اسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنے عہد کو پورا کرنے کی اہمیت
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل: ۳۵) اور اپنے عہد پورے کرو، یقیناً عہد کے بارہ میں جواب طلبی ہو گی۔ اب اس میں کس حد تک آپ پابندی فرماتے تھے۔
ایک روایت میں حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر کی جنگ میں شامل ہونے میں یہی روک ہوئی کہ مَیں اور میرا ساتھی ابو سہل گھر سے نکلے۔ راستے میں کفار قریش نے ہمیں پکڑ لیا اور پوچھا تم محمد کے پاس جارہے ہو؟ ہم نے کہا۔ ہم مدینہ جارہے ہیں۔ انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم جب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ سارا واقعہ بیان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا جاوٴ اور اپنا عہد پورا کرو۔ ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد حدیث نمبر ۴۶۳۹)
فرمایا کہ تم جاوٴ اپنا عہد پورا کرو۔ گو ہمیں ضرورت تو ہے لیکن ہم اب دشمن کے مقابل پردعا سے مدد چاہیں گے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کا اعلیٰ معیار ہے۔ بدر کی جنگ میں ایک ایک فرد کی مدد کی ضرورت تھی۔ کفار کا لاوٴلشکر جو ہر طرح سے لیس تھا، اس کے مقابلہ پر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی حیثیت نہتوں جیسی تھی۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ تم عہد کر چکے ہو پس یہ عہد پورا کرو۔ میں دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہوں گا۔ اور پھر دنیا نے یہ نظارہ دیکھا اور تاریخ نے اسے محفوظ کر لیا اور دشمن بھی آپ کے اس عہد کے معترف ہیں، لیکن اس عبدِ کامل کو جس کو پہلے بھی اپنے خدا پر بھروسہ تھا اور وہ خدا جو اس عبدِ کامل کے ہر وقت قریب رہتا تھا اس نے کس طرح اپنی قربت کا نشان دکھایا کہ آپﷺ کی دعاوٴں کو قبول فرماتے ہوئے نہتوں اور کمزوروں کو طاقت وروں اور لاوٴ لشکر سے لیس فوج پر نہ صرف غلبہ عطا کر دیا بلکہ ایسا غلبہ عطا فرمایا جو واضح غلبہ تھا۔ جس یقین سے آپ نے فرمایا تھا کہ مَیں دعا سے خدا تعالیٰ کی مدد چاہوں گا اس یقین کو سچے وعدوں والے خدا نے پورا فرمایا اور صحابہ کے ایمان کو مزید مضبوط کیا اور دشمن پر ہیبت طاری فرمائی۔
ایک عورت نے فتح مکّہ کے موقع پر دشمن کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! جسے تُو نے پناہ دی، اسے ہم نے پناہ دی۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب الصلوٰة فی الثوب الواحد ملتحفاً بہ حدیث نمبر ۳۵۷)
پس ایک مومنہ کے زبان دینے کا آپ نے اس قدر پاس کیا کہ باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ جیسے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی، آپ نے جو اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے آئے تھے فرمایا کہ اپنے وعدے کا پاس کرو۔ اور کیونکہ تم نے وعدہ کر لیا ہے اس لئے ہم بھی تمہارے وعدے کا پاس کرتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں، آج کل کے معاشرے میں، ذرا ذرا سی بات پر عہد شکنیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور معاشرے کا امن برباد ہو رہا ہوتا ہے۔ غیروں میں تو خیر بہت زیادہ ہے لیکن جماعت میں بھی ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ بعض اوقات جھوٹ کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ جب مقدمے بازیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا معاملات پیش کئے جاتے ہیں، توایک عہد شکنی ہو رہی ہوتی ہے اور دوسرے جھوٹ بھی بولا جا رہا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبدیت سے ویسے ہی نکال دیتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے جھوٹ اور شرک کو جمع کر کے یہ واضح فرما دیا کہ جھوٹ اور شرک برابر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے۔ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج: ۳۱) پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍اگست ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ستمبر ۲۰۱۰ء)