احمدی مخالف اور بنجر تعلیمی ماحول کا نوحہ پروفیسر پرویز ہود بھائی کی زبانی
چند ہفتے قبل عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر تعلیم اور نیوکلیئرسائنسدان پروفیسرڈاکٹرپرویز ہود بھائی نے معروف صحافی شکیل چودھری کے یو ٹیوب چینل کے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کروایا جس کے ایک فکرانگیز حصہ کا خلاصہ سوال وجواب کی شکل میں ہدیہ قارئین ہے۔
واضح رہے کہ شکیل چودھری صاحب صحافی ہونے کے علاوہ میڈیا ایکسپرٹ اورسیاسی تجزیہ نگارہیں۔ متعدد اخبارات اور ڈپلومیٹک اداروں کے علاوہ پاکستان سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔
سوال:سر! ہمارے ہاں جو عدم برداشت ہے، اس کی میں بات کرنا چاہ رہا ہوں۔آپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں نسیم بابر صاحب کی مثال دی، جو آپ کے کولیگ تھے اور آپ کے ہمسائے بھی تھے، انہیں اس لیے گولی مار دی گئی کہ وہ احمدی تھے۔اس کا تھوڑا سا بتائیں۔ کیا وہ اکنامکس کے ٹیچر تھے اور کیا ان کا قتل ۱۹۹۴ء میں ہوا؟
جواب:۱۰؍اکتوبر۱۹۹۴ء کو، رات گیارہ بجے۔ میرے ساتھ ان کا گھر تھا،ہم قائداعظم یونیورسٹی ٹیچرز کالونی میں رہتے تھے۔ نسیم بابر کسی زمانے میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں سٹوڈنٹ تھے،بعد میں وہ اسسٹنٹ پروفیسر لگ گئے۔اور کافی سیدھا سادہ سا شخص تھا،کوئی خاص مذہبی نہیں،جمعے کو جاکر نماز پڑھ لیتا تھا، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن چونکہ یہ پوری قائداعظم یونیورسٹی میں واحد احمدی تھا،تو یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ نقاب پوشوں نے پکڑ کےاسے وہیں پہ ختم کردیا۔(ٹھنڈی آہ) دم اس نےمیری گاڑی میں توڑا۔وہ وقت نہیں بھولے گا۔
سوال: تو یہ فزکس کے استاد تھے؟
جواب:جی
سوال: اچھا، ایک اکنامکس کے بھی تھے میرے خیال میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، یا نکال دیا گیا تھا، وہ کیا تھا؟
جواب: ظفر وینس تھے، احمدی تھے۔ اورمیرا خیال ہے کہ ریٹائرڈ ہوئے، نکالے نہیں تھے، لیکن ہر وقت ان کو دھمکیاں ملتی تھیں۔
پھر ایک منیر رشید تھے، جو Mathematics ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین تھے اور بہت اچھے حساب دان تھے۔ ریاضی کی بلند قامت شخصیت تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۷۴ء میں جب احمدیوں کے خلاف گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کے دروازے پہ لکھا ہوا تھا کہ یہاں کتوں اور احمدیوں کا داخلہ منع ہے۔
(’’Dogs and Ahmadies Not Allowed‘‘)
خیر کچھ ہی وقت کے بعد وہ یونیورسٹی چھوڑگئےقبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ بہرحال پھر وہ افریقہ یا کہیں اَور چلے گئے۔ایسے لوگوں کو ملازمت ملنے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔
سوال: اچھا سر، ڈاکٹر سلام کےآپ بڑے قریب تھے، بڑی قربت تھی آپ کی ان سے،ان کو جب نوبیل پرائز ملا تو جب قائداعظم یونیورسٹی میں ان کو مدعو کیا گیا تو اسلامی جمعیت کے طلبہ نے احتجاج کیا تھا اور دھمکی دی تھی، وہ کیا تھا؟
