بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۶۴)
٭…حضرت ابو طالب کے ایمان لانےکے بارے میں راہنمائی
٭…وراثت میں لڑکے کو دو اور لڑکی کو ایک حصہ ملنے اور حقوق نسواں کے متعلق راہنمائی
٭…بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں صفت وحدانیت کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا
سوال:پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ مجھے حضرت ابوطالب سے خاص محبت ہے کیونکہ انہوں نے ساری زندگی حضورﷺ کی حفاظت کی اور مشکل ترین وقت میں حضورﷺ کا ساتھ دیا۔ ایسا شخص مسلمان کیسے نہیں ہو سکتا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۲؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: حضرت ابوطالب نے آنحضورﷺکی غیرمعمولی طور پرمدد اور حمایت کی اورشعب ابی طالب میں محصور رہنے کے تکلیف دہ زمانہ میں بھی حضورﷺکا ساتھ نہیں چھوڑا۔حضرت ابو طالب کے اسی ہمدردانہ سلوک اور رویّہ کی بنا پر حضورﷺ کے سب سے بڑے عاشق اور آپ کے غلام صادق اور روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضورﷺکی کفار مکہ کی طرف سے ہونے والی مخالفت اور حضرت ابوطالب کی طرف حضورﷺ کو ملنے والی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریّہ ہیں سفہاء ہیں اور ذرّیت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النّار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضرتﷺکو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کانام ہیزم جہنّم اور وقود النّار رکھااور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذرّیت شیطان اور پلید ٹھہرایامیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتاہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے بازآجا ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ آنحضرتﷺنے جواب میں کہاکہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چچا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔ آنحضرتﷺیہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیّت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرتﷺیہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اِس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تُو اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے جااپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔…
یہ سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگریہ تمام عبارت الہامی ہے جوخدائے تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اس عاجز کی طرف سے ہے۔ اس الہامی عبارت سے ابو طالب کی ہمدردی اور دلسوزی ظاہرہے لیکن بکمال یقین یہ بات ثابت ہے کہ یہ ہمدردی پیچھے سے انوار نبوت وآثار استقامت دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۱۰ تا ۱۱۲ و حاشیہ)
پس حضرت ابو طالب نے حضورﷺکی انتہائی درجہ کی حمایت کی، یہاں تک کہ حضورﷺ کی خاطر وہ اپنی قوم کی مخالفت اٹھانے کو بھی تیار ہو گئے۔ لیکن انہوں نے اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑا اور حضورﷺکے اصرار کے باوجود کلمہ پڑھ کر توحید کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ رئوسائے مکہ کی شکایت پر حضرت ابو طالب کے حضورﷺکو اس کام سے باز آنے کی تلقین کرنے اور پھر حضورﷺ کے جواب پر حضرت ابو طالب کی طرف سے حضورﷺکی حمایت کے اعلان کے واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:ابو طالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا اور یہ معلوم ہوتا کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریمﷺ کو ان سے بہت ہی محبت تھی ان کی قربانیوں اور حسن سلوک کی وجہ سے، اس لئے آپؐ کو سخت دکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مر رہے ہیں۔ آپؐ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰه ِکہہ دیجئے مگر ابو طالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ آخر رسول کریمﷺنے بہت اصرار کیا آپ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چچا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تا کہ میں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن ابو طالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانا نہ چاہتے تھے۔ اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریمﷺکے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔(خطبات محمود جلد۱۷ صفحہ ۲۶۴، مورخہ یکم مئی ۱۹۳۶ء)
پس ایک طرف تو حضرت ابو طالب نے اپنی آخری سانسوں تک حضورﷺکا ساتھ دیا لیکن دوسری طرف حضورﷺ اور آپ کے دین کو سچا جانتے ہوئے بھی انہوں نے کلمہ پڑھ کر توحید کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے حضورﷺنے حضرت ابوطالب کے بارے میں فرمایا کہ امید ہے کہ قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کچھ نفع دے گی کہ وہ آگ کے درمیانے درجہ میں کر دیے جائیں گے کہ آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوتے۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب قصۃ ابی طالب)اس دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک انسان کوئی جرم کرتا ہے اور اسے اس کے جرم کے مطابق جیل کی سزا ہوتی ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ اسی طرح جہنم بھی اس دنیا میں کی گئی غلطیوں اور گناہوں کی سزا کے لیے بنائی گئی ہے اور اس میں بھی ہر انسان کو اس کی غلطی اور گناہ کے مطابق سزا کے طور پر کم یا زیادہ رہنا پڑے گا۔ اسی طرح جہنم کے بارے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺمیں صراحت موجود ہے کہ دوزخ ایک ہسپتال کی مانند ہے اور گناہگاروں کو اس میں علاج کے لیے بھیجا جائے گا۔ اب ہسپتال میں کینسر کا علاج کروانے والے مریض بھی جاتے ہیں اور چھوٹے موٹے زخم کی مرہم پٹی کروانے والا شخص بھی جاتا ہے۔پس حضورﷺکے اس ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے کہ جس طرح دوسرے مخالفین اسلام جنہوں نے اسلام کی مخالفت اور اسے نابود کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا اور اس کی دشمنی میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ان کا اپنے جرموں اور گناہوں کی پاداش میں جہنم میں جانا ایسا ہی ہو گا جس طرح کہ ایک بہت بڑے جرم کی سزا میں کسی کو اس دنیا میں عمر قید ہو جاتی ہے یا جس طرح ایک موذی مرض میں مبتلا انسان ہسپتال میں جاتا ہے اور ایک لمبے عرصہ کے لیے اس میں رہتاہے۔ جبکہ حضرت ابوطالب کا جہنم میں جانا ایسا ہی ہو گا جس طرح ایک معمولی سا جرم کرنے والا ایک یا دو دن جیل کی سزا کاٹ کرباہر آجاتا ہے، یا ایک چھوٹے سے زخم والا شخص ہسپتال میں جاتا اور مرہم پٹی کروا کر گھر واپس آ جاتا ہے۔
پس حضرت ابو طالب اگرچہ شرک کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آنحضورﷺکی کوشش اور خواہش کے باوجود توحید کا اقرار نہیں کیا لیکن وہ ایسے شرک میں مبتلا نہیں تھے جس شرک میں وہ مشرکین مبتلا تھے جو توحید اور خدا تعالیٰ کے دشمن تھے اور کھلم کھلا شرک کا اظہار کرتے تھے اور خدا تعالیٰ اور آنحضورﷺکی مخالفت میں دن رات کمربستہ تھے۔ اس لیے حضرت ابوطالب اپنی نیک فطرت اور آنحضورﷺکی مدد اور حمایت کرنے کی وجہ سے نیز قیامت کے روز حضورﷺکی شفاعت کی بدولت خدا تعالیٰ کے دشمن مشرکین کی طرح نہ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور نہ ہی لمبا عرصہ جہنم میں رہیں گے۔ ہاں جس طرح ایک معمولی بیماری کا شکار انسان علاج کی خاطر کچھ وقت کے لیے ہسپتال جاتا ہے، حضرت ابوطالب کو بھی اسی طرح کچھ وقت کے لیے علاج کی خاطر جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی حقیقت کو حضورﷺکے ارشاد میں بیان کیا گیا ہے۔
سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ وراثت میں لڑکے کو دو اور لڑکی کو ایک حصہ اس لیے ملتا ہے کہ لڑکے پر والدین اور بیوی بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن اب تو میاں بیوی دونوں ہی نوکری کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر لڑکی کی شادی نہ ہو یا وہ خلع یا طلاق یافتہ ہو اور اکیلی ہو تو اسے مرد سے کچھ نہیں ملتا۔ نیز بعض لڑکے والدین کی بھی ذمہ داری نہیں اٹھاتے اور لڑکیاں نوکری کر کے گھر کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔ میرے نزدیک ان چیزوں کی وضاحت ضروری ہے تا کہ عورت کا حق نہ مارا جائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۲؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم دائمی، غیرمبدل اور ہر زمانہ کے لیے اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح یہ آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں قابل عمل تھی۔ کیونکہ اس تعلیم کو نازل کرنے والی ہستی روز اوّل سے قیامت تک، کائنات میں ہونے والے تمام تغیر و تبدل اور حالات و واقعات سے بخوبی واقف ہے۔ اور اسی ہستی نے اس تعلیم کی حفاظت کی بھی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ پرانے وقتوں میں تو اسلام کی تعلیم قابل عمل تھی لیکن اب چونکہ عورتیں ملازمت کرنے لگ گئی ہیں اور گھریلو ذمہ داریاں اٹھانے لگ گئی ہیں، اس لیے اب اسلام کی اس تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔ ایک لغو اور نامناسب بات ہے۔
جہاں تک عورتوں کے صاحب جائیداد ہونے یا گھریلو ذمہ داریاں اٹھانے کی بات ہے تو یہ صرف اِس زمانہ سے ہی مخصوص نہیں۔ بلکہ پرانے زمانہ اور آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں بھی عورتیں بڑی بڑی مالدار تھیں اور اپنے خاوندوں اور بچوں پر اپنے مال خرچ کیا کرتی تھی، لیکن انہوں نے ایسا کبھی سوال نہیں اٹھایا کہ چونکہ ہم اپنے خاوندوں اور بچوں پر خرچ کرتی ہیں، اس لیے والدین کے ترکہ میں سے ہمیں مردوں کی طرح برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک مالدار خاتون تھیں جنہوں نے شادی کے بعد اپنا سارا مال و دولت حضورﷺ کے سپرد کر دیا تھا۔ (تفسیر کبیر از علامہ فخرالدین الرازی زیر آیت نمبر۹ سورۃ الضحیٰ وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى)اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو ایک غریب مزدور صحابی تھے، ان کی بیوی حضرت زینبؓ ایک مالدار خاتون تھیں اور اپنے خاوند اور بچوں پر اپنے مال میں سے خرچ کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ بَاب الزکوٰۃ عَلَى الزَّوْجِ وَالْأَيْتَامِ فِي الْحَجْرِ)یہ بات کہ چونکہ اب عورتیں ملازمت کرنے لگی ہیں، اس لیے گھریلو اخراجات کی ذمہ داری خاوند کی بجائے عورت کے سپرد ہو گئی ہے،بھی غلط بات ہے۔ اسلام کے نزدیک بیوی خواہ صاحب جائیداد ہو یا ملازمت کرتی ہو، بیوی بچوں کی رہائش، لباس اور خوراک وغیرہ کی ذمہ داری خاوند ہی پر عائد ہوتی ہے جسے وہ اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ بیوی کی جائیداد یا اس کی آمد پر خاوند کا کوئی حق نہیں۔ ہاں خاوند کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا مناسب طور پر انتظام کر رہا ہو تو اس کی بیوی اس کی اجازت سے ہی ملازمت کر سکتی ہے۔ اگر خاوند بیوی کی ملازمت پر راضی نہ ہو تو اسلام نے خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ملازمت کرنے سے روک سکتا ہے۔لیکن اگر بیوی اپنے خاوند کی اجازت اور مرضی سے ملازمت کرتی ہے تو بیوی کی تمام تر آمد پر بیوی کا ہی حق ہو گا، خاوند کو اس کی آمد پر کسی قسم کا تصرف حاصل نہیں ہوگا۔ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ہر موقع پر خیال رکھا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی تقسیم میں گھر سے باہر کی تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی اور بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی فراہمی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داریاں (جن میں گھرکے مال کی حفاظت، خاوند کی ضروریات کی فراہمی اور بچوں کی پرورش وغیرہ شامل ہیں) اللہ تعالیٰ نے بیوی کو سونپی ہیں۔
