڑھاپے میں اکیلے پن کا شکار نہیں ہوںگے۔ آج کل موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کی کتابوں کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ قرآن مجید پر غور کی عادت ڈالیں۔ سیرت النبی ﷺ کا مطا لعہ کریں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ مذہبی کتابوں کے علاوہ تاریخی کتابیں دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہیں۔ روزانہ اخبار کا مطالعہ، الفضل کا مطالعہ کریں۔ حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے خبریں ضرور سنیں۔ بڑھاپے میں اگر نظر کی کمزوری آڑے آئے اور عینک سے پڑھنا بھی مشکل ہو توآڈیو کتابیں سن سکتے ہیں۔ ٹی وی پر بھی مفید معلوماتی، تاریخی اور تفریحی پروگرامز دیکھیں۔ کم از کم ایک گھنٹہ ایم ٹی اے ضرور دیکھیں۔ قوت سماعت کمزور ہوجائے تو جدید سائنسی آلات سے فائدہ اٹھائیں۔
کوئی مشغلہ ضرور اپنائیں
مثلاً باغبانی ایک نہایت عمدہ مشغلہ ہے۔ اس سے نہ صرف انسان مصروف رہتا ہے بلکہ اس کی ورزش بھی ہو جاتی ہے اور جب باغبانی کے نتیجہ میں اس کا پھل حاصل ہوتا ہے تو خوشی بھی ملتی ہے۔ پودوں سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسان کی زندگی لمبی ہونے کا امکان ہے۔آج کل کچن گارڈننگ کا رواج عام ہے۔ گھر کی ضرورت سے زائدپھل یا سبزیاں ہمسایوں اور رشتہ داروں میں بانٹیں اس سے آپ کو اور زیادہ خوشی ملے گی۔ اور دوسروں سے آپ کے تعلقات بھی اچھے ہوں گے۔ اگر آپ کو جانوروں اور پرندوں سے محبت ہے تو کوئی جانور یا پرندہ گھر میں رکھیں۔ اور اس کا خیال رکھیں۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جانوروں کا خیال رکھنے والوں میں دل کی بیماریاں قدرے کم ہوتی ہیں اور عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خاص طور پر کوئی مشغلہ اپنائیں جس سے جسمانی اور ذہنی صحت برقرار رہے۔
ڈسپلن اپنائیں اور دماغی کام کرتے رہیں
خاص کر ریٹائر منٹ کے بعد اگر دن کی ایک روٹین بنالی جائے تو بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے۔ اپنے کام وقت پر کرنے کی عادت ڈالیں۔ وقت پر اٹھیں، وقت پر سوئیں، وقت پر کھانا کھائیں۔ دماغی کام اور جدوجہد کرنے سے کوئی بوڑھا نہیں ہوتا۔ آج کل انٹر نیٹ کا دور ہے۔ اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ بعض احباب یہ سوچ کر کہ انٹرنیٹ ایک مشکل چیز ہے اس کو سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ یہ یقین رکھیں کہ ایجادات انسان کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہیں نہ کہ مشکلات۔ انٹر نیٹ سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آہستہ آہستہ آپ کو علم ہو جائے گا کہ کون سی معلومات مفید ہیں۔ اپنی روٹین میں دینی کاموں کے لیے بھی وقت رکھیں۔ مشاغل کے لیے بھی وقت نکالیں۔ دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے خود مضامین لکھنے کی کوشش کریں۔ اپنی آپ بیتی لکھیں۔ روزانہ سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کی عادت ڈالیں۔ ٹی وی یا موبائل پر مفید گیمز کی ایپس ڈاؤن لوڈ کریں۔ سکوڈو وغیرہ جیسی گیمز جس میں حسابی عمل سے دماغ متحرک رہتا ہے، بھی کافی فائدہ مند ہو سکتی ہیں۔ مغزوں ( مثلاً چار مغز، بادام، اخروٹ وغیرہ) کا استعمال دماغ کے لیے بھی نہایت مفید ہیں مگر ان کے فوائد کا علم ہونے کے باوجود احباب اپنی سستی کی وجہ سے ان کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ دماغی کام کرنے والوں کی یادداشت دیر تک قائم رہتی ہے۔ بڑھاپے میں یادداشت کی کمی سے بچنے کے لیے وائلٹ بند گوبھی کا سلاد باقاعدگی سے ضرور استعمال کریں۔ اس کے استعمال سے قبض کی تکلیف کے ساتھ ساتھ کئی اور مسائل سے بھی بچے رہیں گے۔ ان شاءاللہ
