متفرق مضامین

سموگ

بے شک انسان کی زندگی کی ڈور اس کی سانسوں سے جڑی ہے۔ ایک عام انسان دن میں تقریباً تئیس ہزار بار سانس لیتا ہے۔لیکن افسوس اٹھارھویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد سے ہم فضا سے آکسیجن کے ساتھ سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر پارٹیکلز اور مختلف قسم کے کیمیکلز کی خطرناک حد تک مقدار کو بھی جسم کے اندر سانس کے ذریعہ کھینچ رہے ہیں۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی ہر سال ستر لاکھ افراد کی اموات کی وجہ بنتی ہے۔ فضائی آلودگی اس وقت عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے چوتھا بڑا خطرہ ہے۔ آج ہم ایسی ہی فضائی آلودگی یعنی سموگ کوزیر بحث لاتے ہیں۔

سموگ (Smog) دھوئیں اور دھند کا امتزاج (ملاوٹ) ہے جس سے عموماً زیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے۔ لفظ سموگ انگریزی الفاظ اسموک اور فوگ سے مل کر بنا ہے۔لفظ ’’سموگ‘‘ کو ۱۹۰۵ء میں پہلی دفعہ ڈاکٹر ہنری انتوین ڈی وُونے صحت عامہ کی ایک کانفرنس کے مقالہ میں پیش کیا۔

سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہےسموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب یا آمیزے میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں۔

سموگ کو بنانے میں دھواں، درجہ حرارت اور بادل سب حصہ دار ہوتے ہیں اور ان میں ایک ایسا کیمیائی تعامل پیدا ہوتا ہے جس کے لیے سال کے درمیان کے مہینے بہت زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔ اس موسم میں ہوا کی رفتار بھی آہستہ ہوجاتی ہے اور پھر درجہ حرارت کی وجہ سے دھواں اور دھند مل کر سموگ بناتے ہیں۔ ہوا کی کم رفتار اس سموگ کو حرکت دینے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے اور بادلوں کی موجودگی کی وجہ سے ایک دبائو سا بن جاتا ہے جو کہ اس دھند کو یا دھوئیں کو اوپر کی طرف جانے سے روکتاہے اور پھر یہ سموگ ساکن حالت میں اس جگہ کو گھیر لیتی ہے اور فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔

سموگ دو قسم کی ہوتی ہےسرما اور گرما کے ساتھ ساتھ بالترتیب سلفوریس سموگ اور فوٹوکیمیکل اصطلاحیں رائج ہیں۔

۱: موسم گرما میں سموگ پیچیدہ قسم کے فوٹوکیمیکل کے تعامل سے پیدا ہوتی ہے اور سموگ کی اس قسم کو زیادہ تر امریکہ میں دیکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو ’’لاس اینجلس سموگ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ فوٹو کیمیکل سموگ میں گاڑیوں کا دھواں، کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دھواں یا بھاپ پیدا کرنے والے نامیاتی مرکبات، نائٹروجن آکسائیڈز اور سورج کی روشنی میں زمین کے اوپر ایک زہریلی اوزون بنا دیتے ہیں۔ اس طرح سے پیدا ہونے والی سموگ سے فضا کا رنگ بدل سا جاتا ہے۔

۲: سموگ کی دوسری قسم سلفوریس سموگ یا موسم سرما کی سموگ کہلاتی ہے۔ اس میں سموگ سلفرڈائی آکسائیڈ کے فضا میں زیادہ ایک جگہ اکٹھا ہونے سے پیدا ہوتی ہے، اسے پیدا کرنے والے عوامل میں کوئلے جیسے فاسل فیولز ہوتے ہیں۔

جب فضاآلودہ ہو یا وہ گیسز جو سموگ کو تشکیل دیتی ہیں، ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان گیسوں اور اجزا کے ساتھ ماحول پر ردعمل کا اظہار سموگ کی شکل میں کرتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہی ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ زیادہ ٹریفک، زیادہ درجہ حرارت، سورج کی روشنی اور ٹھہری ہوئی ہوا کا نتیجہ ہوتی ہے، یعنی موسم سرما میں جب ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے تو اس سے دھوئیں اور دھند کو کسی جگہ ٹھہرنے میں مدد ملتی ہے جو سموگ کو اس وقت تشکیل دے دیتا ہے جب زمین کے قریب آلودگی کے اخراج کی شرح بڑھ جائے۔ سموگ بننے کی بڑی وجہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، صنعتی پلانٹس اور سرگرمیاں، فصلیں جلانا (جیسا محکمہ موسمیات کا کہنا ہے) یا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت ہے۔

سموگ انسانوں، جانوروں اور درختوں سمیت فطرت کے لیے نقصان دہ ہے۔سموگ انسانی صحت کے ساتھ ساتھ درختوں اور پودوں پر بھی نقصان دہ اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کی وجہ سے درختوں کے مسامات بند ہو جاتے ہیں اور اس طرح ماحول میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے جو بلاواسطہ انسان کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور جان لیوا امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید سموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔جیسےنزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن، سینے میں خراش اور جلد کے مسائل سے لے کر نمونیا، نزلہ وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ دہلی انڈیا میں تین سے ۱۴ سال تک کی عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپھڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان بچوں میں سے ۴۸ فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔

