اہلیہ مرحومہ مریم صدیقہ صاحبہ کا ذکر خیر
خاکسار کی اہلیہ مریم صدیقہ (شادی کے بعد مریم محمود) بنت ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب مرحوم (ابن حضرت سردار عبدالرحمان سابق مہر سنگھ رضی اللہ عنہ)۲؍مئی ۲۰۲۳ ء بروز منگل سٹاک ہوم، سویڈن کے ایک ہسپتال میں بقضائے الٰہی انتقال کر گئیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی ہمیں سویڈن آئے ہوئے چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ یہ سانحہ ارتحال پیش آگیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے،اور کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مرے گا۔ (الانبیاء : ۳۵ )
ہماری زندگی کی بھی عجب کہانی ہے۔ نصف صدی سے زائد رفاقت، یوں لگتا ہے،پلک جھپکتے ہی گزر گئی۔
فاصلے بڑھ گئے پر قرب تو سارے ہیں وہی
پیدائش اور بچپن
اہلیہ کی پیدائش ایبے سینیا (حال ایتھوپیا)میں ہوئی جہاں ان کے والد مرحوم مشنری ڈاکٹر تھے۔ اپنے والدین کے ساتھ ان کا بچپن ایبے سینیا، یمن اور مشرقی افریقہ میں گزرا۔ غالباً ۱۹۶۰ء میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی فیملی محلہ دارالصدرربوہ شفٹ کردی۔
نکاح و شادی
۲۶؍اگست ۱۹۶۷ء کو ہمارا نکاح ہوا اور ۲۲؍فروری ۱۹۶۹ءکو شادی ہوئی۔ نکاح کی خبر اس وقت روزنامہ الفضل ۳۰؍ اگست ۱۹۶۷ء میں کچھ یوں چھپی تھی:
’’سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز نے مؤرخہ ۲۶؍اگست بروز ہفتہ بعد نماز عصر مسجد مبارک میں مندرجہ ذیل دو نکاحوں کا اعلان فرمایا…
۲) مکرم محمود مجیب اصغر صاحب ولد محترم فضل الرحمن صاحب کا نکاح عزیزہ مریم صدیقہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب افریقہ سے پانچ ہزار روپے مہر پر ہوا۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اعلان نکاح پر خاندان کے بزرگ حضرت سردار عبد الرحمان صاحب سابق سردار مہر سنگھ کا ذکر نہایت قابل رشک الفاظ میں فرمایا۔ حضور نے فرمایا کہ انہوں نے دعا کا ہتھیار جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واحد ہتھیار ہے ہمیشہ استعمال کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت سی دعاؤں کو سنا ہے۔
ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی ہمیشہ اس راہ پر چلائے اور آسمانی برکتوں سے نوازے۔ آمین
احباب سے بھی درخواست ہے کہ ہر دو نکاحوں کے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لیے دعا فرمائیں۔
خاکسار ابو العطاء جالندھری‘‘
حضور نے اس موقع پر اس عاجز کے خاندان کے بارے میں فرمایا تھا کہ بھیرہ کا یہ خاندان بھی بہت مخلص ہے۔ یادرہے کہ اس عاجز کی پیدائش حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مولدو مسکن بھیرہ میں ہوئی۔
شادی کی تقریب
ہم بھیرہ سے بارات لے کر ربوہ مکان نمبر ۶/۱۸ (اس وقت) دارالصدر غربی گئے تھے۔ اسی تقریب میں محترم مولانا نذیر احمد صاحب لائلپوری نے خاکسار کے بڑے بھائی پروفیسر محمد عبد اللطیف شاہد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا تھا۔ تقریب میں کئی بزرگان بشمول صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض خواتین مبارکہ نے بھی شرکت فرمائی۔ حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحبؓ نے خاکسار کو مبارک دیتے ہوئے آہستہ سے یہ فقرہ چست کیاNo Life without wifee. حضرت ڈپٹی شریف صاحبؓ حضرت سردار صاحبؓ کے سمدھی لگتے تھے۔