اَلطَّہُوْرُشَطْرُالْاِیْمَانِ
جسم اور گھر کی صفائی کا خیال رکھیں
کوشش کریں کہ ہر روز نہائیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہفتہ میں کم از کم دو بار ضرور نہائیں۔ بعض دفعہ بزرگوں کو نہانے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سے پوچھتے رہیں کہ ان کو اس طرح کی کسی مدد کی ضرورت تو نہیں۔ خاص طور پر سر، کمر اور پاؤں دھونے میں بزرگوں کو عموماً مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح اگر بال کاٹنے اور رنگنے وغیرہ میں مدد کی ضرورت ہو تو اپنی خدمات پیش کریں۔ اسی طرح گھر کی صفائی میں مدد کرواتے رہیں اس سے آپ کی طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا۔
وَاِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ
میڈیکل چیک اپ کرواتے رہیں۔بڑھاپے میں تقریباً ۶۰؍فیصد لوگوں کی قوت سماعت کم ہوجاتی ہے، تقریباً ۴۰؍فیصد لوگ نظر کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں اور تقریباً ۲۰؍فیصد لوگ پیشاب کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔ انسان کو چالیس سال کی عمر کے بعد سال میں کم از کم ایک دفعہ میڈیکل چیک ضرور کروانا چاہیے تاکہ وقت پر بیماری کا علاج ہو سکے۔ عموماً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری کا علم ایسے ہی چیک اپ کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ بعض بیماریوں کی ظاہری طور پر کوئی علامات نہیں ہوتیں اس لیے چیک اپ کروانا اور خون وغیرہ کے ٹیسٹ کروانا ضروری ہوتا ہے۔ بڑی عمر میں پیشاب کی لیکیج (leakage) سے بچنے کے لیے ابھی سے pinching exercisesکرتے رہیں۔ آپ یہ عمل مثلاً ٹی وی دیکھنے کے دوران یا پھر کتاب پڑھنے کے دوران کرسکتے ہیں۔ دس پندرہ منٹ دن میں دو تین بار کریں۔یہ عورتوں اور مردوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ اپنے ساتھی کو یاد کرواتے رہیں کیونکہ عموماً انسان بھول جاتا ہے۔ اسی طرح بڑی عمر میں پراسٹیٹ کے مسائل سے بچنے کے لیے حلوہ کدو کے بیج (pumpkin seeds) کا باقاعدگی سے استعمال کریں۔ نبیذ( رات کو ایک گلا س پانی میں کچھ کھجوریں، کچھ بادام، ایک چھوٹا چمچ سفید تل، چار مغز، کشمش اور خشخاش کو بھگو دیں۔ صبح بادام کے چھلکے اتار کے اور کھجور کی گٹھلیاں نکال کر باقی مواد کو گرائنڈ کرکے ناشتے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد پی لیں۔ ہفتہ دس دن یہ عمل کریں) اس کے استعمال سے بھی ایسے مسائل سے بچا جا سکتا ہے، یہ بچوں کے پیشاب کے مسائل کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ ایک مٹھی کا بلی چنے رات کو ایک پیالی گائے کے دودھ میں بھگو دیں اور صبح اٹھ کر کھانے سے شوگر اور کولیسٹرول جیسے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔روزانہ ایک آدھ چمچ ایلوویرا کا استعمال دیگر فوائد کے علاوہ نظر، جلد اور جوڑوں کے درد کے لیے نہایت مفید ہے۔
