اگر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مفہوم سمجھ لو تو ایک غیر معمولی تبدیلی تمہارے اندر پیدا ہو جائے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍اگست ۲۰۱۷ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ کیڑے اندر سے نہیں نکل سکتے۔‘‘ یعنی نفسانیت کے کیڑے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بہت ہی باریک کیڑے ہیں اور سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ان کا ہی ہے۔ جو لوگ جذبات نفسانی سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقوق اور حدود سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر حقوق العباد کو بھی تلف کرتے ہیں وہ ایسے نہیں کہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کو مولوی فاضل اور عالم پاؤ گے۔ اور بہت ہوں گے جو فقیہ اور صوفی کہلاتے ہوں گے۔ مگر باوجود ان باتوں کے وہ بھی ان امراض میں مبتلا نکلیں گے۔‘‘ یہ صرف جاہلوں کا کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کا حق اور بندوں کے حق ادا نہیں کرتے یا موقع آئے تو لوگوں کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ آپ نے فرمایا کہ بہت سارے پڑھے لکھے لوگ ایسے ہیں بلکہ علماء اور عالم لوگوں میں اور اس سے بھی بڑھ کر جو دین کا علم رکھنے والے ہیں اور عام دنیا میں وہ بڑے فقیہ اور بڑے صوفی کہلاتے ہیں، بزرگ کہلاتے ہیں وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں کہ جب اپنا موقع آتا ہے تو پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور نہ پھر ان کو خدا یاد رہتا ہے نہ بندوں کے حق ادا کرنے اور اعلیٰ اخلاق یاد رہتے ہیں۔ فرمایا’’ان بتوں سے پرہیز کرنا ہی تو بہادری ہے اور ان کو شناخت کرنا ہی کمال دانائی اور دانشمندی ہے۔ یہی بت ہیں جن کی وجہ سے آپس میں نفاق پڑتا ہے اور ہزاروں کشت و خون ہو جاتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے کا حق مارتا ہے اور اسی طرح ہزاروں ہزار بدیاں ان کے سبب سے ہوتی ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’ہر روز اور ہر آن ہوتی ہیں اور اسباب پر اس قدر بھروسہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو محض ایک عضو معطّل قرار دے رکھا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کے اصل مفہوم کو سمجھا ہے اور اگر انہیں کہا جاوے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں اور کلمہ نہیں پڑھتے؟ مگر افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ بس کلمہ منہ سے پڑھ دیا اور یہ کافی ہے۔‘‘جو اصل مقصد ہے، اصل مفہوم ہے توحید کا اس کو نہیں سمجھے۔ سمجھ لیا کہ لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھ دیا اور کافی ہو گیا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں یقیناً کہتا ہوں کہ اگر انسان کلمہ طیبہ کی حقیقت سے واقف ہو جاوے اور عملی طور پر اس پر کاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کامشاہدہ کر سکتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’یہ امر خوب سمجھ لو کہ مَیں جو اس مقام پر کھڑا ہوں مَیں معمولی واعظ کی حیثیت سے نہیں کھڑا اور کوئی کہانی سنانے کے لئے نہیں کھڑا ہوں بلکہ مَیں تو ادائے شہادت کے لئے کھڑا ہوں۔ میں نے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے پہنچا دینا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’اس امر کی مجھے پرواہ نہیں کہ کوئی اسے سنتا ہے یا نہیں سنتا اور مانتا ہے یا نہیں مانتا اس کا جواب تم خود دوگے۔ میں نے فرض ادا کرنا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ مانتے نہیں۔ جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا میں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کو ماننے والا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’خدا کے واحد ماننے کے لئے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے۔ جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا قائل نہیں‘‘۔ لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا قائل ہونا یا توحید کا قائل ہونے والا پھر بندوں کے حقوق بھی نہیں غصب کرتا۔ فرمایا’’کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہو جاتی ہے۔‘‘ اگر لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مفہوم سمجھ لو تو ایک غیر معمولی تبدیلی تمہارے اندر پیدا ہو جائے۔ فرمایا کہ’’اس میں بغض، کینہ، حسد، ریاء وغیرہ کے بُت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحد بنتا ہے جب یہ اندرونی بت تکبر، خود پسندی، ریاء کاری، کینہ و عداوت، حسد و بخل، نفاق و بدعہدی وغیرہ کے دور ہو جاویں۔‘‘ حقیقی موحد بننا ہے تو پھر تکبر بھی چھوڑنا ہوگا۔ خودپسندی بھی چھوڑنی ہوگی۔ بناوٹ اور ریا کاری کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ کینہ اور عداوت رکھنا بھی چھوڑنا ہو گا۔ کوئی صلح کرنے کے لئے آتا ہے، معافی مانگتا ہے تو اس کو معاف بھی کرنا ہو گا۔ دلوں میں کینے پالنے نہیں چاہئیں۔ دشمنیاں نہیں رکھنی چاہئیں۔ حسد اور بخل کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ نفاق اور بدعہدی کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ یہ ساری چیزیں چھوڑیں گے تو آپ نے فرمایا کہ پھر ہی سچے موحد بن سکتے ہو۔ تبھی لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’جب تک یہ بت اندر ہی ہیں اس وقت لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتا ہے؟کیونکہ اس میں توکّل کی نفی مقصود ہے۔‘‘ پس یہ پکی بات ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا۔ ابھی منہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی امر ذرا مخالف مزاج ہوا اور غصہ اور غضب کو خدا بنالیا۔ (ملفوظات جلد 9صفحہ 105 تا 107۔ ایڈیشن 1984ء)
پس خلاصہ یہ کہ انسان کے اندر سے نفسانیت کا کیڑا اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں نکل سکتا اور اللہ تعالیٰ کا فضل بغیر حقیقی توحید پر قائم ہوئے نہیں مل سکتا۔ نرا لَاالٰہَ اِلَّا اللّٰہ منہ سے کہہ دینے سے انسان موحّدنہیں بن سکتا۔ موحّد بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک سمجھنا ضروری ہے اور اس کو معبود حقیقی سمجھنا ضروری ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک سمجھا جائے اور معبود حقیقی سمجھا جائے تو پھر دنیاوی حیلوں سے، دنیاوی بہانوں سے، مختلف طریقوں سے، انسان دوسرے انسانوں کا حق نہیں مار سکتا۔