خطاب حضور انور

اختتامی خطاب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ، یوکے ۲۰۲۳ء

اپنی بیعت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے، اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی ترجیح دین کو دنیا پر مقدم کرنا بنا لیں

آپ کا نام انصاراللہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہوسکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں

یہی اصل خدمت اور فرض انصاراللہ کا ہے۔ خود بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔

جب تک جماعت میں یہ روح پیدا رہے گی اور خدا تعالیٰ کے ساتھ لوگوں کا تعلق رہے گا اللہ تعالیٰ کے فضل بھی نازل ہوتے رہیں گے

اگر ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں تو ہم خدا تعالیٰ کے مسیح کی جماعت کے مددگار نہیں بن رہے بلکہ اس کو کمزور کرنے والے بن رہے ہیں

خود اپنے نمونے قائم نہیں کریں گے تو اولادیں کس طرح دین پر قائم ہوں گی۔ پھر اگر اولاد بگڑ جاتی ہے تو شکوہ نہیں ہونا چاہیے

ہماری نمازیں رپورٹ فارم پُر کرنے کے لیے یا لوگوں کے دکھاوے کے لیے یا رسمی طور پر نہیں ہونی چاہئیں بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے ہونی چاہئیں۔ ایسی نمازیں ہی ہیں جو پھر پھل پھول لاتی ہیں

ہمیں بہت فکر کرنی چاہیے۔ ہمارے ذمہ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا کام لگایا ہے کہ ہم نے صرف اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح نہیں کرنی۔ صرف اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو ہی توحید پر قائم نہیں کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے تابع نہیں رکھنا بلکہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیامیں قائم کرنا ہے

انصار کا ایک یہ بھی کام ہے کہ قرآن کریم کو تدبر اور غور سے پڑھیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کی تعلیم دنیا میں پھیلائیں

اشاعتِ اسلام نیز نظامِ خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیےانصاراللہ سے لیا جانے والا تاریخی عہد

اختتامی خطاب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ، یوکے، بمقام طاہر ہال مسجد بیت الفتوح لندن فرمودہ 08؍اکتوبر2023ء

(خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔

آج انصاراللہ یوکے کا اجتماع اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح فرانس اور امریکہ میں بھی اجتماع ہورہا ہے اور ان کے اجتماع کا بھی آج آخری دن ہے، آخری سیشن ہے۔ شاید امریکہ کا نہ ہو لیکن بہرحال اِن کا آخری دن ہے۔ بہرحال

کہیں اجتماع ہورہے ہیں یا نہیں ہورہے اب ایم ٹی اے نے تمام دنیا کے احمدیوں کو اس طرح ایک کر دیا ہے کہ ان تقریبات میں احباب شامل ہوتے ہیں

اور آج کی اس تقریب کو دنیا میں بہت سے انصار دیکھ اور سن رہے ہوں گے۔ پس یوکے کے انصار کے اجتماع کے ذریعے تمام دنیا کے انصار یہ تقریب دیکھ اور سن رہے ہیں اس لیے

آج کی باتوں کے سبھی انصار مخاطب ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے انصاراللہ کی تنظیم کو شروع فرمایا تھا ایک موقع پر انصار کو مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ آپ کا نام انصاراللہ سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے۔ پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کا زمانہ جوانی اور امنگ کا زمانہ ہوتا ہے اس لیے اس عمر کے افراد کا نام خدام الاحمدیہ رکھا گیا ہے تاکہ خدمت خلق کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور چالیس سال سے اوپر والوں کا نام انصاراللہ رکھا گیا ہے اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کر لیتا ہے اور اگر وہ کہیں ملازم ہو تو ملازمت میں ترقی کر لیتا ہے اور وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے۔ پس

آپ کا نام انصاراللہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہوسکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں

اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے۔ دینی لحاظ سے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف کریں اور اپنے عمل سے بھی اور پیغام پہنچا کر بھی دین کا چرچا زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہوجائے۔ پس

اس حقیقت کو ہر ناصر کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنی عبادت کے معیار کو بڑھانا ہے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔ باجماعت نماز کی طرف توجہ دینی ہے۔ گھروں میں اپنی اولاد کے سامنے اپنی عبادت کے معیار کے نمونے قائم کرنے ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دی ہے کہ ان کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنی اولاد کو ہمیشہ نمازکی تلقین کرتے رہتے تھے اور

