دنیاوی لہو و لعب تمہیں دین سے غافل نہ کرے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مئی ۲۰۱۷ء)
اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کی مال و دولت اور دنیا کمانے سے منع نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں یقیناً مومنوں کے لئے جائز ہیں بشرطیکہ جائز ذریعہ سے حاصل کی جائیں اور وہ دین کے راستے میں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے راستے میں روک نہ بنیں۔ عبادتوں میں روک نہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمّت سے متعلق اس بات کی فکر تھی کہ جو پاک انقلاب آپؐ نے صحابہؓ میں پیدا کیا اور انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کو جس طرح سمجھا وہ آئندہ آنے والے مسلمانوں میں مفقودنہ ہو جائے، ختم نہ ہو جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اپنی امّت کے بارے میں جس بات کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں (مجھے خطرہ ہے، خوف ہے یا فکر ہے۔ خوف تو نہیں فکر ہے) وہ یہ ہے کہ میری امّت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی اور ان خواہشات کی پیروی کے نتیجہ میں وہ حق سے دُور چلی جائے گی۔ دنیا کمانے کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! یہ دنیا رختِ سفر باندھ چکی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے۔ دونوں طرف سے سفر شروع ہے۔ دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آخر قیامت آنی ہے اور آخرت میں بھی حساب کتاب ہونا ہے وہاں بھی تیاری شروع ہے۔ اَور فرمایا کہ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں۔ دنیا کے بھی کچھ غلام ہیں۔ کچھ آخرت کی فکر کرنے والے بھی ہیں۔ فرمایا پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنو تو ضرور ایسا کرو۔ تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا۔ مگر کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہو گا۔ (بحار الانوار از الشیخ محمد باقر مجلسی الجزء التاسع والستون کتاب الایمان والکفر حدیث 63 صفحہ 263-264 مطبوعہ الامیرۃ بیروت 2008ء)
جو عمل ہونے ہیں جن کا نتیجہ ملنا ہے وہ اسی دنیا میں ملنا ہے۔ اس لئے اپنے اعمال ٹھیک کرو۔
پس یہ دنیا عمل کا گھر ہے اس دنیا کے اعمال اگلے جہان میں جزا یا سزا کا ذریعہ بنیں گے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ دنیا محض لہو و لعب ہے اور زینت کے اظہار اور ایک دوسرے پر اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے فخر کرنا ہے۔ اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ کسی سوکھے ہوئے گھاس پھوس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ جو خشک ہوتا ہے اور چُورا چُورا ہو جاتا ہے اور ہوائیں اس کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور یہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ نیک عمل کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو۔
صحابہ رضوان اللہ علیہم ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اور کون سے ذریعہ سے ہم سیکھیں اور سمجھیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنائیں اور نیک عمل کرنے والے بنائیں۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھتے بھی تھے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! مجھے ایسا کام بتائیے جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ مجھے چاہنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ہو جائے اور بندے بھی مجھے پسند کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے یعنی دنیاوی مال و متاع۔ اس کی خواہش چھوڑ دو۔ لوگوں کی طرف حریص نظر سے نہ دیکھو۔ لوگوں کے مالوں کو حریص نظر سے نہ دیکھو۔ لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیا حدیث 4102)
دنیا سے بے رغبتی یہ نہیں ہے کہ معاشرے سے انسان کٹ جائے یا دنیا سے بالکل کٹ جائے۔ شادی بیاہ بھی نہ کرو۔ اولاد کے حقوق بھی ادا نہ کرو۔ بیوی کے حق بھی ادا نہ کرو۔ جس کاروبار میں ہو اس کو بھی چھوڑ دو اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاؤ۔ دنیاوی کاموں میں محنت نہ کرو۔ سادھو بن جاؤ۔ ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں۔ اسلام یہ نہیں چاہتا۔ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ہے۔ آپ نے شادی بھی کی۔ آپ نے بیویوں کے حق بھی ادا فرمائے۔ آپ کی اولاد بھی ہوئی۔ آپ نے اولاد کے حق بھی ادا فرمائے۔ آپ کے پاس مال و دولت بھی آیا۔ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس ہوتے تھے جو روایتوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ آپ نے بغیر کسی فکر کے ایک کافر کو دے دئیے کہ اگر تمہیں اتنے ہی پسند ہیں اور اتنی حِرص سے دیکھ رہے ہو تو اسے لے جاؤ اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی سخائہﷺ حدیث 6020)
