اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلّفات سے نفرت کی ہے
اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلّفات سے نفرت کی ہے…شریعت اسلام نے چھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا۔ہاں تکلّف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے۔اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا۔اور یہ فعل اس لئے کیا کہ تا اُمت کو تکلیف نہ ہو۔جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہےمگر بالکل اس کا پابند ہونا اورتکلّف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا منع ہے کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ سے مراد یہی ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض دفعہ کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے ہوتے ہیں تو کہدیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگا دو اور اس پر کھا لیا کرتے ہیں اور صف پر بھی کھالیتے ہیں، چارپائی پر بھی کھالیتے ہیں۔تو ایسی باتوں میں صرف گذارہ کو مدّنظر رکھنا چاہئے۔
تشبّہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا۔ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے اور خواہش کی ہے کہ کاش ان کے مذہب میں ہوتی اور انگریزوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر استعمال کئے ہیں مگر اب رسم پرستی کی خاطر وہ مجبور ہیں ترک نہیں کر سکتے۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ۳۸۷-۳۸۸، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)