آنکھوں اور کانوں کا بھی چیک اپ کروائیں
بعض دفعہ عینک کا نمبر بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح قوت سما عت میں کمزوری سے بہت سے معاشرتی مسائل پیش آتے ہیں۔ ایسی صورت میں آلہ سماعت مفید ہوسکتا ہے۔ بعض افراد کے پاس آلہ تو ہوتا ہے مگر وہ اسے استعمال نہیں کرتے اور یوں اپنے اور دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔دانتوں کا چیک اپ ضرور کروائیں۔سال میں کم از کم ایک سے دو دفعہ ضرور دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ دانتوں کی کوئی تکلیف نہ بھی ہو تو بھی جائیں کیوں کہ بعض دفعہ علامات دیر سے ظاہر ہوتی ہیں اور بیماری بڑھ چکی ہوتی ہے۔ عمو ماً دیکھا گیا ہے کہ یورپ میں بھی اکثر احباب باقاعدگی سے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے اور بعد میں بے حد مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ دانت اچانک گر جاتے ہیں۔ پھر بزرگ کھانا چبا کر نہیں کھا سکتے اور غذائی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اور سارے جسم پر اس کے اثرات ہوتے ہیں۔
ورزش کو معمول بنائیں
’’اب عناصر میں اعتدال کہاں‘‘کے مصداق عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ اور سانس وغیرہ کے مسائل کی وجہ سے انسان زیادہ متحرک نہیں رہتا اور مزید آرام طلب ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت صحت کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ کوشش کریں کہ دن میں دو بار آدھ آدھ گھنٹہ ورزش کریں حتی کہ ہلکا پسینہ آجائے۔ بیلنس والی exercises خاص طور پر بڑھاپے سے بچاتی ہیں۔ سیر کو معمول بنائیں۔ تیز چلنے کی کوشش کریں۔ ہو سکے تو جنگل میں سیر کے لیے جائیں۔ اسی طرح اگر ممکن ہو تو تیراکی کریں۔ اس سے آپ کے گھٹنے اور پاؤں کے جوڑوں پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔ یورپ میں سردیوں میں اگر برف باری اور پھسلن کی وجہ سے باہر جانا مشکل ہو تو گھر میں ضرور ورزش کریں۔ گھر میں ٹریڈمِل، سائیکل یا پھر یوٹیوب ک کسی مستند چینل سے دیکھ کر کم از کم آدھ گھنٹہ ورزش کریں۔ relaxing exercises جن میں یوگا بھی شامل ہے ضرور کریں۔ اسی طرح بیٹھ کر لمبا سانس لینے کی مشقیں بھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ لمبا سجدہ نہ صرف روحانی صحت کو بہتر بناتا ہے بلکہ بڑھاپے میں یادداشت کی کمی، کمر اور مہروں کی تکالیف سے بچاتا ہے۔ کبھی کبھی اکیلے میں meditationکریں۔ ہفتہ میں ایک بار سارے جسم کی اور ہفتے میں کم از کم دو تین بار رات سونے سے پہلے تھوڑے سے زیتون کے تیل سے صرف پاؤں کی مالش کریں۔
نیند پوری کریں
نیند کی حالت میں نہ صرف جسم آرام کرتا ہے بلکہ دماغ میں repair کا عمل بھی ہوتا ہےجو کہ دماغ کی درست کارکردگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بعض افراد کو عمر کے ساتھ ساتھ نیند میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات نیند کی ضرورت ۴-۶ گھنٹے رہ جاتی ہے۔ آپ اپنی کم نیند کو مفید کاموں میں صرف کرسکتے ہیں۔ مثلاً باقاعدگی سے نماز تہجد ادا کرسکتے ہیں۔ اگر نیند کا دورانیہ بہت ہی کم ہوگیا ہو تو ایک بے ضرر اور قدرتی دوائی melatonin کا استعمال کر سکتے ہیں۔ شام کے وقت انگور کا استعمال یا پھر کیمومیلا کی چائے کا استعمال بھی نیند میں مدد کرتا ہے۔ بعض احباب کو relaxing music سننے سے بھی فائدہ ہوسکتا ہے اور نیند آسکتی ہے۔ اگر سوتے ہوتے سانس رکے اور بہت زیادہ خراٹے آئیں تو ڈاکٹر کے مشورہ سے CPAP نامی ایک مشین سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جس میں چہرے پر ماسک لگا کر سونا ہوتا ہے۔ بعض بزرگ کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے یا نیند کے انتظار میں لمبا عرصہ بستر پر لیٹے رہتے ہیں جو کہ ان کی صحت کے لیے ہر گز اچھا نہیں۔
کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡاۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (الْاَعْرَاف: ۳۲): اپنی غذا کا خیال رکھیں۔ خوراک کے شوقین بزرگ تو اپنی خوراک کا خیال رکھتے ہیں۔ مگر بعض بزرگوں میں غذائی کمی کا مسئلہ دیکھنے میں آتا ہے جو ان کے مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ کچھ بزرگ فیملی سے الگ اکیلے رہتے ہیں جہاں انہیں اپنے لیے کھانا پکانے کا انتظام خود کرنا ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے اچھا خاصا تردد ہوتا ہے۔اس لیے وہ کھانا پکانے کی بجائے جیسے تیسے گزارہ کرنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔بعض دفعہ انہیں کھانے میں ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ ایسے میں کھانے کوان کا دل ہی نہیں چاہتا۔بیٹھے رہنے کی وجہ سے بھی بھوک نہیں لگتی۔ بھوک نہ لگنے کی ایک اہم وجہ ڈپریشن بھی ہے جو بھوک کو بری طرح سے متاثر کرتا ہے۔کھانے کا وقت آکر گزرجاتا ہے اور انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کھانا کھانا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ زیادہ کھانے لگتے ہیں اور موٹاپے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ کیفیت ان بزرگ افراد میں زیادہ پائی جاتی ہے جن کے جیون ساتھی کا انتقال ہوگیا ہویا وہ گھر میں اکیلے رہتے ہوں۔ غذائی کمی سے وہ نہ صرف کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ ان کی ہڈیوںمیں کیلشیم اور بعض اہم نمکیات (minerals) اور وٹامنز وغیرہ کی کمی بھی ہوجاتی ہے۔اس کی وجہ سے انہیں جوڑوں، ہڈیوں اور بالخصوص کولہے کی ہڈی کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے مسائل سے بچنے کے لیے مچھلی کے تیل کا استعمال اور وٹامن ڈی کے ساتھ سائیڈ ایفیکٹ سے بچنے کے لیے وٹامن K-2 ضرور لیں۔ کچھ دیر دھوپ میں ضرور بیٹھیں اس سے انسان بہت سی بیماریوں سے بچ سکتا ہے۔ بعض افراد بعض دوسری بیماریوں کی وجہ سے پیشاب آور ادویات استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں پانی اور پوٹاشیم کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اپنی دوائیاں ڈاکٹر کے مشورہ سے باقاعدگی سے استعمال کریں۔ عموماً جسم میں سوزش کی وجہ سے دردیں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے لیے دیسی چیزوں مثلاً السی اور میتھی دانہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سوہانجنا کے پوڈر کا باقاعدگی سے استعمال بھی بہت سے مسائل سے بچا سکتا ہے۔ پھر ڈاکٹروں نے مختلف بیماریوں کی وجہ سے ان کے کچھ کھانوں پر پابندی لگارکھی ہوتی ہے۔ مثلاً نمک، میٹھی اور چکنائی والی چیزوں میں پرہیز۔ مگر بعض بزرگ ان پرہیزوں کی پرواہ نہیں کرتے اور بیماریوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
