حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض اور زمانہ کو مصلح کی ضرورت۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر ۲۰۲۳ء
٭… اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے دعویٰ نبوت پر سب سے پہلے زمانے کی ضرورت دیکھی جاتی ہے
٭… عین ضرورت کے وقت پر میرا آنا ایسا ظاہر ہے کہ مَیں خیال نہیں کرسکتا کہ بجز متعصب کے کوئی اس سے انکار کرسکے
٭… آج بھی جماعت احمدیہ کی ترقی اور لوگوں کا لاکھوں کی تعداد میں جماعت میں شامل ہونا، قربانیوں میں بڑھنا آپؑ کی سچائی کا ثبوت ہے
٭… فلسطین کے مسلمانوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک
٭…مکرم عبدالسلام عارف صاحب مربی سلسلہ،مکرم محمد قاسم خان صاحب آف کینیڈا،مکرم عبدالکریم قدسی صاحب،میاں رفیق احمد گوندل صاحب اورمکرمہ نسیمہ لئیق صاحبہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۳ء بمطابق۲۴؍نبوت۱۴۰۲؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں بےشمار جگہوں پر اپنے آنے کی غرض اور اس زمانے میں کسی مصلح کے آنے کی ضرورت کا بیان فرمایا ہے۔
حضور علیہ السلام نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ آپ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنا عین وقت کی ضرورت تھا۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اتمام حجت کے لیے مَیں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے اس زمانے کو تاریک پاکر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کرکے مجھے بھیجا کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرےاور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملے سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
سو اے حق کے طالبو! سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لیے آسمانی مدد کی ضرورت ہے۔
اسی طرح کسی آنے والے کی صداقت کو پرکھنے کا معیار بیان کرتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :کسی شخص کے سچا ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کی کھلی کھلی خبر کسی آسمانی کتاب میں موجود بھی ہے۔ اگر یہ شرط ضروری ہے تو کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہوگی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے دعویٰ نبوت پر سب سے پہلے زمانے کی ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ مقرر کردہ وقت پر آیا ہے کہ نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ خدا نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں۔ پھر
یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ دشمنوں نے جو اعتراض اٹھائے ہیں ان اعتراضات کا پورا پورا جواب بھی دیا گیا یا نہیں۔
جب یہ تمام باتیں پوری ہوجائیں تو مان لیا جائے گا کہ وہ انسان سچا ہے ورنہ نہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ زمانہ اپنی زبانِ حال سے فریاد کر رہا ہے کہ اس وقت اسلامی تفرقہ کے دُور کرنے کے لیے اور بیرونی حملوں سے اسلام کو بچانے کے لیے اور دنیا میں گم گشتہ روحانیت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے بلاشبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے۔ جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑوں کو پانی دیوے اور اس طرح پر بدی اور گناہ سے چھڑا کر نیکی اور راستبازی کی طرف رجوع دیوے۔ سو عین ضرورت کے وقت پر میرا آنا ایسا ظاہر ہے کہ مَیں خیال نہیں کرسکتا کہ بجز متعصب کے کوئی اس سے انکار کرسکے۔ اور دوسری شرط یعنی یہ دیکھنا کہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے کہ نہیں، یہ شرط بھی میرے آنے پر پوری ہوگئی۔ کیونکہ نبیوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ جب چھٹا ہزار ختم ہونے کوہوگا تب وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا۔ سو قمری حساب کی رو سے چھٹا ہزار جو حضرت آدم کے وقت سے لیا جاتا ہے مدت ہوئی جو ختم ہوچکا ہے اور شمسی حساب کی رو سے چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہے۔ ماسوائے اس کے ہمارے نبی نے فرمایا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اب اس چودھویں صدی میں سے اکیس سال گزر چکے ہیں اور بائیسواں گزر رہا ہے۔ کیا یہ اس بات کا نشان نہیں کہ مجدد آگیا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ غیر لوگ مانیں یا نہ مانیں، ہمارے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو تسلیم کریں یا نہ کریں
