اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
مئی ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
راجن پور میں دواحمدیوں پر مقدمات
بستی اللہ داد،ضلع راجن پور۔ ۱۲؍ مئی ۲۰۲۳ء:۲۳؍ جولائی۲۰۲۰ء کوراجن پور شہر کےتھانے میں سکول میں تبلیغ کرنے کے جھوٹے مقدمے میں چھ احمدیوں پر توہین کی دفعات درج کی گئیں۔تین احباب کو گرفتار کرلیا گیا۔بعد ازاں عدالت سے رہائی ہو گئی۔ لیکن مخالفت کے باعث وہ واپس اپنے گاؤں نہ لَوٹ سکے۔ چھ میں سے پانچ احمدیوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔اس کے بعد۱۲؍مئی ۲۰۲۳ء کو پولیس نے دو مزیداحمدیوں کے خلاف ملزمان کو پناہ دینے اور ان کو ملک سے باہر جانے میں مدد کرنے پر مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔یہ ایک جھوٹا مقدمہ ہے۔ پولیس نے ۱۳؍مئی ۲۰۲۳ء کو ان کی بعد از گرفتاری ضمانت منظور کر لی۔
تیرہ احمدیوں پر ۲۹۸ -ب کے تحت مقدمہ درج
چک ۵۶۵،ضلع فیصل آباد۔۱۹؍مئی ۲۰۲۳ء:احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کی وجہ سے پولیس نے تیرہ احمدیوں پر ۲۹۸ -ب کے تحت مقدمہ درج کر دیا۔
اس علاقے میں عرصہ دراز سے فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے اور احمدیوں کے خلاف متشددانہ رویہ روا رکھا جارہا ہے۔۲۲؍ مارچ ۲۰۲۳ء کو پولیس کے چند اہلکاروں نے مسجد کا دورہ کیا اور بعد ازاں بعض مقامی جماعتی عہدیداروں کو تھانے بلایا۔ ایس ایچ او نے معاملہ ڈپٹی کمشنر کو بھیجا اور فریقین سے مطالبہ کیا کہ کوئی بھی اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کارروائی نہ کرے۔
اس پرشکایت گزار فقیر حسین نے ایس ایچ او کوکہا کہ وہ احمدیوں کےخلاف کارروائی کرے لیکن اس نے کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر فقیر حسین ایڈیشنل سیشن جج رانا تنویر کے پاس چلا گیا اور ۲۲ -الف اور ۲۲ -ب کے تحت احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ جج نے فریقین کو سماعت کےلیے بلایا اور پولیس کو کہا کہ احمدیوں پر مقدمہ درج کیا جائے۔اس پر پولیس نے تیرہ احمدیوں کےخلاف مقدمہ درج کر لیا۔
اس گاؤں میں چالیس کے قریب احمدی خاندان آباد ہیں اور وہاں کی احمدیہ مسجد ساٹھ سال پرانی ہے۔ مخالفین نے جمعہ کے روز اس مسجد کے مینار اور محراب مسمار کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ لیکن پولیس نے ان کو روک دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج جڑانوالہ سعید اختر نے احمدیوں کی عارضی ضمانت منظور کر لی ہے۔
سینئر احمدی وکیل کے نام میں ’سید‘ لکھنے پر مقدمہ درج ہونے کی مزید تفصیل
کراچی،مئی ۲۰۲۳ء:ہم پہلے یہ ذکر کیا جاچکا ہےکہ سپریم کورٹ کے ستتر سالہ سینئر وکیل سید علی احمد طارق کے خلاف نام میں’’سید‘‘لکھنے کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ پہلی بار نہیں بلکہ ان پر نومبر ۲۰۲۲ء میں بھی اسی نوعیت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ان کو وکیل کی تلاش میں دشواری پیش آرہی تھی۔ ان کے مقدمہ کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس عمر سیال کے پاس ۱۵؍مئی ۲۰۲۳ء کو طے پائی تھی۔
سماعت سے قبل ہی مخالفین نے سوشل میڈیا پر مخالفت کا طوفان بدتمیزی برپا کر دیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے اور ساتھ انہوں نے شدت پسند عناصر کو مقدمہ کی سماعت کے لیے آنے کو کہا۔
چنانچہ سماعت کے وقت ستر کے قریب مخالف وکیل وہاں جمع ہو گئے انہوں نے مذکور احمدی کے وکیل پر بہیمانہ تشدّد کیا اور احمدیت مخالف نعرے لگاتے رہے۔ کئی معروف اخباروں نے اس معاملے پر لکھا جن میں ڈان،نیا دوراورفرائیڈے ٹائمز شامل ہیں۔
اگلے روز جسٹس عمر سیال نے کہا کہ اول: مجھے امن عامہ کی صورتحال کو مدّنظر رکھتے ہوئے ضمانت کے متعلق فیصلے میں تاخیر کرنا پڑی۔
دوم:گذشتہ سماعت کےدوران انتہائی غیر پیشہ ورانہ بلکہ قابل نفرین رویہ جو کچھ وکلاء کی جانب سے دکھایا گیا اس پر سند ھ بار کونسل،سندھ بار ایسوسی ایشن،کراچی بار ایسوسی ایشن اور ملیربار ایسوسی ایشن کو کارروائی کرنی چاہیے۔ ایسے لوگ اپنے نام کے ساتھ کیسے ایڈووکیٹ لکھ سکتے ہیں۔یہ عدالت کی عظمت اور وقار پر ایک سیاہ دھبہ ہیں۔
سوم: اس حکم کی ایک نقل سند ھ بار کونسل،سندھ بار ایسوسی ایشن،کراچی بار ایسوسی ایشن اور ملیربار ایسوسی ایشن کو بھیجی جائے تا کہ وہ ان کے خلاف مؤثر کارروائی کریں۔
چہارم:اس مقدمہ کی فائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھی جائے اور حفاظتی انتظام کو سخت کیا جائے۔ نیز صرف مقدمہ کے فریقین اور میڈیا کو اندر آنے کی اجازت دی جائے تا کہ انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کی جا سکے۔
