مسلمانوں کے لیے تمام قسم کے سفر جائز ہیں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ة والسلام سفر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ
تمام مسلما نوں کو مختلف اَغراض کیلئے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب ِعلم ہی کیلئے ہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کیلئے یا مثلًا عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کیلئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کیلئے اور کبھی مرد اپنی شادی کیلئے اور کبھی تلاشِ مَعاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارتِ صالحین کیلئے سفر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کیلئے سفر کیا تھا اور کبھی سفر جہاد کیلئے بھی ہوتا ہے خواہ وہ جہاد تلوار سے ہو اور خواہ بطور مُباحَثہ کے اور کبھی سفر بہ نیتِ مُباہَلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی سفر اپنے مُرشد کے ملنے کیلئے … اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جیساکہ احادیثِ صحیحہ سے اِس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وُجوب ثابت ہوتا ہے اور امام بخاری کے سفر طلبِ علم ِحدیث کیلئے مشہور ہیں … اور کبھی سفر عجائباتِ دنیا کے دیکھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ(الانعام:12) اشارت فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبۃ:119) ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کیلئے بلکہ اِتباع خِیار کیلئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیماردار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کیلئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رو سے جائز ہیں بلکہ زیارتِ صالحین اور ملاقاتِ اخوان اور طلبِ علم کے سفر کی نسبت احادیثِ صحیحہ میں بہت کچھ حث وترغیب پائی جاتی ہے اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے۔
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 606و607)
(مشکل الفاظ کے معانی: اتباعِ جُنَّاز: جنازہ کے ساتھ جانا۔ بیماردار: تیماردار۔ حث:ترغیب)