اس سے اگلے روز بھیرہ میں ہمارے گھر دعوت ولیمہ ہوئی جس میں افراد جماعت اور علاقے کے معززین نے شرکت کی۔ سالم شہر کی ایک مشہور زمیندار ہندو فیملی ساہنی نے بھی شرکت کی تھی جن کے بچے اور بچیوں کے والد صاحب اتالیق تھے۔
اہلیہ کے دادا سردار عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ اورخاکسار کے دادا میاں عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ تھے۔خاکسار کے والدمحترم ماسٹر فضل الرحمان بسمل سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ اپنی تصنیف ’’بھیرہ کی تاریخ احمدیت‘‘ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’…ان دنوں علاقہ جالندھر کے ایک نوجوان مہر سنگھ نے اسلام قبول کیا۔ اسلامی نام عبد الرحمان رکھا گیا اور وہ حضور [مولوی نور الدین صاحبؓ] کی تربیت میں بھیرہ آگئے اور میرے والد صاحب کہ ان کا نام بھی عبد الرحمان تھا ہم جماعت اور دوست بن گئے تھے۔ والد صاحب کو حضرت مولوی صاحبؓ کے خاندان سے دودھ کا رشتہ تھا۔ ہر دو عبدالرحمان اکٹھے حضور کے مکان میں آتے جاتے تھے اور لکھتے پڑھتے تھے۔ مڈل کا امتحان دونوں نے ضلع کے صدر مقام شاہ پور میں جاکر دیا۔ سردار عبد الرحمان صاحب حضور کی معیّت میں پھر کشمیر چلے گئے….پارٹیشن کے بعد آپ بھلوال آکر مقیم ہو گئے۔۱۹۵۱ء میں بندہ ان کی دعا سے تبدیل ہو کر بھلوال آیا۔ آپ نے ازراہ کرم اپنے مکان میں جگہ دی۔ بڑی شفقت فرماتے تھے….
آپ کے بڑے لڑکے ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کی لڑکی سے میرا لڑکا محمود مجیب اصغر (انجینئر) ۱۹۶۹ء میں بیاہا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ نے نکاح پڑھا۔ اس موقعہ پر میں نے لکھا تھا:
حضرت اقدس کے نوٹس میں یہ جب لایا گیا
جو ہوا ارشاد بندہ اس پہ ہی مفتوں ہے
مریم و محمود کے ناموں میں باہم جوڑ ہے
اس لئے رشتہ مبارک اور بہت موزوں ہے
خود نکاح پڑھ کر کیا احساں مبارک ذات نے
بندہ عاجز ان کی منّت کا بہت ممنون ہے
حضرت سردارؓ صاحب جن پہ راضی تھا خدا
خانداں کا فرد ہر اک ہی دُرّ مکنون ہے
ہم کو بھی برکت ملے ابرار سی مولا کریم
ہے یقیں یہ سلسلہ حقّہ بہت مامون ہے‘‘
(بھیرہ کی تاریخ احمدیت مؤلفہ فضل الرحمن بسمل غفاری بی اے بی ٹی امیر جماعت احمدیہ بھیرہ مطبوعہ ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۵-۱۶)
خاکسار کے بچپن کا ایک خواب
خاکسار اس وقت غالباً چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ مسجد نور بھیرہ میں حضرت سردار عبدالرحمان سابق مہر سنگھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہیں اور ایک پانچ چھ سال کی بچی مجھے پکڑا کر چلے گئے ہیں۔ خاکسار خیال کرتا ہے کہ یہ اس عاجز کی ہونے والی بیوی اور آپ کی پوتی مریم تھی جو بعد میں اس عاجز کے عقد میں آئیں۔ اگر نکاح کی عمر سے پیچھے نظر کروں تو اس وقت مریم صدیقہ اتنی ہی ہوگی۔واللہ اعلم بالصواب
معاندین کا حملہ
۱۹۷۴ء میں خاکسار کے والدین کے پاس آپ بھیرہ میں تھیں جب ۳۱؍مئی کو معاندین کے مشتعل ہجوم نے جمعہ کے بعد والد صاحب (امیر جماعت احمدیہ بھیرہ) کے گھر پر حملہ کیا۔ جلوس کے پہنچنے سے پہلےمریم اپنے کمسن بچوں کو گھسیٹ کر والدہ صاحبہ کے ساتھ نکل کر مسجد نور کے سامنے گلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔تاہم والد صاحب بری طرح زخمی ہو گئے اور سامان لوٹ کرجلا دیا گیا۔ سامان میں اہلیہ کے جہیز کا سامان بھی شامل تھا۔اس کے بعد انہیں خاکسار نے ربوہ شفٹ کر دیا۔