پھر آپ نے جو عورت کے شادی نہ کرنے یا اس کے خلع یا طلاق یافتہ ہونے کی بات کر کے اسے ترکہ میں سے مرد کے برابر حصہ دینے کی بات کی ہے یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ اگر مرد کی بھی شادی نہ ہوئی ہو یا اس نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی ہو یا بیوی نے خلع لے لی ہو تو پھر اسے بھی بیوی کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ اورعموماً طلاق کی صورت میں اور بعض اوقات خلع کی صورت میں بھی اسے بیوی کو حق مہر دینا پڑتا ہے۔ جبکہ بیوی کو طلاق یا خلع کی صورت میں اپنے خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑتا۔
باقی آجکل مغربی معاشرہ کے زیر اثر عورتوں کو ویسے ہی ہر چیز اور ہر جگہ یہ وہم ہو جاتا ہے کہ ان کا حق مارا جا رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم مساویانہ حقوق و فرائض کے احکامات پر مبنی ایک کامل اور دائمی تعلیم ہے۔ جس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: امریکہ سے ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ سورۃ الفاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے کیا گیا ہے جس میں خدا تعالیٰ کے ذاتی نام اور دو صفات کا ذکر ہے۔ لیکن اس میں احد یا واحد کی صفت کیوں نہیں بیان کی گئی، جبکہ قرآن کریم کی تعلیم کا مقصد تو خدا تعالیٰ کی وحدانیت ثابت کرنا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے مخلوق کو توحید کی تعلیم سے جس طرح متعارف کروایا ہے، کسی مذہب نے نہیں کروایا۔ خدا تعالیٰ کا ذاتی نام ’’اللہ‘‘ توحید کی جڑھ ہے جو ہر قسم کی صفات الہٰیہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اُس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حُسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی مَنقصت اُس کی ذات میں نہ ہو۔ قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اِس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جائیں۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۴۷)پس قرآن کریم کا آغاز خدا تعالیٰ کے ذاتی نام ’’اللہ‘‘ کے ساتھ کر کے وحدانیت کی صفت کو بھی نہایت عمدہ طریق سے اس کے اندر سمو دیا گیاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود۔ یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے۔ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۶۸)
پس اللہ کے لفظ میں ہی یہ مضمون بیان کر دیا گیا جس سے خدا تعالیٰ کی توحید اور اسی کے معبود یکتا ہونے اور اس کے ساتھ کسی کے شریک نہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ قرآن کریم کی ہر آیت میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی صفت لازمی بیان ہو۔ قرآن کریم تو وہ کامل کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کے ساتھ ساتھ اس معبود حقیقی کی دیگر صفات کو بھی اپنے متبعین کے لیے خوب کھول کر بیان کرتی ہے۔ورنہ تو یہ اعتراض پھر قرآن کریم کی آخری دو سورتوں پر بھی وارد ہو گا کہ ان میں صرف ربّ، مالک اور الٰہ کی صفات بیان ہوئی ہیں اور احد یا واحد کی صفت بیان نہیں ہوئی۔
دراصل قرآن کریم وہ کامل آسمانی کتاب ہے جو خداتعالیٰ کی تمام صفات کے بر محل بیان کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم اورتاثیر اورقوت اصلاح اور روحانی خاصیت سے اپنے پیروکاروں کو ہر ایک گناہ اور گندی زندگی سے نجات دلا کر ایک پاک زندگی عطا کرنے والی، خدا تعالیٰ کی شناخت کے لیے کامل بصیرت عطا کرنے والی، خدا تعالیٰ کے ساتھ عشق کا تعلق بخشنے والی اورطالب خدا کو اس کی منزل مقصود تک پہنچانے والی ہے۔