لیکن آپؐ نے ان ساری چیزوں کے ہونے کے باوجود اللہ اور بندوں کے حق ادا کئے اور ان چیزوں کو صرف سامنے نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا میری سنّت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ سادھو نہیں بن جانا۔ دنیا میں بھی رہنا ہے۔ ان چیزوں کو سامنے بھی رکھنا ہے کیونکہ میں یہ کرتا رہا ہوں۔ (سنن النسائی کتاب النکاح باب النھی عن التبتل حدیث 3219)
پس ہمیں سمجھنا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ہماری عبادتوں میں آڑے نہ آئے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے نہ روکے۔ مال و دولت کی کمائی میں مصروفیت ہمیں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے سے غافل کرنے والی نہ ہو اور اسی طرح دوسرے کی دولت اور جائیداد پر حرص کی نظر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ حرص کی نظر ہی ہے جو پھر دوسروں کو نقصان پہنچانے کی سوچ بھی پیدا کرتی ہے اور دنیا میں جو فساد ہے وہ بھی اسی حرص کی وجہ سے ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں چھوٹے ملکوں پر صرف اس لئے نظر رکھ رہی ہیں کہ یہ ہمارے زیرِ نگیں ہوں گے اور ان کی جو دولت ہے، ان کے جو قدرتی وسائل ہیں ان سے ہم فائدہ اٹھائیں۔ پس جب دوسروں کی دولت پر نظر ہو تو دنیا میں یہ فساد بھی اسی لئے پیدا ہوتا ہے چاہے وہ افراد کے درمیان میں ہو یا بڑی حکومتوں کے درمیان میں ہو۔ اس لئے فرمایا تم میں قناعت پیدا ہونی چاہئے۔ دوسروں کو حرص سے نہ دیکھو۔ ہاں اپنی صلاحیتوں اور اپنے ہنر کو کام میں لاؤ۔ محنت کرو۔ اور جب انسان محنت کرے تو پھر دولت کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ مال اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے میں بھی روک نہ بنے۔
دنیا کی بے رغبتی کی وضاحت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے۔ فرمایا کہ دنیا سے بے رغبتی اور زُہد یہ نہیں کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے۔ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام کرنا یہ دنیا سے بے رغبتی کا مطلب نہیں ہے۔ اور نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہے اس کو برباد کر دو۔ فرمایا بلکہ زُہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو۔ اپنے مال پر اعتمادنہ رکھو۔ اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہو۔ اس پر توکل ہو اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر و ثواب ملنا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم مصائب کو ذریعۂ ثواب سمجھو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیا حدیث 4100)
انسان پر مصیبتیں آتی ہیں۔ مشکلات آتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جو مال ضائع ہوا ہے اس کے اوپر رونے دھونے نہ لگ جاؤ بلکہ سمجھو کہ اس وجہ سے شاید اللہ تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے اور اس کا بھی مجھے ثواب ملے گا۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ دنیاوی مالوں کے نقصان پر اتنی جزع فزع انسان نہ کرے جس سے شرک کی بُو آنے لگے۔ کئی کاروباری لوگ ہوتے ہیں جو مالی نقصان پر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ بعض خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ پر توکّل ہو اور قناعت ہو تو کبھی یہ حالت پیدا نہیں ہوتی۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سے، مومنین سے، اپنی اُمّت کے افراد سے زُہد اور دنیا سے بے رغبتی کے یہ معیار چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے یہ ادراک عطا فرمایا ہے کہ دنیا کے نقصان ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے بڑھ کر رجوع کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اور بعض اور جگہوں پر بھی احمدیوں کے لاکھوں اور کروڑوں کے کاروبار مخالفین نے تباہ کئے اور جلائے بلکہ ایک وقت میں پاکستان کے ایک وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا اور اب یہ مانگتے پھریں گے کیونکہ میں نے کشکول پکڑا دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھنے والے ان احمدیوں نے نہ حکومت سے مانگا، نہ کشکول لے کر کسی اَور سے مانگا بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کی وجہ سے اُن کا ہزاروں اور لاکھوں کا جو کاروبار تباہ ہوا تھا وہ کروڑوں میں بدل گیا۔