انسان کی پیدائش کا مدعا بلاشبہ خدا کی پرستش ہے
خداتعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنِّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ۔ یعنی میں نے جنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو یہ تو مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے۔ خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا میں فانی ہو جانا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک اَور جگہ فرماتا ہے اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ۔(آل عمران:۲) فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا… ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ(الروم:۳۱) یعنی وہ دین جس میں خدا کی معرفت صحیح اور اس کی پرستش احسن طور پر ہے وہ اسلام ہے اور اسلام انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور خدا نے انسان کو اسلام پر پیدا کیا اور اسلام کے لئے پیدا کیا ہے یعنی یہ چاہا ہے کہ انسان اپنے تمام قویٰ کے ساتھ اس کی پرستش اور اطاعت اور محبت میں لگ جائے۔ اسی وجہ سے اس قادر کریم نے انسان کو تمام قویٰ اسلام کے مناسب حال عطا کئے ہیں۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ ۴۱۵،۴۱۴)
اِسلام سے نہ بھاگو راہِ ہُدیٰ یہی ہے
اَے سونے والو جاگو! شمس الضّحٰی یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے
(درثمین صفحہ ۷۹)