لیکن یہ تو خود بھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام میں کسی مہدی اور مصلح کی ضرورت ہے جو اسلام کی کشتی کو سنبھالے۔
لیکن جو آنے والا ہے، جو پیش گوئیوں کے مطابق آیا، جو وقت کی ضرورت کے مطابق آیا، اس کو ماننے کو تیار نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف دعویٰ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس دعوے کے ساتھ بےشمار نشانات بھی ظاہر فرمائے ہیں۔ ایک جگہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آج سے تئیس برس پہلے براہین احمدیہ میں الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کو مٹا دیں اور ہر ایک مکر کام میں لائیں گے مگر مَیں اس سلسلے کو بڑھاؤں گا اور کامل کروں گا اور وہ ایک فوج ہوجائے گی اور قیامت تک ان کا غلبہ رہے گا اور مَیں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک شہرت دوں گا اور جوق در جوق لوگ دُور سے آئیں گے اور ہر ایک طرف سے مالی مدد آئے گی اور مکانوں کو وسیع کرو کہ یہ تیاری آسمان پر ہورہی ہے۔
اب دیکھو! کس زمانے کی یہ پیش گوئی ہے جو آج پوری ہوئی جو آنکھوں والے ہیں ان کو دیکھ رہے ہیں مگر جو اندھے ہیں ان کے نزدیک ابھی تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج بھی جماعت احمدیہ کی ترقی اور لوگوں کا لاکھوں کی تعداد میں جماعت میں شامل ہونا، قربانیوں میں بڑھنا آپ کی سچائی کا ثبوت ہے۔
آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں آپؑ کا پیغام نہ پہنچا ہو۔ جہاں آپؑ کے پیغام کی وجہ سے سعید روحوں کو اسلام کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی ہو۔ بلکہ بعض جگہ ایسے واقعات ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے خود لوگوں کی راہ نمائی فرمائی اور وہ جماعت میں شامل ہوئے۔ مخالفین کی مخالفت کے باوجود افراد جماعت کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط فرمایا اور فرماتا چلا جارہا ہے۔ آج بھی جو ہم یہ الٰہی تائیدات کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ایک احمدی کے لیے مضبوطئ ایمان کا ذریعہ ہیں۔
اس کے بعد حضورِ انور نے دنیا بھر سے سعید فطرت لوگوں کے قبولِ حق اور ایمان و ایقان میں ترقی کے مختلف واقعات بیان فرمائے۔
بعدہٗ حضورِ انور نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطینیوں کے لیے دعا کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں اس ظلم سے نجات دے۔ کہتے ہیں کہ اب چند دن کے لیے جنگ بندی ہے تاکہ ضروریاتِ زندگی کی مدد پہنچ سکے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟ مدد پہنچا کر پھر ان کو ماریں گے؟ اسرائیل کی حکومت کے ارادے تو خطرناک لگتے ہیں۔ بڑی طاقتیں بظاہر ہمدردی کی باتیں تو کرتی ہیں، لیکن انصاف کرنا نہیں چاہتیں۔ ان ملکوں کے عقل مند بھی اب کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ جنگ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ان ممالک تک بھی پہنچ جائے گی۔ مسلمان حکومتیں اب کچھ بولنا شروع ہوئی ہیں۔ سعودی بادشاہ نے بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک آواز ہونی چاہیے۔
پس مسلمانوں کو ایک آواز بنانا پڑے گی، اس کے لیے ٹھوس کوشش کرنی پڑے گی۔
اگر یہ احساس پیدا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں اسے عملی جامہ پہنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین۔
خطبے کے آخری حصے میں حضورِ انور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر کیا اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
۱۔مکرم عبدالسلام عارف صاحب مربی سلسلہ۔ مرحوم ۵۴؍برس کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۲۔مکرم محمد قاسم خان صاحب آف کینیڈا، سابق نائب ناظر بیت المال خرچ۔ آپ ۸۲؍سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۳۔مکرم عبدالکریم قدسی صاحب۔آپ جماعت کے معروف شاعر تھے۔ گذشتہ دنوں امریکہ میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۴۔میاں رفیق احمد گوندل صاحب۔ آپ گذشتہ دنوں ۸۱؍سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۵۔مکرمہ نسیمہ لئیق صاحبہ آف امریکہ اہلیہ سید لئیق احمد صاحب شہید ماڈل ٹاؤن لاہور۔ مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضورِ انور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