متفرق مضامین

حقوقِ نسواں(حصہ دوم)

(لئیقہ احمد۔ جرمنی)

شادی سے پہلے خاوند کو دوسری شادی سے منع کرنے کا حق : حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۱ء کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے عورتوں کے مذکورہ بالا حق کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت مسیحَ موعود علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ایک سے زائد شادی کو شریعت نے بطور علاج کے رکھا ہے۔ جہاں شادی ہے وہاں جو شرائط پوری ہونی ہیں وہ بطور علاج ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہیے (یہ بھی حق قائم کیا ہے) کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیّت میں مبتلا نہ ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو۔ شرائط ہیں گناہ سے بچنا اور شرعی ضرورت کا خیال۔تو ایسی صورت میں اگر اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی قربانی کے لیے کر دے یعنی جو موجود بیوی ہے اس کے لیے اگر قربانی کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ اس بات پہ بھی فرمایا کہ اگر بہت اشد مجبوری نہیں ہے جو جائز مجبوری ہے تو پھر بیوی کی دلداری کے لیے ضروری ہے کہ قربانی کرو اور ایک پہ اکتفا کرو اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔(ماخوذ ازملفوظات جلد۷صفحہ۶۳-۶۴)‘‘

مزید فرمایا: آپؑ نے یہاں تک فرمایا کہ ’’یہ ان عورتوں کا حق ہے جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اوّل شرط کرالیں کہ اِن کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا ۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۴۶)

یہ بھی عورت کا حق ہے کہ جس مرد سے شادی کر رہے ہیں شادی سے پہلے اس سے عہد لے سکتے ہیں، معاہدہ کر سکتے ہیں کہ آئندہ جو بھی حالات ہوں تم دوسری شادی نہیں کرو گے اور پھر چاہے جو بھی حالات ہوں مرد پابند ہے کہ نہیں شادی کرے گا۔ پس اس حد تک مرد کو پابند کرنے کا حق دیا گیا ہے۔‘‘(جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ ۲۰۲۱ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۷؍ ستمبر ۲۰۲۱ء)

خلع یا طلاق کا حق:اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَاِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (البقرہ:۲۲۸) اور اگر وہ طلاق کا قطعی فیصلہ کر لیں تو یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اس سہولت کے ساتھ ایک اور ذمہ داری بھی ڈل جاتی ہے کہ اگر دونوں میں سے جو بھی الگ ہونا چاہتا ہے وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کرے اور نہ ہی ایک دوسرے پر کوئی کیچڑ اچھالے۔ اس بارے میں خلفائے کرام بھی وقتاً فوقتاً نصیحت کرتے رہتے ہیں۔

مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَلَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ شَیۡئًا (البقرہ:۲۳۰)ترجمہ: اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اُس میں سے کچھ بھی واپس لو جو تم انہیں دے چکے ہو۔

سوچنے اور اعتراض کرنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ کہاں اسلام کا عورت کے لیے یہ مقام اور کہاں مغربی ممالک کی یہ آزادی کہ انیسویں صدی سے پہلے عورتوں کو قانونی طور پر طلاق لینے کا کوئی حق ہی نہ تھا۔

مطلقہ عورت کے ساتھ ساتھ بیوہ عورت کو بھی اسلام نے ایک مقام عطا کیا ہے اور بیوہ عورت کا بھی زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَیَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡ مَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍ ؕ وَاللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ(البقرہ:۲۴۱)ترجمہ:اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں، اُن کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ (اپنے گھروں میں) ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں۔ ہاں! اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس بارہ میں جو وہ خود اپنے متعلق کوئی معروف فیصلہ کریں۔ اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

اگرچہ عدت کی مدت چار ماہ دس دن ہے مگر پھر بھی عورت کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس کو سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر سے ایک سال تک نہ نکالی جائے سوائے اس کے کہ وہ خود جانا چاہے۔ہندوؤں میں تو یہ بھی رسم رہی ہےکہ خاوند کے مرنے کے بعد عورت کو بھی زندہ جلادیا جاتا تھا اور بعض جگہوں پر ابھی بھی ایسے ہی ہے۔ نیز کہ خاوند کی وفات کے بعد اس کی بیوہ سفید کپڑوں کے علاوہ کوئی اور رنگ کے کپڑے بھی نہیں پہن سکتی تھی۔

عربوں میں عورت کو یہاں تک پابندی تھی کہ ایک سال تک ایک ہی کمرے میں ایک ہی کپڑوں میں رہنا ہے۔ لیکن اسلامی شریعت نے نہ صرف بیوہ عورت کو ایک سال تک گھر میں رہنے کی اجازت دی بلکہ اس کو شادی کا بھی حق دیا۔اگر وہ چاہے تو شادی کرکے یا کسی اور وجہ سے عدت کے بعد گھر چھوڑ سکتی ہے۔

عورت کو اپنی جائیداد کا حق:آنحضرتﷺ نے عورت کو اپنے مال کا مکمل اختیار اور مردوں کی طرح عورتوں کو بھی ذاتی جائیداد کا مالک قرار دیا ہے۔ خاوند کو کوئی حق نہیں کہ وہ عورت کی کمائی پر یا مال پر قبضہ کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ(النساء:۳۳)ترجمہ: اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں۔

عورت کو حق ہے کہ اپنی کمائی چاہے ماں باپ کو دے یا بہن بھائی کو، یہ خالصةً عورت کی ملکیت ہے۔ البتہ بیوی کی رضامندی سے اس کا مال باقی گھریلو اسراف میں لایا جاسکتا ہے۔(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button