بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۶۶)
٭… LGBT کے متعلق اسلامی نُقطۂ نظر کیا ہے؟
٭…غیر مسلم، کافر اور مشرک کے لیے رحم طلب کرنا یا اس کے لیے استغفار کرنے کے بارے میں راہنمائی
سوال: کیرالہ انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ بہت سے لوگ LGBT کے متعلق اسلامی عقیدہ پوچھتے ہیں۔ اس تحریک میں شامل ہونے والوں کا بھی بعض دفعہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔تفصیلی جواب درکار ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی لیے فرمایا رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔(آل عمران:۱۹۲) یعنی اے ہمارے رب ! تو نے کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
پس شادی کے بعد مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کا بھی ایک مقصد ہے، جو عفت و پاکدامنی، حفظان صحت،بقائے نسل انسانی اور حصول مودت و سکینت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسمانی اعضاء بھی ایک خاص مقصد کے لیے عطا فرمائے ہیں۔ کھانا کھانے کے لیے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی اس منہ کے ذریعہ گند بلا اور ریت مٹی کھانے لگ جائے تو اسے عقلمند تو نہیں کہا جا سکتا۔
ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز وغیرہ اڑانے کے لیے ایوی ایشن کے اصول و ضوابط بنے ہوئے ہیں اور گاڑی چلانے کے لیے ٹریفک کے قوانین موجود ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص سوچے سمجھے بغیر اور کسی قانون کی پابندی کیے بغیر جہاز اڑانے کی کوشش کرےیا اسے سڑکوں پر دوڑانا شروع کر دے۔ اسی طرح کوئی ٹریفک کے قوانین کی پابندی کیے بغیر گاڑی سڑک پر لے آئے۔ پھر دنیا کے سب ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں آنے جانے کے لیےImmigration کے قوانین بنائے ہوئے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص ان قوانین کی پابندی کیے بغیر کسی بھی ملک میں داخل ہو جائے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا ہے۔ اگر انسان ان قوانین کو توڑے گا تو وہ یقیناً خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا۔
مذہبی تعلیمات کے مطابق ہم جنس پرستی چونکہ قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے، اس لیے پھر اس کے نتیجہ میں برائیاں اور بیماریاں پھیلتی ہیں اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ہم جنس پرست لوگ ایڈز وغیرہ کی بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جانور بھی اپنی بقائے نسل کے لیے اپنے جوڑے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں۔ اس کے مقابل پر انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کہہ کر ساری دنیا کی مخلوق پر ایک فضیلت عطا فرمائی ہے اگر وہ کسی ایسے طریق پر اپنے جنسی جذبات کا اظہار کرے جس کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو فعل اس کی بقائے نسل کا بھی موجب نہ ہو تو پھر وہ اشرف المخلوقات تو کیاایک عام انسان بلکہ جانوروں سے بھی نچلے درجہ پر چلا جاتا ہے۔
انسان اگر عقل سے کام لے تو اسے سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے جنسی اعضاء بھی خاص مقصد کے لیے بنائے ہیں۔لیکن ہم جنس پرستی کے شکار لوگ صرف شہوت کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر ایک طرف وہ اس برائی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بھی ہو، جس کے لیے پھر وہ دوسروں کے بچوں کو Adopt کرتے ہیں۔
اصل میں تو یہ سب دجالی چالیں ہیں جن کے ذریعہ دجال انسان کو اس کی پیدائش کے اصل مقصد سے دور ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ ان شیطانی کاموں سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انسان کو خدا اور مذہب سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طریقہ سے انسان کا خدا تعالیٰ پر اعتماد ختم ہو جائے۔
ہم جنس پرستی نہ کوئی جسمانی بیماری ہے اور نہ ہی یہ پیدائشی طور پر کسی انسان میں ودیعت کی گئی ہے۔ اس برائی کے شکار لوگوں میں سے اکثر کو بچپن میں غلط قسم کی فلمیں وغیرہ دیکھ کر یہ گندی عادت پڑ جاتی ہے اور کچھ معاشرہ بھی انہیں خراب کر رہا ہوتا ہے۔اسی طرح جب سکولوں میں ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں تو اس سے بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ Frustrationپیدا ہوتی ہے اور بعض بچے اور نوجوان اس برائی میں پڑ جاتے ہیں۔
دنیا میں توچوری چکاری کرنے والے اور لوٹ گھسوٹ کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ جو بعض اوقات والدین کی غلط تربیت یا معاشرہ کی بُری صحبت کی وجہ سے ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ یہ کہنا شروع کر دیں کہ ان میں یہ برائیاں قدرت نے پیدائشی طور پر رکھ دی ہیں تو کیا ان کا یہ کہنا درست اور بجا ہو گا؟ ہر گز ان کا یہ جواب درست اور قابل قبول نہیں ہو گا۔پس یہی حال ہم جنس پرستی میں مبتلا لوگوں کا بھی ہے۔
باقی جہاں تکTransgender کی کسی ایسی صورت کا تعلق ہے جس میں کوئی بچہ پیدائشی طور پر کسی جنسی نقص میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ بھی اسی قسم کی ایک بیماری ہے جس طرح کوئی بچہ پیدائشی اندھا یا پیدائشی بہرہ پیدا ہوتا ہےیا پیدائشی طور پر کسی بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ اس صورت میں جس طرح ہم دوسری بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں، اگراس بیماری میں مبتلا شخص ایسی حالت میں ہے کہ اس کا علاج ہو سکے تو اس کا بھی علاج ہونا چاہیے۔ ورنہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔
جہاں تک ہم جنس پرستی کا سوال ہے توان برائیوں یا بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو ہم اس طرح بُرا نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے سے دور کرنے کے لیے دھتکار دیں۔ ہاں یہ فعل جسے اللہ تعالیٰ نے بُرا کہا ہے وہ ہمارے نزدیک بھی بہرحال بُرا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس بُرائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو سزابھی دی تھی۔لہٰذا یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی ہزار سال پہلے ایک قوم کو اس بُرائی کی وجہ سے سزا دی ہو لیکن آجکل لوگ وہی برائی کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں سزا نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریقے ہیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس معاملہ میں سزا بھی دی تھی۔ اب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ ایسے لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ لیکن ہماری ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کوان بُرے کاموں میں پڑنے سے بچائیں کیونکہ ہم مذہبی لحاظ سے اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں۔
سوال: الجزائر سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کسی غیر مسلم،کافر اور مشرک کے لیے رحم طلب کرنا یا اس کے لیے استغفار کرنا ایک ہی چیز ہے یا ان دونوں باتوں میں فرق ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۸؍ ستمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: کسی کے لیے رحم کے جذبات رکھنا بالکل اَور چیز ہے اور کسی کے لیے استغفار کرنا اَور بات ہے۔رحم کا حکم تو عام ہے،جس کا مطلب ہے کہ کسی سے ہمدردی اور رحم کا سلوک کرنا اور کسی بھی قسم کی زیادتی اس پر نہ کرنا، اور اس کی بھلائی کے لیے ہر دم کوشاں رہنا۔ رحم کے اسی جذبہ کے تحت انبیاء اور مرسلین لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنی جان تک ہلاک کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، جس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی ذات والا صفات کے متعلق قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔ (سورۃ الشعراء:۴)یعنی کیا تو اپنی جان کو اس لیے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبیاء کے اس جذبہ ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ہر ایک نبی کی یہ مراد تھی کہ تمام کفار ان کے زمانہ کے جو ان کی مخالفت پر کھڑے تھے مسلمان ہو جائیں۔ مگر یہ مراد ان کی پوری نہ ہوئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔(الشعراء:۴)یعنی کیا تو اس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دےگا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوزوگداز سے دعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرتﷺ اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لاپروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام)! جس قدر تو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوزوگداز اور اپنی روح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہے، تیری دعاؤں کے پُر تاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپروا اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دعا قبول نہیں ہو گی۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۲۶)
حضورﷺ کا یہ جذبۂ رحم جہاں بنی نوع انسان کی روحانی ہدایت کے لیے موجزن تھا وہاں دنیاوی معاملات میں بھی آپ نے ہر کس و ناکس کے ساتھ رحم اور ہمدردی کابہترین برتاؤ فرمایا۔ نیز اپنے متبعین کو بھی دوسروں کے ساتھ رحم اور ہمدردی کا سلوک کرنے کی ہی تعلیم دی۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا لَا يَرْحَمُ اللّٰهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ(صحیح بخاری کتاب التوحیدبَاب قَوْلِ اللّٰهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى)یعنی جوشخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ اور اس رحم میں انسان اور جانور، مسلمان اور کافر، دوست اور دشمن، غلام اور آزاد سب شامل ہیں۔ یہ اسلام کی رحم ہی کی تعلیم ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جنگ میں جب دشمن مارے جائیں تو ان دشمنوں کی نعشوں کا مثلہ نہ کرو۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی بَاب قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ)
جہاں تک استغفار کرنے کا تعلق ہے تو لفظ استغفار کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا کہ وہ ہر کمزوری اور برائی اور گناہ کی حالت کو اپنے فضل سے ڈھانپ لے۔ استغفار انسان اپنے لیے بھی کرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے نبیوں اور مرسلین کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے اور ان لوگوں کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے جن سے گناہ اور غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح استغفار کا دائرہ اس دنیا پر بھی محیط ہے اور اخروی زندگی میں بھی اس کے ثمرات ظاہر ہوتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام استغفارکے مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃ العین خدا سےعلیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا۔ کیونکہ غَفْر جس سے استغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیّت کی چادر میں لے کر اپنی قُدّوسیّت میں سے حصہ دے یا اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے ننگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے۔ اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۷،۳۴۶)