یہی اصل خدمت اور انصاراللہ کا فرض ہے۔ خود بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔ جب تک جماعت میں یہ روح پیدا رہے گی اور خدا تعالیٰ کے ساتھ لوگوں کا تعلق رہے گا اللہ تعالیٰ کے فضل بھی نازل ہوتے رہیں گے۔

خدا تعالیٰ کے فرشتوں سے بھی تعلق قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم رہے گا اور نتیجةً جماعت بھی زندہ رہے گی۔

(ماخوذ از مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب، انوار العلوم جلد 26 صفحہ 355-356)

پس اگر ہم اپنی زندگی اور اپنی اولاد کی زندگی چاہتے ہیں، اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دنیا کی غلاظتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اس طرف خاص توجہ دینی ہوگی ورنہ ہمارا نعرہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا کھوکھلا نعرہ ہے۔

اگر ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں تو ہم خدا تعالیٰ کے مسیح کی جماعت کے مددگار نہیں بن رہے بلکہ اس کو کمزور کرنے والے بن رہے ہیں۔

پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنی نمازوں اور ذکر الٰہی کے معیار کو دیکھنے کی ضرور ت ہے۔ اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے کی ضرور ت ہے۔ ہر جگہ آپ یہ جائزہ لے لیں۔ انصاراللہ کی عمر تو ایسی ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ دینی چاہیے لیکن اس جائزے میں آپ کے سامنے یہ بات آ جائے گی کہ ہماری حالت میں بہت کمزوری ہے۔

ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے، اس بات پر بیعت کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کریں گے۔ شیطان کی حکومت کو دنیا سے مٹائیں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو کیا پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں اور فرائض جو ہمارے ذمے ڈالے گئے ہیں ان پر عمل کیے بغیر ہم یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!پس اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے متعدد جگہ اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک موقعے پر فرمایا :’’نماز وں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو۔ بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی۔ انہوں نے نماز کی معافی چاہی۔ آپ نے فرمایا کہ

جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں۔ اس لئے اس بات کو خوب یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے عمل کر لو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 263 ایڈیشن 1984ء)

پس ایسے لوگ جو بعض دفعہ میرے پاس بھی آتے ہیں اور آ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ پانچ نمازیں پڑھیں لیکن چھوٹ جاتی ہیں۔ ان کو بہت فکر کی ضرورت ہے۔

خود اپنے نمونے قائم نہیں کریں گے تو اولادیں کس طرح دین پر قائم ہوں گی۔ پھر اگر اولاد بگڑ جاتی ہے تو شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’لوگ نمازوں میں غافل اور سست اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے۔‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ ’’…پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سرنہیں جھکاتا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 162 ایڈیشن 1984ء)

پس ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ خالص ہوکر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ ایک سوز اور رقّت سے اس سے دعائیں مانگیں تو پھر ایسی حالت پیدا ہوجائے گی کہ نمازوں سے غفلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اور پھر جب یہ حالت ہوگی تو ہم عملی طور پر ان لوگوں کے سوال کا جواب دینے والے ہوجائیں گے جو کہتے ہیں کہ بعض لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور پھر بدیاں کرتے ہیں، برائیاں کرتے ہیں۔ وہ نمازیں پڑھتے ہیں تو صرف ایک خانہ پُری کے لیے۔ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت رکھے بغیر اور نماز کا حق ادا کیے بغیر نماز پڑھتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہیں یا دوسروں کا حق ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ نے خود کہہ دیا ہے کہ ان کی نمازیں ان کے لیے ہلاکت ہیں اور ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں۔ پس

ہماری نمازیں رپورٹ فارم پُر کرنے کے لیے یا لوگوں کے دکھاوے کے لیے یا رسمی طور پر نہیں ہونی چاہئیں بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے ہونی چاہئیں۔ ایسی نمازیں ہی ہیں جو پھر پھل پھول لاتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ(ھود:115)نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں۔ پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے۔‘‘ آپؑ نے فرمایا: اس طرح دعا کرو کہ جو صدیقوں اور محسنوں کی نماز ہے وہ اللہ تعالیٰ نصیب کرے۔ فرمایا کہ ’’یہ جو فرمایا ہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں‘‘ فرمایا کہ ’’اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ ان کی روح مردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا الصلوٰة کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنی وہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے‘‘ اس لیے حسنات نام رکھا ہے، صلوٰة نہیں رکھا ’’کہ

وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دُور کرتی ہے۔ نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 163 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ وہ نمازیں ہیں جو ہمیں پڑھنے کی ضرور ت ہے۔ یہ وہ نمازیں ہیں جو اگر ہم پڑھیں گے تو جہاں اپنے آپ کو برائیوں سے دُور کر کے خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کرنے والے بن جائیں گے وہاں اپنی اولادوں کا بھی زندہ خدا سے تعلق پیدا کرنے والے بن جائیں گے، اس کا ذریعہ بن جائیں گے اور یوں اپنی نسلوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے، انہیں بھی برائیوں سے بچانے والے ہوں گے، ان کے اندر بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی روح پیدا کرنے والے ہوں گے اور دین کے حقیقی انصار کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

نمازکی اہمیت

پر زور دیتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یوں نصیحت فرمائی۔ فرمایا کہ ’’جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کاربند نہیں ہوتا اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی‘‘۔فرمایا ’’اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور سرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا۔ مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک بُرے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں‘‘ نماز میں لذت اور سرور اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک بُرے ارادے اور ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوجائیں، جل کے خاک نہ ہوجائیں۔ ’’انانیت اور شیخی دُور ہوکر نیستی اور فروتنی نہ آ جائے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیتِ کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے۔‘‘

پس اپنی انانیت کو، اپنے تکبر کو، اپنے ناپاک منصوبوں کو، اپنے غلط خیالات کو دلوں میں سے نکالو گے تو پھر ہی نمازوں کی طرف بھی صحیح توجہ پیدا ہوگی اور جب ایسی نمازیں ہوں گی تو پھر خود بخود انسان کی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی۔ فرمایا ’’میں تمہیں پھر بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کاربند ہوجاؤ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہوجائیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 170 ایڈیشن 1984ء)

صرف عملی حرکتیں نہیں۔ نماز کی حالتوں میں سجدہ کرنا، کھڑے ہونا، بیٹھنا، یہی باتیں نہ ہوں، صرف زبان سے سورت فاتحہ یا آیات اور دعائیں نہ ہورہی ہوں بلکہ روح سے یہ عمل ظاہر ہورہے ہوں تب یہ نمازیں حقیقی نمازیں ہوں گی۔

پس یہ وہ اہم کام ہے جس کو انصاراللہ کو سب سے زیادہ مقدم رکھنا چاہیے۔

اگر ہماری عبادتیں اور نمازیں اللہ تعالیٰ کے معیار کے مطابق نہیں ہیں تو ہمارا اللہ تعالیٰ کے انصار ہونے کا دعویٰ کھوکھلا دعویٰ ہے۔

پس جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا انصاراللہ کو سب سے پہلے اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے چاہئیں اور اپنے تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے پھر ہی اللہ تعالیٰ وہ حالات بھی پیدا فرمائے گا جو انقلابات لاتے ہیں اور انصار کی دعائیں اور عملی حالتیں تبلیغ کے لیے بھی نئے راستے کھولیں گی۔ اور عملی حالتوں کے لیے ان تمام باتوں کا نمونہ بننے کی ضرور ت ہے جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جماعت سے توقع کی ہے اور نصائح فرمائی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ

’’ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘

پس ہر لحاظ سے یہ نمونے قائم کرو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’…اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو۔‘‘ خوفزدہ رہو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرو ’’اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔‘‘ اپنے اندرعاجزی انکساری پیدا کرو ۔ ’’کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 9 ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے فرمایا کہ تمہارے قول و فعل ایک ہونے چاہئیں۔ فرماتے ہیں ’’اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جب دیکھے کہ اس کا قول و فعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ موردِ غضب الٰہی ہوگا۔‘‘ فرمایا ’’جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا … پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہوجاوے۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔ اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے‘‘ فرمایا کہ ’’اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے وہ پرواہ نہیں کرتا۔‘‘ فرمایا ’’بدر کی فتح کی پیشگوئی ہوچکی تھی۔ ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورتِ الحاح کیا ہے؟‘‘ اتنی رونے اور زاری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 11 ایڈیشن 1984ء)اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی مخفی شرائط ہوں اگر وہ پوری نہ کی جائیں۔ اس لیے ان کو پورا کرنے کے لیے دعا ضروری ہے۔

پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ انصار جنہوں نے یہ عہد بھی کیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور اپنی اولادوں کو بھی دین سے جوڑے رکھیں گے ان کو ہر وقت اس فکر میں رہنا چاہیے کہ اپنے ایسے نمونے قائم کریں جو عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار ظاہر کرنے والے ہوں اور عملی حالتوں کے بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں تاکہ ہم اپنے بیوی بچوں کے لیے نمونہ ہوں۔ اگر نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذار فرمایا ہے وہ دل کو ہلا دینے والا ہے۔ پس

ہمیں بہت فکر کرنی چاہیے۔ ہمارے ذمہ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا کام لگایا ہے کہ ہم نے صرف اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح نہیں کرنی۔ صرف اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو ہی توحید پر قائم نہیں کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے تابع نہیں رکھنا بلکہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیامیں قائم کرنا ہے۔

پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے اور مختلف موقعوں پر جو ہمیں نصائح فرمائی ہیں اس کی جگالی کرتے رہنا چاہیے، اس کو یاد رکھنا چاہیے۔ اپنی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے تبھی ہم کامیاب انصار بن سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارَین حاصل ہو‘‘ ہمیشہ کی، دونوں جہان کی فلاح پاؤ ’’اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو۔ عقل سے کام لو اور کلام الٰہی کی ہدایات پر چلو۔ خود اپنے تئیں سنوارو اوردوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ۔‘‘ پس عقل استعمال کرو اور عقل آتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ جو حقیقی عقل ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے آتی ہے اور اس عقل کو حاصل کرنے کے لیے کلام الٰہی یعنی قرآن کریم کو پڑھنا اور اس کو سمجھنا اور اس کی ہدایات پر چلنا ضروری ہے اور پھر ساتھ ہی فرمایا کہ عملی حالتیں بھی اپنے اندر پیدا کرو۔ تمہارے اخلاق بھی اعلیٰ ہوں۔ فرمایا ’’تب البتہ کامیاب ہوجاؤ گے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 67 ایڈیشن 1984ء)

یہ باتیں ہوں گی تو پھر کامیابی ہوجائے گی۔ صرف دعوے نہیں، صرف کھوکھلے نعرے نہیں۔ پس اگر ہم نے دنیا و آخرت میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنا ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور جس کے لیے ہم آپ علیہ السلام کی بیعت میں آئے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانا۔ تو اپنے دلوں کو پاکیزہ بنانا ہوگا اور دلوں کی پاکیزگی کے لیے تقویٰ ضروری ہے اور تقویٰ کے راستے تلاش کرنے کے لیے قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔

پس انصار کا ایک یہ بھی کام ہے کہ قرآن کریم کو تدبر اور غور سے پڑھیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کی تعلیم دنیا میں پھیلائیں۔

آپؑ نے فرمایا کہ ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 67 ایڈیشن 1984ء)

پس

اگر یہ دعویٰ ہے کہ ہم اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہرائیں گے تو پھر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہمارا سب سے اوّل کام ہے۔ اور جب ہم یہ کریں گے تو ہمارے قول و فعل ایک ہوں گے اور کامیابیاں ہمیں حاصل ہوں گی۔

آپؑ نے فرمایا کہ ’’اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خداتعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آ سکو۔‘‘ اس کے محفوظ قلعے میں آ سکو ’’اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہوگئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہوگئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔

تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 77 ایڈیشن 1984ء)

پس آپ علیہ السلام کے اس ارشاد کو بھی ہمیں بہت توجہ سے ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ اگر اسلام کی حمایت اور خدمت کا شرف حاصل کرنا ہے۔ یہ اعزاز حاصل کرنا ہے کہ ہم اسلام کے خادم بنیں، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ اعزاز حاصل کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرائیں، اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ شرف حاصل کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کریں۔ اور یہ بہت عظیم کام ہے تو پھر اس اعزاز اور شرف کو حاصل کرنے کی شرط تقویٰ ہے۔ اور

