اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو
ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لیے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں۔ تو بہر حال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے۔ اور بعض بیچاری عورتیں جو اپنے حالات کی وجہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں ان کے بعض دفعہ رشتے بھی طے ہوجاتے ہیں لیکن ان کے عزیز رشتہ دار اس بات کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اور اس طرح ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور بیچاری عورت کو اتنا عاجز کردیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے ہی بیزار ہوجاتی ہے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ یہاں یورپ میں آکر جہاں اور دوسرے معاملات میں روشن خیالی کا نام دے کر بہت سارے معاملات میں ملوث ہوجاتے ہیں جن میں سے بعض کی اسلام اجازت بھی نہیں دیتا لیکن یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو اس بارے میں بڑی غیرت دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے… معاشرے کا یہ کام ہے کہ چاہے وہ بیوائیں ہوں، چاہے وہ غریب لوگ ہوں ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا۔ بیواؤں میں سے بھی اکثر جو ایسی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ایسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ معاشرے کے بعض مسائل ہیں جن سے دوچار ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے۔ ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکلیف اٹھاتی رہے۔ اس لیے فرمایا کہ پاک معاشرہ کے لیے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لیے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادیاں کروادو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴ دسمبر ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍جنوری ۲۰۰۵ء)