اوصاف حمیدہ
اللہ نے مریم صدیقہ اور اس عاجز کو بہت خوشحال اور خوشگوار زندگی گزارنے کی توفیق دی۔ اس عاجز نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران وصیت کر لی تھی۔ گریجوایشن کرنے کے چند ماہ بعد نکاح ہوگیا اور ڈیڑھ سال بعد شادی ہوئی۔ مریم صدیقہ نے شادی کے بعد سب سے پہلے وصیت کی اور ہم نے مہر اور زیور کا دسواں حصہ ادا کیا۔ مریم صدیقہ شروع سے نیکی کی طرف راغب تھیں۔ پابند صوم و صلوٰۃ تھیں۔ تلاوت قرآن کریم بہت کرتی تھیں۔ دعاؤں اور صدقہ خیرات کی بہت قائل تھیں۔خلیفہ وقت سے اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے نو بچوں (دو بیٹے اور سات بیٹیوں) کی نعمت سے نوازا۔ انہوں نے سارے بچوں کو بطریق احسن پالا پوسا اور ان کی تربیت کی۔خاکسار کی سروس زیادہ تر کنسٹرکشن پراجیکٹس پر رہی۔ بار بار ٹرانسفر ہوتی رہی۔ ایک بار دعا کے لیے اپنی والدہ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کے لیے گئیں۔ ان کی والدہ صاحبہ نے عرض کیا کہ اس کے میاں کی بار بار ٹرانسفر ہوتی ہے۔حضورؒ نے فرمایا نوکری میں تو آدمی نوکر ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں بھیجیں جانا پڑتا ہے۔ اس کے بعدان حالات میں انہوں نے اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا۔ چند مقامات پر ہم اکٹھے رہے۔ جہاں بھی رہے ہمارا گھر ہی نماز سنٹر ہوتا تھا۔ اگر کسی جگہ جماعت نہ ہوتی تو ہم بیوی بچے با جماعت نماز ادا کرتے۔ درود شریف بہت پڑھتی تھیں۔ ہر جگہ کئی بچیاں ان سے قرآن شریف بھی پڑھتیں اور کام میں بھی مدد کرواتیں۔
خاکسار کو گھر کا کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ بڑے وقار سے رکھا۔ کہا کرتیں کہ میں جو ہوں یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ اپنے علمی کام کرتے رہیں۔
اولاد
خلافت ثالثہ کے دوران ہمارے سات بچے ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒسے ساتوں بچوں کے نام رکھوائے۔ (عائشہ نصرت، محمود منیر اکبر، امۃالمجیب، امۃالقیوم، عطیۃالخبیر، قرۃ العین، محمود فاتح احسن) دو بچے خلافت رابعہ میں ہوئے اور ان کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے رکھوائے۔ (راشدہ طلعت، ماریہ سطوت) ماریہ سطوت کی پیدائش سے پہلے حضورؒ نے وقف نو کی تحریک جاری فرما دی تھی۔چنانچہ ماریہ سطوت کی پیدائش سے پہلے حضور کو خط لکھوایا اور منظوری حاصل کی۔
ہم نے اکیلے اور بچوں کے ساتھ خلیفۃ المسیح سے کثرت سے ملاقاتیں کیں۔الحمد للہ۔ خلافت ثالثہ کے آخری تین ساڑھے تین سال ہم اسلام آباد میں تھے۔ ان دنوں حضرت صاحبؒ کے کئی دورے ہوئے۔ ۱۹۸۰ء کی بات ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے اسلام آباد میں ہماری ایک تاریخی ملاقات ہوئی بیوی بچوں کے علاوہ خاکسار کی والدہ صاحبہ دو بہنیں ان کے بچے اور چھوٹے بھائی شامل تھے۔ حضور کا سارا ڈرائنگ روم بھر گیا حضور بڑی فراخدلی سے ہر ایک سے باری باری گفتگو فرماتے رہے۔ اہلیہ سے ان کے والد صاحب کا دریافت فرمایا اور بچوں کی شرارتوں پر محظوظ ہوتے رہے۔ اس کے بعد اسی سال ہمارا دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔
ربوہ میں قیام