متوازن غذا کا استعمال کریں
انڈوں اوردودھ میں زبردست غذائیت پائی جاتی ہے۔ موسم کے تازہ پھل،سبزیاں اور گوشت و مچھلی استعمال کریں اسی طرح خشک میوہ جات بھی استعمال کریں اوراس ضمن میں میانہ روی کو ہرگزنہ بھولیں۔ اگر ڈاکٹر نے کسی خاص کھانے سے پرہیز بتایا ہوتواس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے خود پر حرام کر لیا جائے۔ ذیابیطس میں بھی کسی حد تک مٹھاس کا استعمال ضروری ہے۔ اس لیے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق تھوڑا بہت کھالیناچاہیے۔ اگر کولیسٹرول زیادہ ہو تو بزرگ حضرات کو کم چکنائی والا دودھ اور اس کا دہی استعمال کرناچاہیے۔ دہی کا استعمال پیٹ کے علاوہ دماغ کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔ اگر ہفتے میں ایک بار نہیں تومہینے میں ایک بار ضروراپنا وزن چیک کریں۔ متوازن غذا اور ورزش سے آپ کی جنسی صحت بھی اچھی رہے گی۔
تبدیلی کو قبول کرنا سیکھیں
دراصل تبدیلی ہی زندگی ہے اور وقت اور زمانے کے ساتھ آنے والی تبدیلی کو قبول کرنا زندگی کے معیار کو بڑھاتا ہے۔ عموماً انسان کو تبدیلی قبول کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔انسان عمر بڑھنے کے ساتھ زندگی میں کوئی واضح مقصد نہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں رہنا شروع کردیتا ہے، ماضی کی سوچیں اسے گھیر لیتی ہیں جو صحت لیے ہرگز مفید نہیں ہوتیں۔ حال میں رہنا سیکھیں۔ s’’shut the door behind you‘‘ کے اصول پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آنے والے وقت کے لیے تیار رہیں۔ اگر اولاد کوکیریئر کی وجہ سے یا شادی کے بعد کسی دوسرے شہر یا ملک میں منتقل ہونا پڑے تو ایسی صورتحال کے لیے والدین کو پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ اپنے آپ کو مصرو ف رکھیں۔ نئی نسل کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں۔چاہے کتنی بھی مصروفیت ہو کم سے کم صبح اور رات کو سونے سے پہلے ان کے ساتھ بات چیت کے لیے ۱۰ سے ۱۵ منٹ ضرور نکالیں۔ دن میں اگر آپ ان سے صرف اتنا ہی پوچھ لیں کہ ’’آپ نے کھانا کھایا یا نہیں؟‘‘یا کہ ’’آپ کا دن کیسا گذرا؟‘‘اور کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتائیںوغیرہ۔ کبھی کبھی انہیں کوئی تحفہ بھی پیش کریں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی انہیں بہت خوشی ملتی ہے۔
عمر کے ساتھ ساتھ بعض کمزوریاں یا پھر بیماری آجاتی ہے۔ انہیں سر پر سوار کرنے کی بجائے ان کو قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ جینا سیکھیں۔اگر علاج ہو سکتا ہو تو اس کی کوشش کریں۔ اکثر ہیلپنگ ایڈز کی ضرورت پڑتی ہے مثلاً نظر کی عینک، آلہ سماعت اور چلنے کے لیے چھڑی یا واکر وغیرہ۔ جس سے بعض دفعہ انسان اپنے کو dependent محسوس کرتا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسان کی ضرورت کے لیے بنائی گئی ہیں، اداس ہونے کی بجائے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چا ہیے۔
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ (الرحمٰن:۲۷)
وقت پر وصیت کریں