جب تقویٰ پیدا ہوجائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی نظر میں یقیناً اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ انصاراللہ کہلائیں اور دنیا میں توحید کے پھیلانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت و تبلیغ میں اپنا کردار ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں۔

پھر یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ

گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے والے ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ اس بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے لیکن انصاراللہ کو سب سے زیادہ اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ وہ آپ کے مشن کو پورا کرے گا۔ آپ کی دعاؤں کو سنے گا اور آپ کے ذریعہ سے تکمیل اشاعت اسلام ہوگی۔ ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے فیض اٹھانے والے بنیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان فیض اٹھانے والوں اور فتح حاصل کرنے والوں کے لیے جو شرط رکھی ہے وہ تقویٰ ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے ایک موقعے پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ زمانہ جنگ و جدل کا نہیں ہے بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔ پھر جب یہ بات ہے تو یاد رکھو کہ حقایق اور معارف کے دروازوں کے کھلنے کے لیے ضرورت ہے تقویٰ کی۔‘‘ حقائق و معارف کے دروازوں کے کھلنے کے لیے ضرورت ہے تقویٰ کی ’’اس لئے تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:129)‘‘ یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔ فرمایا ’’اور میں گن نہیں سکتا کہ یہ الہام مجھے کتنی مرتبہ ہوا ہے۔ بہت ہی کثرت سے ہواہے۔‘‘ پس ’’فتح چاہتے ہو تو متقی بنو۔ اگر ہم نری باتیں ہی باتیں کرتے ہیں تو یاد رکھو کچھ فائدہ نہیں ہے۔

فتح کے لیے ضرورت ہے تقویٰ کی۔ فتح چاہتے ہو تو متقی بنو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 232 ایڈیشن 1984ء)

پس فتح تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنی ہے ان شاء اللہ۔ اگر ہم نے اس فتح کا حصہ بننا ہے تو ہمیں تقویٰ پر چلنا ہوگا۔ اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہوگا۔

پھر آپؑ نے فرمایا:’’فتح اسی کو ملتی ہے جس سے خدا خوش ہو۔ اس لئے ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق اور اعمال میں ترقی کریں اور تقویٰ اختیار کریں۔‘‘ اعمال اور اخلاق میں ترقی بھی خدا کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے اور یہی تقویٰ ہے۔ تقویٰ اختیار کریں ’’تاکہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور محبت کافیض ہمیں ملے۔ پھر خدا کی مدد کو لے کر ہمارا فرض ہے اور ہر ایک ہم میں سے جو کچھ کر سکتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ ان حملوں کے جواب دینے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ ہاں جواب دیتے وقت نیت یہی ہو کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 233 ایڈیشن 1984ء)خدا تعالیٰ کے جلال کو ظاہر کرنا ہے۔ یہ ہمارا مقصد ہے دنیا میں۔ اس کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔

پس آج ہر ناصر کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنے اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرے گا،

ان لوگوں میں شامل ہوگا جو دنیا کے لوگوں پر احسان کرتے ہیں اور جو دنیا کی غلاظتوں میں گھرے ہوئے ہیں انہیں احسان کرتے ہوئے غلاظتوں سے باہر نکالتے ہیں اور جب اس بات کا ہم عہد کریں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور دنیا میں توحید قائم کرنی ہے۔ اسلام کے پیغام کو ہر شخص تک پہنچانا ہے تو پھر خود ہمیں کس فکر کے ساتھ اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں خود کس قدر تقویٰ پر چلنے کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں گھروں میں اپنے بیوی بچوں کو کس قدر توحید پر چلانے کے لیے اپنے عملی نمونوں کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں کس فکر کے ساتھ اپنی نمازوں کو سنوارنے کی ضرورت ہوگی۔ کس فکر سے تعلق باللہ کے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہوگی۔ چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والا عاقل بالغ خود اس بات کا جائزہ لے سکتا ہے جو باتیں میں نے کہی ہیں۔ پس اگر ضرور ت ہے تو اس بات کی کہ ہم