جواب:ہاں، تو یہ بات ہے ۱۹۸۰ءکی۔عبدالسلام (پاکستان) آئے ہوئے تھے۔ اور دیکھیے،انڈیا میں تو ان کا بڑاخیر مقدم ہوا تھا۔ پوری دنیا میں بڑی دھوم تھی۔ بہت بڑا کام تھاجو انہوں نے ۱۹۶۸ء میں کیالیکن نوبیل پرائز ۱۹۷۹ء میں ملا۔
تواب ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور یہ بہت ہی شرمندگی کا باعث ہوتا اگر پاکستان انہیں کوئی اعزازنہ دیتا۔ تو ضیاء الحق بڑا کائیاں بندہ تھا اس نے کہا کہ چلو اسے ہم جو بھی اعزاز ہے، نشان ہے، ستارہ ہے پتا نہیں کیا ہے، کوئی ان کو دیا گیا، مگر وہ ان کو بہت خاموشی سے دیا گیا، اور انہیں کہیں اَور جانے نہیں دیا گیا۔اور جب ہمیں یہ خبر ہوئی کہ عبدالسلام اسلام آباد آئے ہیں تو ہم نے چاہا کہ وہ آکرفزکس ڈیپارٹمنٹ میں لیکچر دیں۔ آخر یہ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے پورے ملک میں جہاں ان کی بات سمجھی جا سکتی تھی۔ لیکن اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ نے کہا کہ یہ قادیانی ہے،اگر یہاں پر یہ آیا تو ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔(آہ) تو میرا جھگڑا اس وقت اس زمانے کے چیئرمین کے ساتھ ہو گیا، ان کا نام ایم ایس کے رزمی تھا۔ رزمی نے کہا کہ آپ کیوں بلانا چاہ رہے ہیں یہ توکوئی مقصد ہی نہیں بنتا۔ وہ لوگ نہیں چاہتے کہ عبدالسلام آئیں۔ میں نے کہا کہ اگر وہ وہاں پہ کھڑے ہیں تو ہم بھی کھڑے ہوںگے اور یہاں کوئی گڑبڑ ہونے نہیں دیں گے۔
بہرحال نہیں آنے دیا۔ بہت شرمناک بات ہےکہ نوبیل پرائز جیتنے والے کو آپ یونیورسٹی میں بھی نہیں آنے دیتے۔ خیر پنجاب یونیورسٹی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،لیکن قائداعظم یونیورسٹی وہ یونیورسٹی ہے جس کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کو عبدالسلام کے شاگرد نے بنایا اور جس کی شہرت اسی کی بنا پر پڑی اور اب آپ اس واحد پاکستانی کو یہاں نہیں بلا سکتے جس نے پاکستان کو دنیا کے سائنسی نقشے پہ پہنچایا۔ تو یہ تعصبات بہت پرانے ہیں اور کم ہوتے ہوئے مجھے دکھائی نہیں دیتے اور اب میں تو دیکھ رہا ہوں کہ احمدیوں کوتو اس بات پہ بھی پکڑلیتے ہیں کہ ان کے پاس بکریاں ہیں! صرف بکریاں ہیں اور کچھ بھی نہیں۔
سوال: کہ وہ قربانی نہ کردیں ناں۔
جواب : وہ قربانی نہ کردیں ! میرا مطلب ہے کہ آپ حماقت کے اس درجہ تک بھی گر سکتے ہیں؟
سوال: اور یہ ان کو بھول جاتا ہے کہ پاکستان کے جو پہلے وزیرخارجہ تھے، فارن منسٹر، وہ احمدی تھے اور بڑے پکے احمدی تھے، سر ظفراللہ خان، اور ان کو جناح صاحب نے (وزیر) بنایا تھا۔اس کی کبھی مذمت نہیں کرتے۔ اس وقت وہ(مخالفین احمدیت) کہتے تھے کہ میثاق مدینہ میں اسی طرح تھا۔ میثاق مدینہ کی روح پھر یادآجاتی ہے۔ حالانکہ اس وقت جو بڑے بڑے علماء موجود تھے ان کا بھی کبھی ہم نے نہیں سنا کہ مولانا شبیراحمد عثمانی نے اس کی مذمت کی ہوکہ آپ نے ایک ’’کلیدی عہدہ ‘‘جسے وہ کہتے ہیں،ایک احمدی کو کیوں دے دیا اور پہلے وزیر قانون جو تھے، وہ جوگندر ناتھ منڈل تھے، وہ ہندو تھے، کہ ان کو آپ نے اتنا کلیدی عہدہ کیوں دے دیا۔
جواب: تو اس وقت شاید میثاق مدینہ کا جو جذبہ تھا وہ مضبوط تھا، اب توبنو قریظہ کا بہت مضبوط ہو گیا!