دراصل سموگ میں بنیادی طور پر ایک پرٹیکولیٹ مادہ موجود ہوتا ہے جو کہ پرٹیکولیٹ مادہ2.5کہلاتا ہے اور یہ پی ایم 2.5 ایک انسانی بال سے تقریباً چار گنا باریک ہوتا ہے۔ جو انسانی پھیپھڑوں میں بآسانی داخل ہو کر پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر تک کا باعث بن سکتا ہے۔

چین نے ۲۰۱۳ء کے آخری دنوں میں ’’نیشنل ایئر کوالٹی ایکشن پلان‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایسے خاص اقدامات کا منصوبہ بنایا گیا جن کا ہدف یہ تھا کہ اگلے چار برس میں آلودگی کو ۳۵ فیصد کم کیا جائے گا۔اور اس پر عمل کرتے ہوئےچین نے صرف سات برس میں فضائی آلودگی میں ۴۰ فیصد کمی کی۔

حکومت چین کا سب سے بڑا دشمن وہی کوئلہ تھا جس کے بل بوتے پر چین نے ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے میں اتنی تیزی سے ترقی کی تھی اور یہی کوئلہ چین کے لیے توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔لیکن ایکشن پلان کے تحت آنے والے برسوں میں چین نے اپنے آلودہ ترین شہروں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے نئے پلانٹ پر پابندی لگا تے ہوئے ۲۰۱۷ءکے ایک سال میں اپنے ہی سب سے زیادہ کوئلہ پیدا کرنے والے صوبے، شانزی میں کوئلے کی ۲۷ کانوں کو بند کر دیا گیا۔حکومت نے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والی گاڑیوں کے خلاف مہم جاری رکھی اور ۲۰۱۷ء کے آخر تک ملک میں ۵۵۳ ایسی ملکی اور غیر ملکی کاروں کی پیدوار کو معطل کر دیا گیا جو بہت زیادہ آلودگی پیدا کرتی تھیں۔۲۰۱۳ء کے چار سالہ منصوبے کے بعد فضائی آلودگی کو مزید کم کرنے کے دو مزید تین سالہ منصوبے بنائے گئے۔ ان میں سے پہلا منصوبہ ۲۰۱۸ء میں منظر عام پر آیا اور دوسرا ۲۰۲۰ء میں۔ ان منصوبوں سے واقعی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مزید مدد ملی۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کی بات کریں تو گذشتہ چند برسوں میں وسطی پنجاب میں چار نہیں بلکہ پانچ موسموں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ پانچواں موسم سموگ کا موسم کہلاتا ہے۔ فضا میں موجود آلودگی کی اس موٹی تہ کے باعث آنکھوں ناک اور گلے میں جلن ہوتی ہے اوریہ سانس کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے انتہائی مضر ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ۲۰۲۱ء کی ایک تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے ۸ویں نمبر پر سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ایئر کوالٹی انڈیکس موجودہ سطح پر برقرار رہا تو لاہور میں پیدا ہونے والا ہر بچہ دس سال کی متوقع عمر سے محروم ہو جائے گا جو ۵ سال قبل ۵ سے ۷ سال تھا۔ گذشتہ ماہ اکتوبر میں دنیا بھر میں لاہور کو دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دےدیا گیا جبکہ بھارتی شہر دہلی کا دوسرا نمبر ہے۔

احتیاطی تدابیر: سموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لیے دورے کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے، اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔

اگر ہم سموگ سے آلودہ کسی علاقے میں موجود ہیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ سموگ کے دوران چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھیں اور گھر کے دروازے اور کھڑکیوں کو بند کر کے رکھیں۔ فضا کو صاف کرنے والے مختلف فلٹرز اور ایسے جدید آلات دستیاب ہیں جن کو استعمال کر کے ہم اپنے گھروں، دفاتراور گاڑ یوں کی فضا کو صاف رکھ سکتے ہیں۔

سموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں بند رکھیں۔ باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینسز کا استعمال نہ کریں بلکہ عینک کو ترجیح دیں۔

اگر دمہ کے شکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس (Inhaler) رکھیں، اگر حالت اچانک خراب ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ اس کے علاوہ سموگ والے علاقے میں زیادہ محنت و مشقت، بھاگنے، دوڑنے، ورزش اور کھیل کود سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ سموگ کی وجہ سے زمین پر ہوا کا پریشر کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سانس پھولنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر سانس لینے میں مشکل پیش آ سکتی ہے اور اگر سانس اکھڑ جائے تو سانس بحال ہونے میں دقت ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایسے افراد جو پہلے سے ہی سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوں وہ اس سے زیادہ جلدی متاثر ہو سکتے ہیں۔ پانی، قہوہ اور گرم چائے کا زیادہ استعمال کریں۔

سموگ ایک ایسی میڈیکل ایمر جنسی کا نام ہے جو ہم سب کی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے مگر اس سے ہم خود اپنا کردار ادا کر کے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ایسی مشینیں جن سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہو، ان کے استعمال کو ترک کر دیں اور گاڑیوں کے استعمال کو کم سے کم کر کے پیدل چلنے کو ترجیح دیں۔ اپنے علاقے میں موجود پودوں اور درختوں کو کاٹنے سے اجتناب کرنا چاہیے بلکہ درختوںمیں اضافہ کیا جائے۔اس کے علاوہ گاڑی چلاتے وقت گاڑیوں کی رفتار دھیمی رکھیں اور فوگ لائٹس کا استعمال کریں۔وہ لوگ جو دمے یا سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں انہیں زیادہ رش یا ٹریفک جام والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(الف۔فضل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button