اس کے جلد بعد ہی خاکسار کو نیسپاک کمپنی نے سلطنت عمان بھجوادیا۔ آنا جانا رہتا تھا۔ خاکسار کی روانگی کے بعد بچوں کو اکیلے چند ماہ اسلام آباد میں سنبھالا۔ خلافت رابعہ کے آغاز پر خاکسار نے اپنے بیوی بچوں کو مستقل طور پر ربوہ اپنے والدین کے پاس منتقل کر دیا۔ خاکسار کے تقریباًچھ سال عمان میں گزرے۔اگرچہ ہر سال خاکسار دو دو مرتبہ دو ہفتے کے لیے گھر آجاتا تھا۔ لیکن بچوں کی تعلیم وتربیت والد صاحب کی نگرانی میں انہی کے سپرد تھی۔
دو مرتبہ چار چار ماہ کے لیے خاکسار نے اپنے بیوی بچوں کو عمان بلوایا۔ یو اے ای کی سیر بھی کی۔ جو اچھی چیز دیکھتیں دعا کرتیں یا اللہ! تُو یہ نعمتیں دیگر احمدیوں کو بھی دے۔ اپنے بچوں کے لیے بھی اللہ سے مانگتیں لیکن زیادہ دھیان حضرت خلیفۃ المسیح اور جماعت اور مرکز کی طرف رہتا۔
لجنہ اماء اللہ میں خدمات
ربوہ میں انہیں لجنہ اماء اللہ میں مقدور بھر بے لوث خدمات کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔ کئی شعبوں میں بڑی محنت اور جاں فشانی سے کام کیا۔ اپنی صدارت حلقہ دارالصدر شمالی کے دوران تو اللہ تعالیٰ نے بھر پور رنگ میں خدمت کی توفیق دی۔ ہمارا گھر لجنہ اور ناصرات کیactivities سے بھرا رہتا تھا۔ ہر ایک گھر کا دورہ کرتیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے دینی منصوبوں پر عمل کرواتیں۔
تبلیغ کا جنون تو انہوں نے اپنے باپ دادا سے ورثے میں پایا تھا۔ بڑی دلیری سے ربوہ کے مضافات میں کئی تبلیغی دورے کیے۔ خاندان مسیح موعودؑکی بعض خواتین بھی ان کے ساتھ گئیں۔
صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ ربوہ نے ۶؍ مئی کو تعزیتی پیغام میں فرمایا: ’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ بہت منکسر مزاج اور نیک خاتون تھیں۔ لجنہ کی خاموشی کے ساتھ لمبا عرصہ خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ میری طرف سے سب بچیوں سے اظہار تعزیت فرما دیں۔ جزاکم اللہ۔‘‘
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم ۲۰۰۶ءیا ۲۰۰۷ء میں ربوہ میں تھے۔ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ پاکستان نے ہمارے گھر لجنہ کا اجلاس بلوایا اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سے قادیان کے درویشی کے حالات سنے۔ بعض ایسے درد ناک واقعات تھے کہ میاں صاحب بھی سناتے سناتے رو پڑے۔ اجلاس کے بعد حضرت میاں صاحب ہمارے پاس بیٹھ کر اہلیہ کے بزرگ والد ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ دلچسپ واقعات سناتے رہے۔
اہلیہ کو لجنہ کی تربیتی کلاس میں پڑھانے کا موقع بھی ملتا رہا۔
بچیوں کے سسرال سے تعلقات
مریم صدیقہ خدا کے فضل سے نہ صرف اپنی بہوؤں اور دامادوں کی ہر دلعزیز تھیں بلکہ ان کے والدین سے بھی ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے۔ ان کی وفات پر سب نے بڑے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ سارے نسبی اور سسرالی خاندان میں اور اسی طرح اولاد کے سسرالی خاندانوں سے بہت اچھا تعلق رکھا۔ اپنے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں (جن میں سے اکثر وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں) کی بہت ہر دلعزیز تھیں۔ ان کی بیماری کے دوران بچیاں اور بچے اور آگے ان کے بچے بکثرت حضرت خلیفۃ المسیح کو دعا کے لیے لکھتے رہے اور پاکستان اور سویڈن میں کئی مرتبہ کینیڈا، جرمنی اور یو کے سے عیادت کے لیے آتے رہے اور خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ پاکستان والی بیٹی اور داماد عبید اللہ خان اور چھوٹے بیٹے اور بہو کو سب سے زیادہ خدمت کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی خدمت قبول فرمائے اور اجر عظیم دے۔ آخری دنوں میں انہیں ان کے بچوں اور ربوہ میں گھر کو بہت یاد کرتیں۔