سوال: ۸۰؍ کی دہائی کی بات ہے مجھے یاد ہے، جنگ میں خبر میں نے پڑھی تھی کہ ایک احمدی کی چیچہ وطنی میں سٹیشن ماسٹر کے طور پر پوسٹنگ ہوگئی تھی، تو پورے شہر میں ہڑتال ہو گئی تھی کہ ایک احمدی سٹیشن ماسٹر کو یہاں کیوں بھیجا گیا ہے۔اور اب تولوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جو احمدی ہوتے ہیں،یہ مرتد ہوتے ہیں۔ تو پھر جب ان سے پوچھا جائے کہ مرتد کا تو حکم یہ ہے کہ آپ کے نزدیک واجب القتل ہیں توکیا تمام احمدیوں کو تہ تیغ کردینا چاہیے؟ اس پر پھر وہ آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔
سوال: پھر قائداعظم یونیورسٹی میں ڈاکٹر سلام کبھی نہیں آئے؟
جواب: نہیں
سوال: اچھا۔ تو باقی ملک میں ان کا کیسا استقبال ہوا؟ مجھے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ جب ان (ڈاکٹر سلام) کاگورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہوا تو جھنگ سے جب یہ لاہور آئے تو اس وقت جو ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ تھے وہ ایک ہندو تھے، تو کچھ طلبہ ان کے پاس گئے کہ جی یہ ایک نیا سٹوڈنٹ آیا ہے، یہ احمدی ہے، تو اس کے برتن علیحدہ کیے جائیں۔ تو وہ جو سپرنٹنڈنٹ تھااپنی لاٹھی لے کر ان کے پیچھے بھاگا اور یہ ان کے آگے آگے، کہ تم اس طرح کی تفریق یہاں پیدا کرنا چاہ رہے ہو؟تو ان صاحب کے بقول وہی بندہ جواس وقت ان طلبہ کا لیڈر تھا، وہ ضیاء الحق کے زمانے میں وزیر تعلیم تھا اور ضیاء الحق نے اسی کو بھیجا کہ تم ایئرپورٹ جاؤ اور ان کو لے کر آؤ۔ تو یہ بات بھی تاریخ کی ستم ظریفی کہہ لیں کہ وہ بندہ جو ان کے خلاف تحریک چلا رہا تھا وہ ان کو ایئرپورٹ لینے گیا۔ ہوتی غالباً نام تھا ان کا۔
سوال: یہ بتایئے گا کہ ہم اگر پاکستان کو بھنور سے نکالنا چاہتے ہیں، آپ کی جو خواہش ہے کہ اس بھنور سے نکلے تواس کے لیے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج ہم کہاں ہیں، انڈیا کہاں ہے ؟
جواب: بھئی دیکھیے اس بھنور سے نکلنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہوگا لیکن سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ادھر کی جو وزارت تعلیم ہے،خواہ وہ فیڈرل ہو یا صوبائی ہو، انہیں ختم کردواور ازسر نو یہاں تعلیم کی تعمیر کرو۔ایک تعلیمی نظام ایسا بناؤ جو دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل ہو۔وہ تعلیم دو جو باقی دنیا میں دی جاتی ہے۔ یکساں قومی نصاب کے بعد یہ جو مدرسے یہاں ہیں، اور ہمارے سکول جو مدرسے بن گئے ہیں، یہ تو ہمیں تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
دیکھیے بہت سی چیزیں پاکستان میں کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں جمہوریت لانا ہے،کرپشن ختم کرنی ہے، مالیاتی پالیسی درست کرنی ہے، طبقاتی اونچ نیچ کو ختم کرنا ہے،سب کچھ کرنا ہے۔
سب کچھ کرنا ہے مگر جو سب سے زیادہ نمبر ایک جو ہونا چاہیے وہ ہے تعلیم کو ازسرنو کھڑا کرنا۔ اور یہ موجودہ نظام میں ہو نہیں سکتا۔ کیسے ہوگا؟ مجھے نہیں پتا۔ لیکن جو ہم بچوں کواس وقت سکولوں میں پڑھا رہے ہیں، یہ ہم ان کو زہر کی گولیاں کھلا رہے ہیں، ان کے دماغوں کو ماؤف کررہے ہیں، انہیں شاہ دولے کے چوہے بنا رہے ہیں،(ٹھنڈی آہ)۔
میں کیا بتاؤں میرا اب پچھلے تین سال میں اتنا زیادہ تجربہ رہا ہے، کیونکہ میں سکولوں میں بھی جاتا ہوں،کالجوں میں بھی، یونیورسٹی میں تو پوری زندگی گزاری ہے، میں دیکھتا ہوں کہ جو فرق ہے ہمارے عام بچے میں اور وہ جو او لیول، اے لیول اور آئی بی (International Baccalaureate) کرتے ہیں،زمین اور آسمان کا فرق ہے۔اور یہ اس لیے نہیں کہ صرف زیادہ سہولیات میسر ہیں ان او لیول،اے لیول، آئی بی سکولوں کو۔ لیکن اس لیے کہ جو نصاب ہے، جو کتابیں ہیں، جو اساتذہ ہیں،سب سے بڑی بات یہ کہ جو امتحانات کا نظام ہے، یہ بالکل مختلف ہے۔اور ہمارا جو نظام ہے، عام بورڈز میں جس طرح سے ان کو صرف رٹوایا جاتا ہے، ان کے ذہنوں کوبنجربنایاجاتا ہے۔ میں نے ایسے نوجوانوں کو دیکھا ہے جو ۱۱۰۰ میں سے ۱۱۰۰ نمبر لیتے ہیں لیکن دو جملے ٹھیک طریقے سے نہیں لکھ سکتے، خواہ وہ انگلش ہو،اردوہو۔ان کوریاضی بھی نہیں آتی۔ وہ جو اتنے نمبر لیتے ہیں آپ انہیں ذرا بھی پرکھیں،پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ اگرچہ بہت اوپر جائیں گے، اس لیے کہ ہمارا نظام نمبروں پہ چلتا ہے، مگر یہ تو بیڑا غرق کریں گے اس ملک کا۔ اَور بیڑا غرق کیا ہے! یہ اس قابل نہیں ہیں کہ ادارے چلا سکیں۔
جب تک تعلیم کو آپ نہیں بدلیں گے تویہ ملک شاہ دولے کے چوہوں کا ملک بنے گا۔
(حوالہ: https://www.youtube.com/watch?v=-lzv_uE0SHw)
(نوٹ: ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا اس تحریرکے تمام مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