دنیا مقصود بالذّات نہ ہو۔ اصل مقصود دین ہو
میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان سست ہو جاویں۔اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں۔مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لیے ان کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو۔ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیّت کو اُس وقت بھی مدّ نظر رکھیں،تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کرلے۔نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدّم کریں۔دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔اصل مقصود دین ہو۔پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے۔صحابہؓ کرام کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔ لڑائی اورتلوار کا وقت ایسا خطر ناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے۔وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے۔ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے۔نمازوں کو نہیں چھوڑا۔دعاؤں سے کام لیا۔اب یہ بد قسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں۔بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں۔جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں۔مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔پھر ایسی حالت میں کیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں جبکہ وہ سب کی سب دنیا ہی کے لیے ہیں۔یاد رکھو جب تک لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرہ ذرہ پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو۔کبھی ترقی نہ ہو گی۔اگر تم مغربی قوموں کا نمونہ پیش کرو کہ وہ ترقیاں کر رہے ہیں۔ان کے لیے اور معاملہ ہے۔تم کو کتاب دی گئی ہے۔تم پر حجت پوری ہو چکی ہے۔ان کے لیے الگ معاملہ اور مواخذہ کا دن ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۱۰،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)