جان و دل سے ہم نثارِ ملّتِ اسلام ہیں
جان و دل سے ہم نثارِ ملّتِ اسلام ہیں
لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہل نقار
یہ عجب بدقسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی
پر اُترتا ہی نہیں ہے جامِ غفلت کا خمار
ہوش میں آتے نہیں سَو سَو طرح کوشش ہوئی
ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار
دن بُرے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا
اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار
ہے غضب کہتے ہیں اب وحیِ خدا مفقود ہے
اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصّوں پر مدار
یہ عقیدہ برخلافِ گُفتۂ دادار ہے!
پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
گوہرِ وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر
اِک یہی دیں کیلئے ہے جائے عِزّ و افتخار
یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں
یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مُشکِ تتار
یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے دَر کھلیں
یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں رُوئے نگار
بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے
بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حِصار
ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں
محض قصّوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار
ہے یہی وحیِ خدا عرفانِ مولیٰ کا نشان
جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار
(درثمین صفحہ ۱۵۶)