اپنی ترجیحات کو دنیا کے گرد گھمانے کی بجائےاپنی بیعت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی ترجیح دین کو دنیا پر مقدم کرنا بنا لیں۔

گذشتہ ہفتہ میں نے خدام الاحمدیہ سے عہد لیا تھا اور جیساکہ میں نے شروع میں بیان کیا خدام کا کام تو زیادہ خدمت خلق تھا جو ان کے ذمہ لگایا گیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد کی گئی لیکن یہ انصاراللہ کی بھی ذمہ داری ہے اور جو لوگ عمر کے لحاظ سے انتہائی تجربہ اور بالغ سوچ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ زیادہ بڑی ذمہ داری ہے آپ کی کہ اس کام کو سرانجام دیں اور اپنے انصاراللہ ہونے کے نام کی لاج رکھیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ یہ ہوگا تو تبھی ہم کامیاب ہوں گے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ عہد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس کا میں نے ذکر کیا جب خدام الاحمدیہ سے لیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ انصاراللہ میں بھی دہرایا جائے اور ہر موقع پر دہرایا جائے۔ پہلے مجھے خیال آیا تھا دہرانے کا پھر میں نے سوچا کہ پچھلے ہفتےدہرا دیا ہے اس لیے ضرورت نہیں ہے لیکن کل ہی مجھے صدر انصاراللہ پاکستان کا یہ پیغام آیا کہ انصاراللہ کو بھی حضرت مصلح موعودؓکی خواہش اور ارشاد کے پیش نظر یہ عہد دہرانا چاہیے۔ سو اس لیے میرا خیال ہے کہ میں آج بھی یہ عہد دہرا دوں اس لیے تمام انصار کھڑے ہوجائیں۔

’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لیے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسولؐ کے لیے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے۔

ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظامِ خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیے آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافتِ احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔

اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ آمِیْنَ۔‘‘

(خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام، انوار العلوم جلد 26صفحہ 472)

اب انگریزی دان لوگوں کے لیے مَیں انگلش میں بھی دہرا دوں کیونکہ امریکہ میں بھی انگریزی بولنے والوں کی کچھ زیادہ نسبت ہے۔ یہاں بھی ہیں کچھ۔

’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔

I bear witness that there is none worthy of worship except Allah. He is One and has no partner. And I bear witness that Muhammad (صلّی اللّٰہ علَیہ وسلّم) is His servant and Messenger. I swear by Allah and proclaim that I will always endeavour to convey and propagate the teachings of Islam Ahmadiyyat and the blessed name of Holy Prophet (صلّی اللّٰہ علَیہ وسلّم) to the corners of the earth until my dying breath. And for the sake of fulfilling this most sacred obligation, I shall forever keep my life devoted to the service of Allah the Almighty and His Messenger (صلّی اللّٰہ علَیہ وسلّم). I shall give every possible sacrifice, no matter how heavy its burden, in order for the blessed flag of Islam to be raised aloft in every nation until the end of time. I also solemnly pledge to strive, with unyielding conviction, to protect and strengthen the institution of Khilafat until my last breath. And I shall also always urge my progeny to remain firmly attached to Khilafat and to seek its blessings so that Khilafat-e-Ahmadiyya may remain protected until the end of time. And so that, through the Ahmadiyya Muslim Community, the propagation of Islam may continue until the Last Day. And so that the flag of the Holy Prophet Muhammad (صلّی اللّٰہ علَیہ وسلّم) may be raised far higher than any other flag in this world.”

O God, enable me to fulfil this pledge

اللّٰھم آمین۔ اللّٰھم آمین۔ اللّٰھم آمین

بیٹھیں۔ تشریف رکھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں یہ عہد بھی پورا کرنے کی ہمیشہ توفیق دے اور اس کی طرف توجہ بھی رہے۔ آمین۔اب دعا کر لیں۔ السلام علیکم ورحمة اللہ

(دعا کے بعد حضورِ انور نے فرمایا) صدر صاحب کی اطلاع کے مطابق اجتماع پر انصار کی حاضری 3ہزار 430ہے اور 138 guestsہیں۔ ٹوٹل 3568ہے۔ انصاراللہ کو اس حاضری کو بھی بہتر کرنا چاہیے۔

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

(الفضل انٹرنیشنل ہفتہ ۲۵؍ نومبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۲ تا ۶)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button