قنوت کے معنی اور اس کی حقیقت
قنوت کے اصطلاحی معانی:قنوت اصطلاح میں نماز کے اندر قیام کی مخصوص حالت میں دعا کرنے کو کہا جاتا ہے۔
لغوی معنی :قنوت کے لغت میں کئی معنی آتے ہیں۔بات کرنے سے رک جانا،نماز میں دعا کرنا، عبودیت میں خشوع وخضوع اختیار کرنا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنااس طرح کھڑے ہونے کے معنی بھی دیتا ہے۔
قنوت کب کیا جائے؟:ائمہ کے نزدیک اس کے متعلق کہ قنوت کب کیا جائے یا کس حالت میں کیا جائے یا کیا دعا پڑھی جائے مختلف آرا ہیں۔ مثلاً بعض کے نزدیک صرف نماز وتر میں قنوت پڑھا جاتا ہےاور بعض کے نزدیک فجر میں قنوت ہے نماز وتر میں نہیں۔ بعض کے نزدیک قنوت نماز وتر میں صرف رمضان میں ہے۔رمضان کے علاوہ صرف فجر میں قنوت پڑھا جائے۔بعض کے نزدیک نماز وتر کے علاوہ خاص حالات میں بھی قنوت پڑھا جا سکتا ہے ہاں جمعہ میں نہیں پڑھا جا سکتا۔
جب کہ فقہ احمدیہ کے مطابق وتر کی تیسری رکعت کے بعد دعائے قنوت پڑھنا مسنون ہے۔(فقہ احمدیہ جلد اول صفحہ١٩٧)
امام کا جہراً بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں اکثر طور پر امام صلوٰة حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ ہوتے تھے اور وہ بالجہر نمازوں میںبسم اللہ بالجہر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتدا میں ہوتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحبؑ کسی سے تعارض نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر خود آپ کا اپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکثر اختیار کیا ہے۔(ماخوذازسیرت المہدی جلد اول صفحہ ۷۳۵)
نمازوں میں قنوت کی دعائیں:حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نےمجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے اور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔ قنوت میں پہلے قرآنی دعائیں اور پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں۔آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے۔(ماخوذازسیرت المہدی جلد اول صفحہ ۸۰۴)
اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں قنوت سمع اللّٰہ لمن حمدہ کے بعد پڑھا جاتا جس میں قرآنی و احادیث میں مذکور دعائیں بھی پڑھی جاتی تھیں نیز یہ کہ قنوت سے مراد عمومی دعائے قنوت کے علاوہ بھی دعاؤں کا پڑھا جانا قنوت کہلاتا ہے۔
مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا: ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا آج کل چونکہ وبا کا زور ہے اس لیے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہیے۔(البدر نمبر۱۵جلد۲مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۵ کالم ۲)
نیزفرمایا’’قران شریف کا منشا یہ ہے کہ جب عذاب سر پر آ پڑے پھر توبہ عذاب سے نہیں چھڑا سکتی۔اس لیےاس سے پیشتر کہ عذاب الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بند کر دے توبہ کرو۔جبکہ دنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں۔ جب بلا سر پر آپڑے تو اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے توبہ کریں۔‘‘(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۱۳۴۔۱۳۵ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
قنوت نازلہ:اس کو قنوت نازلہ بھی کہا جاتا ہے یعنی مصیبت اور ابتلا کے وقت نماز کے آخری رکوع کے بعد کھڑے ہو کر پڑھے جانے والی مخصوص دعا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالمگیر مصیبت نازل ہو جائے مثلاً غیرمسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدّد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوفناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلاؤں اور بربادیوں اور ہلاکت خیز طوفانوں میں مبتلا ہو جانے یا طاعون کی وبا پھیل جائے تو ایسی مصیبت کے دفعیہ کے لیے فرض نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی ہے اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے یہ عمل برابر جاری رکھنے کا حکم ہے اس کا جواز جمہور ائمہ کے نزدیک عموماً اور حنفیہ کے نزدیک خصوصاً باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے اور اس کے ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز اور حقوق العباد کی ادائیگی کا پورا پورا لحاظ رکھنے اور ہر بات میں شریعت کی پابندی کا خیال رکھنے اور اخلاص و خشوع و خضوع سے دعا کرنے کا حکم ہے۔
کیا نماز وتر میں دعائے قنوت ضروری ہے:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ کیا حضور دعائے قنوت کے قائل ہیں؟
فرمایا :دعائے قنوت کا تو میں قائل ہوں لیکن اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اس کا پڑھنا ضروری اور فرض ہے میرے نزدیک دعائے قنوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خاص زمانے کا فعل ہے جسے غلطی سے فرائض میں داخل کر لیا گیا تھا۔(الفضل۸؍اپریل۱۹۴۷ءصفحہ۴)