محترم پروفیسر مرزا بشیراحمد صاحب آف نوشہرہ کینٹ
خاکسار کے ماموں اور سسر محترم پروفیسر مرزابشیر احمد صاحب (ایم اے، ایل ایل بی ) آف نوشہرہ کینٹ خیبر پختونخوا، جمعۃ المبارک ۵؍مئی ۲۰۲۳ء کو فیئر فیکس ورجینیا (امریکہ) میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آپ کچھ عرصہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔مکرم مرزا بشیراحمد صاحب حضرت مرزا غلام رسول صاحب آف پشاور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے اور محترم مرزا مقصود احمدصاحب سابق امیرپشاور، پروفیسر مرزا منظور احمد صاحب (کینیڈا)،محترم مرزا عبداللہ جان صاحب ایڈووکیٹ ریٹائرڈ سیشن جج ایبٹ آباد نیز محترم مرزا عبدالحفیظ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم سابق صدربار ایسوسی ایشن نوشہرہ و سابق صدر جماعت احمدیہ ضلع نوشہرہ کے بھائی تھے۔
آپ سابق مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب کے داماد تھے۔ ٹی آئی کالج ربوہ و بعدہ جامعہ احمدیہ کے فاضل استاذ مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمٰن صاحب آپ کے بہنوئی تھے۔
خاندان کے دیگر افراد کی طرح آپ ایک مخلص احمدی، خادم دین،خلافت احمدیہ کے فدائی نیز خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے جماعت احمدیہ کے لیے آپ کو طویل عرصہ مختلف حیثیتوں سے خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔
۱۹۶۰ء میں جب مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔اس وقت آپ لاء کالج میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔
جب بھی کوئی نامور غیر ملکی شخصیت یا وفود صوبہ سرحد کے دورہ پر تشریف لاتے تو آپ بطورجماعتی نمائندہ یا وفدمیں شامل ہوکر ان سے ملاقات کرتے اور اسلام احمدیت کا تعارف کرواتے، سلسلہ کا لٹریچر بشمول مترجم قرآن کریم ان کی خدمت میں پیش کرتے۔
مثال کے طورپر یہاں صرف ایک ایسی تاریخی شخصیت کا ذکر کیا جاتا ہے جو تاریخ دان،فلاسفر اور دانشور مسٹرآرنلڈ ٹوئن بی (Arnold J. Toynbee) کی تھی،(پیدائش ۱۸۸۹ء) جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کارل مارکس کے بعدوہی ایک نمایا ں شخصیت تھے جو تاریخی فلسفہ اور جدید دنیا پر ہونے والے اس کے اثرات کو پہلے سے بھانپ کر اس کے بارےمیں اپنے نظریات دنیا کے سامنے پیش کر دیتے تھے۔چنانچہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان میں کوئی ایک قسم کا اسلام پایا جاتا ہے بلکہ یہاں تین یعنی سنی،شیعہ اوراحمدیہ اسلام موجود ہے اور مستقبل میں اسے صرف ایک سنی مملکت بنانے (Sunnisation) کا بڑاواضح خطرہ موجود ہے۔(دی نیوز ڈاٹ کام آرٹیکل ۵۵۶۰۸۶)۔
محترم مرزا بشیر احمد صاحب مرحوم نوشہرہ میں ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۵ء قائد مجلس خدام الاحمدیہ،جبکہ ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۷ء قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع پشاور رہے۔۱۹۹۶ءتا ۲۰۰۵ء زعیم مجلس انصاراللہ ضلع پشاور رہے۔۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۰ء صدر جماعت احمدیہ نوشہرہ و ضلع نوشہرہ (خیبر پختونخوا) رہے۔
آپ محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے،سلسلہ ملازمت صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا)کے مختلف شہروں نوشہرہ،مردان، سوات، کوہاٹ،چھوٹالاہوروغیرہ پر محیط رہا۔احمدیہ کالج گھٹیالیاں کے ابتدائی دور میں لیکچرر اور پرنسپل بھی رہے۔
آپ علم دوست تھے، وسیع معلومات رکھتےتھے، اپنے مضمون فلاسفی پر عبور رکھنے کے علاوہ انگریزی زبان کے بھی ماہر تھے۔ ایک زمانہ میں آپ کے تحقیقی مضامین اور تبصرے انگریزی روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا کرتے تھے۔
سرکاری محکمہ تعلیم میں محض احمدی ہونے کی وجہ سے باوجود حقدارہونے کے آپ کو لمبا عرصہ پروموشن سے محروم رکھاجاتا رہا،اسی طرح آپ کی ٹرانسفرآبائی شہر سے دوراور باربار کردی جاتی،نتیجۃً آپ کواپنی فیملی سے جدا رہنا پڑتا۔ ایک مرتبہ ایک کلرک نے آپ کی فائل آپ کو دکھائی اور بتایا کہ ہرسال آپ کی رپورٹ میں یہ کمنٹ لکھے جاتے ہیں کہ اچھا ہے لیکن اس کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے۔
آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، شہر بھر کی ایک معروف،جانی پہچانی شخصیت تھے، ہر طبقہ اور ہر عمر کے افراد سے ان کی طبیعت اور دلچسپی کے موافق گفتگوکرنے میں ماہر تھے جبکہ حس مزاح خاندانی وصف تھا۔ اپنے طلبہ اوراطفال و خدام نیز عزیزوں رشتہ داروں حتیٰ کہ اہل محلہ کی نوجوان نسل میں ہمیشہ ہر دلعزیز رہے۔ کیونکہ آپ انہیں کامیاب زندگی گزارنے کی مفید معلومات،مشورے اور راہنمائی، بلکہ یوں کہیں کہ سرپرستی بہم پہنچاتے۔
مذہبی طور پرمتعصّب ساتھیوں کے ساتھ بھی ہمیشہ ایسا حسن سلوک کرتے (جو گفتگو میں اکثر گہرے اور لطیف مزاح کی چاشنی لیے ہوتا) کہ وہ اپنے سابقہ رویّے پر نادم ہوکر اگر دوست نہیں تو کم از کم نیوٹرل تو ہوہی جاتے،اور آپ کی محفل میں شامل ہوکر قہقہے لگاتے نظرآتے۔بیشک یہ ایک خداداد وصف تھا،جسے آپ کمال بے ساختگی اور حکمت کےساتھ خوب کام میں لانے کا ہنربھی جانتے تھے۔
آپ ایک پرہیزگاراور عبادت گزار شخص تھے جس کی گواہی غیراز جماعت افراد بھی دیتے ہیں۔نماز کے اہتمام کا التزام معمول تھا۔ نرم مزاج اور رقیق القلب انسان تھے۔ ضرورت مندوں کی پوشیدہ و اعلانیہ حالی،مالی، قالی تالیفِ قلب عمربھر ان کا شیوہ رہا۔ چندہ جات میں باقاعدہ اور قولی تھے،بفضلہ تعالیٰ موصی تھے۔
آپ کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا مکرم عطاء الحئی طلحہ شامل ہیں۔بیٹا امریکہ میں زیر تعلیم ہے۔
احباب جماعت سے درخواست ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کے ساتھ ساتھ جملہ سوگواران کے لیے صبرجمیل، نیز ہم سب کو ان کے اوصاف حمیدہ کو اپنانے کی توفیق اور ان کی نیکیوں کو اپنی اپنی زندگیوں میں جاری رکھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ خداکرے کہ ایسا ہی ہو۔آمین ثم آمین
٭…٭…٭