بیوہ کے نکاح کا حکم باکرہ کے نکاح کے حکم کی طرح ہے
بيوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔چونکہ بعض قومیں بيوہ عورت کا نکاح خلافِ عزت خيال کرتے ہيں اور يہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔اس واسطے بيوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے۔ ليکن اس کے يہ معنے نہيں کہ ہر بيوہ کا نکاح کيا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتيں بوڑھی ہو کر بيوہ ہوتی ہيں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ايسے ہوتے ہيں کہ وہ نکاح کے لائق نہيں ہوتيں۔ مثلاً کسی کو ايسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہيں يا ايک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ايسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہيں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ايسی صورتوں ميں مجبوری نہيں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرايا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دينا چاہیے کہ بيوہ عورت کو ساری عمر بغير خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۴۲۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اگر کسی عورت کا خاوند مرجائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتاہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہو گئی ہوں۔ حالانکہ اس کے لیے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔ عورتوں کے لیے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔
(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۴۳-۴۴، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)