خلفائے مسیح موعودؑ سے ملاقاتیں
ہماری زندگی کے بہترین لمحات وہ ہیں جب ہم نے اکٹھے حضرت خلیفۃالمسیح سے ملاقاتیں کیں اور اپنے بچوں کے معاملات حضور انور سے شیئر کیے۔
۲۰۰۰ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ پر یہ عاجز اکیلا گیا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ملاقات کے دوران دریافت فرمایا بیگم صاحبہ نہیں آئیں ؟ عرض کیا۔ ویزا نہیں تھا۔ چنانچہ پھر اگلے سال ویزا لگوایا اور فیملی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۹ءتک تقریباً ہر سال ہی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقاتوں کا شرف حاصل کیا۔ ۲۰۱۹ء میں تو دو ملاقاتیں کیں۔ حضور کی شفقتوں کی داستانیں اکثر ہم دہراتے رہتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور عطا ہمارے لیے خلافت احمدیہ اسلامیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نسلا ًبعد نسلاٍ اس کے ساتھ جوڑ کر رکھے اور سلسلہ عالیہ کے لیے کار آمد وجود بنائے۔ آمین
آخری لمحات
۲؍مئی کو علی الصبح سانس لینے میں دقت ہوئی۔ ہسپتال سے ایمبولینس منگوائی۔ خود بات کی۔ چند منٹوں میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ بیٹا محمود فاتح احسن ہمراہ تھا۔ اس نے وڈیو کال کر کے خاکسار اور اپنے سب بھائی بہنوں کو اکٹھا کر لیا۔ ربوہ والی بچی نے سورہ یاسین کی تلاوت شروع کر دی ۔جب اس آیت پر پہنچی سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍتو اہلیہ نے دو لمبے سانس لیے اور جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’وہ جنت میں مومنوں پر سلامتی کا تحفہ عطا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍیعنی ان کو سلام کیا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے رب کی طرف سے ان کے لیے پیغام ہوگا۔ تو اس لفظ سلام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مکمل حفاظت کا پیغام اور وعدہ دے دیا ہے اس خدا کی طرف سے جو رحم کرنے والا خدا ہے۔ یہ ایک چھوٹی آیت ہے لیکن ایک عظیم پیغام اپنے اندر رکھتی ہے‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍مئی ۲۰۲۳ء صفحہ ۲)
مرحومہ کی خواہش اور وصیت تھی کہ ان کی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں ہو۔ خلیفہ وقت کی اجازت اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ اہلیہ مرحومہ کا تابوت بہشتی مقبرہ پہنچانے کے اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا فرمائے اور سٹاک ہوم جنازہ ادا کر کے تابوت پاکستان روانہ کر دیا گیا جہاں ۱۳؍مئی کو صدر انجمن احمدیہ کے احاطہ میں ناظر اعلیٰ صاحب نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں ہوئی۔ اس طرح اہلیہ کی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پورا کیا۔ ایک دوست نے فون پر بتایا کہ بہت بڑا جنازہ تھا۔ قبر تیار ہونے پر خاکسار کے سمدھی پروفیسر رفیق احمد ثاقب صاحب نے دعا کروائی۔ وفات کے وقت اہلیہ کی عمر ۷۴؍ سال سے کچھ اوپر تھی۔
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
٭…٭…٭