صحت کی حالت میں اور زندگی کے جھمیلوں میں وقت گذرنے کا پتا نہیں چلتا۔ بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور والدین بوڑھے۔ اس لیے اگر آپ کوئی وصیت کرنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں یا تو خود لکھ کر گھر میں کسی کو بتا دیں کہ وصیت کہاں پر رکھی ہے یا پھر اپنے وکیل کے ذریعہ یہ کام کرلیں۔ اکثر لوگ یہ کام کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہونے پر کرتے ہیں مگر زندگی کا تو صحت کی حالت میں بھی کچھ پتا نہیں کہ کب ختم ہو جائے۔ اسی طرح بعض دفعہ کسی خطرناک بیماری کی صورت میں ہسپتال میں ڈاکٹر ونٹیلیٹر پر ڈالنے کا سوچتے ہیں، مریض کے قریبی رشتہ داروں سے سی پی آر (cardiopulmonary resuscitation) کے بارہ میں مشورہ کرتے ہیں۔ اگر گھر میں صحت کی حالت میں پہلے سے ہی کچھ باتوں کا فیصلہ کر لیا جائے تو ایسی نازک صورت حال میں فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اگر تو کوئی ایسی بیماری ہے کہ چند دن ونٹیلیٹر پر ڈالنے کے نتیجہ میں بیماری ٹھیک ہو سکتی ہو تو ونٹیلیٹر ضرور ٹرائی کرنا چاہیے۔ دوسری صورت میں بڑھاپے میں جہاں پہلے ہی جسم کمزور ہوتا ہے اور مختلف قسم کے عوار ض لگے ہوتے ہیں، انسان کو ونٹیلیٹر وغیرہ کروانے سے فائدہ ہونے کی بجائے تکالیف میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ الّا ماشاءاللہ
پھر اس حسین دن کے لیے بھی تیار رہیں جس کا پوری زندگی انسان انتظار کرتا ہے مگر قبول کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ جی ہاں اپنی موت کے حسین دن کے لیے۔ اور اس دوسری زندگی کے لیے جو مرنے پر منحصر ہے۔ جب انسان اپنا آخری سانس لیتا ہے۔ جب دل اپنی آخری دھڑکن سے فارغ ہوتا ہے۔ اور جب دماغ کی مزید کارکردگی اسے کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ تب وقت کا مطلب بدل جاتا ہے۔ بظاہر انسان کبھی نہ اٹھنے کے لیے سو جاتا ہے مگر دراصل ہمیشگی کی زندگی پاتا ہے۔ زندگی سے موت کایہ باریک پردہ تو اٹھنا ہی ہے، اگر اسے خوشی سے نہ صرف خود قبول کریں بلکہ اپنے قریبیوں سے بھی اس بارہ میں بات کرتے رہیں تو سب کے لیے آسانی ہوگی۔ پھر بھی جہاں ایک قریبی کی جدائی سے غم ہوتا ہے مگر بہرحال اس بزرگ کے لیے یہ دن کئی لحاظ سے حسین کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس دن ایک طرف تو وہ اپنی بہت سی کمزوریوں سے نجات پاتا ہے اور دوسری طرف ایک ابدی زندگی کی طرف رواں دواں ہوکر اپنے محبوب حقیقی سے ملنے کی جبلی خواہش کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پھر کبھی بڑھاپا نہ آئے گا۔
کبھی تو دیکھیں گے احیائے نو کا ہم اعجاز
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے، دنیا اور آخرت کی حسنات عطا فرمائے، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا شرف بخشے اور ہم سب کا انجام بخیر کرے۔ جب ہم خدا کے حضور حاضر ہوں تو وہ اپنے فضل سے ہماری تمام تر کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے اپنی محبت اور بخشش کی چادر میں لپیٹ لے۔آمین۔ ہمارا جسم اور ہماری روح ایسی سکون کی حالت میں ہو کہ اس عظیم بلانے والے کی طرف سے یہ آواز آئے: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ۔وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ (الفجر: ۲۸-۳۱) اے نفسِ مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف لَوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔پس میرے بندوں میں داخل ہوجا۔اور میری جنت میں داخل ہوجا۔