اللہ کے پیارے بنناچاہتے ہو تو رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرو
صوفیوں نے ترقیات کی دو راہیں لکھی ہیں۔ ایک سلوکؔ دوسرا جذبؔ۔سلوک ؔوہ ہے جو لوگ آپ عقلمندی سے سوچ کر اللہ ورسولؐ کی راہ اختیار کرتے ہیں۔جیسے فرمایا قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲) یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننا چاہتے ہو تو رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرو۔ وہ ہادئ کامل وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اٹھائیں کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی۔ ایک دن بھی آرام نہ پایا۔ اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے جو اپنے متبوع کے ہر قول وفعل کی پیروی پوری جدوجہد سے کریں۔متّبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا۔ سہل انگار اور سخت گذار کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا۔ یہاں جو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اول رسول اکرمؐ کی مکمل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے۔ اسی کا نام سلوک ہے۔ اس راہ میں بہت مصائب وشدائد ہوتے ہیں۔ ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہوجاتا ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۷،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا
سب سے بڑھ کر مقامِ احمدؐ ہے
باغِ احمد سے ہم نے پھل کھایا
میرا بُستاں کلامِ احمدؐ ہے
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمدؐ ہے
(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ ۲۴۰)