احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ کی تاریخ وفات
(گذشتہ سے پیوستہ) حضوراقدسؑ نے اپنے والدصاحب کی وفات کاواقعہ ایک اورجگہ بھی بیان فرمایاہے جوملفوظات میں درج ہے۔اس میں سنہ وغیرہ تودرج نہیں البتہ وفات کادن بیان ہواہے۔اوروہ ہفتہ کادن ہے۔فرماتے ہیں:’’پھر اس کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کانشان ہے۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اور اس وقت کا ہے جبکہ میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا۔میں لاہور گیا ہوا تھا۔ مرزا صاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعہ کو یہاں آگیا۔ تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی۔ پہلے بھی ہواکرتا تھا۔ اس وقت تخفیف تھی۔ ہفتہ کے دن دوپہر کو حُقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھاکررہا تھا۔ مجھے کہا کہ اب آرام کا وقت ہے تم جا کر آرام کرو مَیں چوبارہ میں چلا گیا۔ایک خدمتگار جمال نام میرے پاؤں دبا رہا تھا۔ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا۔ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ…… اس الہام کے ساتھ ہی پھر معاً میرے دل میں بشریّت کے تقاضے کے موافق یہ خیال گزرا اور میں اس کو بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں کہ چونکہ معاش کے بہت سے اسباب ان کی زندگی سے وابستہ تھے۔ کچھ انعام انہیں ملتا تھا اورکچھ اور مختلف صورتیں آمدنی کی تھیں۔ جس سے کوئی دو ہزار کے قریب آمدنی ہوتی تھی۔ میں نے سمجھاکہ اب وہ چونکہ ضبط ہوجائیں گے۔اس لیے ہمیں ابتلاء آئے گا۔ یہ خیال تکّلف کے طور پر نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے میرے دل میں گزرا۔ اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی پھر یہ الہام ہوا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔یعنی کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔چنانچہ یہ الہام میں نے ملاوامل اور شرمپت کی معرفت ایک انگشتری میں اسی وقت لکھوا لیا تھا۔جو حکیم محمد شریف کی معرفت امرتسر بنوائی تھی اور وہ انگشتری میں کھدا ہوا الہام موجود ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۳صفحہ ۳۵۵۔۳۵۶، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
یہ کم ازکم سات کتب کے اقتباسات ہیں۔
ان اقتباسات کوزمانی اعتبارسے دیکھیں تو کیفیت کچھ یوں بنتی ہے :
۱: نزول المسیح میں خودحضورؑ فرماتے ہیں : ’’آج تک جو دس۱۰؍اگست ۱۹۰۲ء ہے مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو اٹھائیس۲۸ برس ہو چکے‘‘،گویااس حساب سے ۱۸۷۴ء وفات کاسال بنتاہے۔
۲: تریاق القلوب میں فرمایا:’’ میرے والدصاحب مرحوم کے انتقال کو چوبیس برس آج کی تاریخ تک جو ۲۰؍ اگست ۱۸۹۹ء اور ربیع الثانی ۱۳۱۷ھ ہے گذرگئے…‘‘اور اس حساب سے ۱۸۷۵ء وفات کاسال ہوناچاہیے۔
۳: قادیان کے آریہ اورہم جو کہ جنوری ۱۹۰۷ءکی تصنیف ہے اور اس میں دسمبر۱۹۰۶ء کی تقریرکاخلاصہ درج کیاگیاہے جس میں فرمایا:’’ تب یہ الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ … چنانچہ اس الہام کے مطابق غروب آفتاب کے بعد میرے والدصاحب فوت ہوگئے۔انہیں دنوں میں جن پرپینتیس برس کاعرصہ گزرگیا ہے۔ میں نے اس الہام کویعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کومہرمیں کھدوانے کے لئے تجویز کی… یہ الہام قریباً پینتیس یاچھتیس برس کاہے‘‘اس حساب سے۱۸۷۲ء سنہ وفات ہوگا۔
۴: ضمیمہ تحفہ گولڑویہ جوکہ ۱۹۰۰ء کی تصنیف ہے،فرمایا: ’’اورنیزالہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جومیرے والدصاحب کی وفات پرایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے۔ ‘‘یہ سال ۱۸۷۴ء بنتاہے۔
۵: اربعین نمبر۳جوکہ ۱۹۰۰ء کے وسط کی تصنیف ہے، فرمایا:’’اورنیزالہاماَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗجومیرے والدصاحب کی وفات پرایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے۔‘‘ گویاسال ۱۸۷۴ء بنتاہے۔
۶: اورکتاب البریہ جوکہ ۱۸۹۷ء کی تصنیف ہے، فرمایا:’’میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا…تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے… اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے… میں نے اس الہام کو ان ہی دنوں میں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی جو بڑی حفاظت سے ابتک رکھی ہوئی ہے۔ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری…‘‘