یہ حکم نامہ ایک یادگار اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
۲۲؍مئی کو سماعت کے وقت دوبارہ مخالف وکیل اکٹھے ہوئے اوراندر گھسنے کی کوشش کی لیکن ان کو روک دیا گیا۔اس پر وہ باہر سے احمدیت مخالف نعرے لگانے لگے تا کہ جج کو دھمکایا جا سکے لیکن جج نے ضمانت منظور کر لی۔
۲۷؍ مئی کو موصوف کی رہائی ہونی تھی لیکن ان پر۳۰ سال قبل ۲۰؍ اکتوبر۱۹۹۲ء کو تھانہ شہداد پور ضلع سانگھڑ میں ’’السلام علیکم ‘‘کہنے پر مقدمہ درج کیا گیاتھا۔مخالفین وہاں پہنچے اور موصوف کے خلاف اس مقدمہ میں طلبی کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ شہداد پور کے مجسٹریٹ نے ان کو اس مقدمہ میں طلب کیا جس پر ان کی رہائی نہ ہو سکی۔
تین احمدیوں کے خلاف ایک مقدمے میں مخالفین کے ایما پر توہین کی دفعات شامل
چک ٹی ڈی اے، ۱۸۵؍۔ ضلع بھکر۔ ۷؍ مئی ۲۰۲۳ء: تین احمدیوں کے خلاف توہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ایک احمدی کی موبائل فون کی دکان ہے۔ ایک غیر احمدی کی ان سے مالی معاملات پر تکرار ہوئی جو بعد میں ہاتھاپائی تک جا پہنچی۔اس شخص نے تھانے میں جا کر ان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اور کہا کہ لڑائی کے دوران انہوں نے اس کی داڑھی کو کھینچا ہے جو کہ سنت رسول کی توہین ہے اور چونکہ قادیانی ہے اس لیے ان کے خلاف توہین کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ اس پر ایس ایچ او نے باقی دفعات کےساتھ توہین کی دفعات بھی شامل کر دیں اور ان کو گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد مولوی،مقامی سیاسی شخصیات اور وکیل اکٹھے ہو گئے اور مطالبہ کیا کہ توہین کی بڑی دفعات شامل کی جائیں ورنہ وہ سخت احتجاج کریں گے۔ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث پولیس نے ان احمدی احباب کو عدالت میں پیش نہیں کیااور کہا کہ جب حالات بہتر ہوں گے تب ان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
سندھ میں ایک احمدیہ مسجد پر سفاکانہ حملہ
ڈھولن آباد،میر پور خاص،سندھ۔۴؍مئی ۲۰۲۳ء: میر پور خاص میں حملہ آورو ں کے ایک گروہ نے احمدیہ مسجد پر حملہ کر کے اس کی عمارت کو خاصہ نقصان پہنچایا۔ رواں سال کے پہلے پانچ مہینوں میں یہ نوواں حملہ ہے اور سندھ میں یہ چھٹا حملہ ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جہاں ہر ماہ ایک چھوٹی سی جماعت سے تعلق رکھنے والی اوسطاً دو مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تقریباً ایک سو پچاس کے قریب حملہ آور رات نو بجے کے بعد آئے اور سیڑھی لگا کر مسجد کی چھت پر چڑھ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے مسجد کے چاروں مینار شہید کر دیے اور محراب کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں واقع ہے۔
باوجود کوشش کے یہ لوگ مسجد کے صدر دروازے سے اندر تو داخل نہ ہو سکے لیکن انہوں نے وہاں پر احمدیوں کے مال واسباب کو نذر آتش کر دیا جن میں کپڑے اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
یہ مسجد ۱۹۸۰ء میں تعمیر کی گئی تھی اور فضل عمر ہسپتال کے ساتھ ہی تھی جس کی بنیاد ڈاکٹر عبدالمنّان صدیقی شہید نے رکھی تھی۔ موصوف ایک بہت ہی دوستانہ رویہ کے مالک تھے اور انہیں ۲۰۰۸ء میں ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں احمدیت مخالف نشریات کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔
ان کی شہادت کے بعد کئی احمدی خاندان شہر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے تھےاور گذشتہ سال ہی احمدیوں نے اس مسجد میں نماز پڑھنی شروع کی تھی۔
حملے کے بعد پولیس نے حملہ آوروں کو منتشر کردیا۔جماعت احمدیہ کے ترجمان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ احمدیہ مساجد پر حملے ان کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔قریباً ا یک سو پچاس شدت پسندوں کا ڈھولن آباد میں مسجد پر حملہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پولیس حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے گریزاں ہے۔حکومتی اداروں سے اس قسم کے رویے کی امید نہیں کی جاتی۔ مزید برآں حکومتی ادارے خود ایک چھوٹی جماعت کو نشانہ بنا رہے ہیں اور بدقسمتی سے وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے اور مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کر رہے۔
ترجمان نے اس واقعے کی ویڈیو بھی ٹوئٹر پر نشر کی۔ اس کے بعد جماعت کے اراکین کی پولیس سے ملاقات ہوئی اور ان کو مقدمہ درج کرنے کےلیے کہا گیا۔ پولیس نے بہت زیادہ لیت و لعل کے بعد حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
واضح رہے کہ احمد جان سرہندی نامی ایک گروہ بھی جماعت کے خلاف صوبہ سندھ میں انتہائی سرگرم ہے۔
٭…٭…٭