اس بیان میں حضوراقدسؑ اپنی عمرکاتخمینہ بتارہے ہیں اور ایک ہی اقتباس میں صاف نظرآرہاہے کہ ایک موٹااندازہ ساہے،شروع میں فرمایا کہ چونتیس یاپینتیس برس اور آخرپرفرمایاکہ قریباً چالیس برس،اب اگرتاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء مانی جائے تو ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۵ء کے درمیان کوئی سنہ وفات ہوناچاہیے۔ اور اگر سنہ وفات ۱۸۷۴ء تھا تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۴ء ہوگی چالیس سال منفی کرنےسے،اور اگر۳۴/۳۵سال منفی کریں تو ۱۸۳۹یا۱۸۴۰سنہ ہوگا۔ اور اگر ۱۸۷۶ء سنہ وفات ہوتو تاریخ پیدائش کاسنہ ۱۸۳۶ء یا ۱۸۴۱ء یا۱۸۴۲ء ہوگا۔اور اگر سنہ وفات ۱۸۷۲ء فرض کریں تو تاریخ پیدائش کاسنہ ۱۸۳۲ء یا۱۸۳۷ء کے قریب ہوگا۔
۷: حقیقۃ الوحی اردوحصہ میں فرمایا: ’’عرصہ تخمیناً تیس برس کا ہوا ہے، اور عربی حصہ میں فرمایا: قد مضی علی صُنْعِ ہٰذا الخاتم أزیَدُ من ثلاثین سنة‘‘
حقیقۃ الوحی کی تصنیف۱۹۰۵/۱۹۰۷ء کی ہے،اس اعتبار سے ۱۸۷۳سے ۱۸۷۵ء بنے گا۔
لیکن جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ یہ سب قیاس اور تخمینے تھے اب تخمینوں کے اوپر سنہ کا تعین کرنا اور حتمی سمجھناایک مشکل امرہے۔ہاں یہ ہوسکتاہے کہ ہم نسبتاً قوی قرائن کی بدولت قدرے قریب ترکسی تاریخ یاسنہ کاتعیّن کرسکیں لیکن کسی حتمی تاریخ یاسنہ کا تعین ایساتحقیق طلب کام ہے کہ مضبوط ترین اور ٹھوس ترین دلائل کے بدوں مشکل ہے۔اس وضاحت کے ساتھ دیکھنایہ ہے کہ حضور ؑکےوالد صاحب کی وفات کاسال کس طرح معین کیاجاسکتاہے۔ یا کس طرح اس سنہ کے قریب ترپہنچاجاسکتاہے۔خاکسارکے نزدیک سنہ وفات معین کرنے کے کچھ اورقرائن بھی ہیں۔جومزیدراہنمائی کاباعث بن سکتے ہیں۔
الف: حضرت اقدس ؑکے والدماجدؒ کی وفات سے پہلے دوالہام ہونے کاذکرمسلسل ملتاہے ایک وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ اور دوسرا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ اوریہ دونوں الہامات عین اس روزکے ہیں جس روزان کی وفات ہوئی ہے۔
ب: حضرت اقدسؑ کے والدماجدؒ کی وفات کے بعد کثرت مکالمات ومخاطبات کا آغازہونا۔جیساکہ حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں :’’ایک طرف ان کا دنیاسے اٹھایاجانا تھا اورایک طرف بڑے زورشور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کامجھ سے شروع ہوا۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۵، حاشیہ)
شرف مکالمہ ومخاطبہ کے سنہ کی تعیین کااشارہ بلکہ ایک قسم کی حتمی تعیین کا ذکر حضور اقدسؑ اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں یوں فرماتے ہیں:’’ایک ہزاردوسونوے۱۲۹۰سال ہوں گے جب مسیح موعودظاہرہوگا۔سواس عاجزکے ظہور کایہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چندسال بعدمیرے ماموراورمبعوث ہونے کے چھپ کرشائع ہوئی ہے۔اوریہ عجیب امرہے اورمیں اس کوخداتعالیٰ کاایک نشان سمجھتاہوں کہ ٹھیک بارہ سونوے۱۲۹۰ ہجری میں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ پاچکا تھا۔پھرسات سال بعدکتاب براہین احمدیہ جس میں میرادعویٰ مسطور ہے تالیف ہوکرشائع کی گئی…اس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے ماموراورمنجانب اللہ ہونے کااعلان ہے صرف سات برس اس تاریخ سے زیادہ ہیں۔جن کی نسبت میں ابھی بیان کرچکاہوں کہ مکالمات الٰہیہ کاسلسلہ ان سات برس سے پہلے کاہے۔یعنی بارہ سونوے ۱۲۹۰ کا۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۰۸)
اب جب ہم ۱۲۹۰ ہجری کاشمسی کیلنڈردیکھتے ہیں تو یکم مارچ ۱۸۷۳ء سے فروری ۱۸۷۴ء کاسال بنتاہے۔اس سے ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ حضرت اقدس ؑ کے والدکاسنہ وفات اس سے قبل کاکوئی ہوناچاہیے۔
ایک دوسراقرینہ جوکہ ایک قوی ترقرینہ ہے،وہ وہ انگشتری ہے جس کے نگینہ پرالہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کھداہواہے۔کیونکہ یہ انگوٹھی اس الہام کے بعد بنوائی گئی جوکہ آپؑ کے والدمحترم کی وفات والے دن ہی ہواتھا۔چنانچہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ دیکھاجائے کہ یہ انگوٹھی کب تیارکروائی گئی تھی۔ (باقی آئندہ)