استغفار کے اسی مضمون کو ایک اور انداز میں بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:خدا کے نبیوں اور رسولوں میں جو ایک قوت جذب اور کشش پائی جاتی ہے اور ہزارہا لوگ ان کی طرف کھینچے جاتے اور ان سے محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنی جا ن بھی اُن پر فدا کرنا چاہتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی اُن کے دل میں ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ماں سے بھی زیادہ انسانوں سے پیار کرتے ہیں اور اپنے تئیں دکھ اور درد میں ڈال کر بھی اُن کے آرام کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ آخر ان کی سچی کشش سعید دلوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتی ہے پھر جبکہ انسان باوجودیکہ وہ عالم الغیب نہیں دوسرے شخص کی مخفی محبت پر اطلاع پا لیتا ہے تو پھر کیونکر خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے کسی کی خالص محبت سے بےخبر رہ سکتا ہے۔ محبت عجیب چیز ہے اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور معصیت کے شعلہ کو بھسم کر دیتی ہے۔سچی اور ذاتی اور کامل محبت کے ساتھ عذاب جمع ہو ہی نہیں سکتا۔ اور سچی محبت کے علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات منقوش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کے قطع تعلق کا اُس کو نہایت خوف ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قصور کے ساتھ اپنے تئیں ہلاک شدہ سمجھتا ہے اور اپنے محبوب کی مخالفت کو اپنے لئے ایک زہر خیال کرتا ہے اور نیز اپنے محبوب کے وصال کے پانے کے لئے نہایت بے تاب رہتا ہے اور بُعد اور دُوری کے صدمہ سے ایسا گداز ہوتا ہے کہ بس مر ہی جاتا ہے اس لئے وہ صرف ان باتوں کو گناہ نہیں سمجھتا کہ جوعوام سمجھتے ہیں کہ قتل نہ کر، خون نہ کر، زنانہ کر، چوری نہ کر، جھوٹی گواہی نہ دے بلکہ وہ ایک ادنیٰ غفلت کو اور ادنیٰ التفات کو جو خدا کو چھوڑ کر غیر کی طرف کی جائے ایک کبیرہ گناہ خیال کرتا ہے۔ اس لئے اپنے محبوب ازلی کی جناب میں دوام استغفار اُس کا ورد ہوتا ہے۔ اور چونکہ اِس بات پر اُس کی فطرت راضی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وقت بھی خدا تعالیٰ سے الگ رہے اس لئے بشریت کے تقاضا سے ایک ذرّہ غفلت بھی اگر صادر ہو تو اس کو ایک پہاڑ کی طرح گناہ سمجھتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ یہ محبت کا تقاضا ہے کہ ایک محب صادق کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اُس کا محبوب اس پر ناراض نہ ہو جائے اور چونکہ اس کے دل میں ایک پیاس لگا دی جاتی ہے کہ خدا کامل طور پر اس سے راضی ہو اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بھی کہے کہ میں تجھ سے راضی ہوں تب بھی وہ اس قدر پر صبر نہیں کر سکتا کیونکہ جیساکہ شراب کے دَور کے وقت ایک شراب پینے والا ہر دم ایک مرتبہ پی کر پھر دوسری مرتبہ مانگتا ہے۔ اِسی طرح جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعاً یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہردم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ورد رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے اور استغفار کے حقیقی معنے یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعفِ بشریت انسان سے صادر ہو سکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دُور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے اور مستور و مخفی رہے۔ پھر بعد اس کے استغفار کے معنے عام لوگوں کے لئے وسیع کیے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تاثیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے۔ پس نجات حقیقی کا سرچشمہ محبت ذاتی خدائے عزّوجلّ کی ہے جو عجزو نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۷۸ تا ۳۸۰)
باقی جہاں تک کسی کے لیے استغفار کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں بھی قرآن و سنت نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ ایسے مشرکین اور منافقین جن کے متعلق یہ واضح ہو جائے کہ وہ خدا کے دشمن اور یقیناً جہنمی ہیں ان کے لیے استغفار نہ کیا جائے(سورۃ التوبہ:۱۱۳)۔اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کے عدو اللہ ہونے کی خبر دی تو آپ اس کے لیے استغفارکرنے سے دست بردار ہو گئے۔ (سورۃ التوبہ:۱۱۴)
مدینہ کے منافقین کی شرارتوں اور ان کی طرف سے آنحضورﷺ اور مسلمانوں کو دی جانے والی تکالیف کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے لیے سخت انذار فرمایا اور انہیں نافرمان قرار دیتے ہوئے جہنمی قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو چونکہ ان کے لیے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا تھا (سورۃالتوبہ:۷۴تا۸۰)۔اس لیے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی وفات پر حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اس اختیار کی بنا پر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے لیے استغفار کیا۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو ان منافقین کی بھی نماز جنازہ پڑھنے اور ان کے لیے دعا کرنے سے حکماً منع فرمادیا۔(سورۃ التوبہ:۸۴)۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قَوْلِهِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ )
در اصل اسلام کی عفو کی تعلیم اپنے اندر ایک ایسی گہری حکمت رکھتی ہے جس سے پہلے مذاہب کی تعلیمات عاری تھیں۔لہٰذا اسلام اپنے ہر دشمن کے لیے جب تک کہ اس کے اصلاح پانے کی امید باقی ہو، ہدایت کی دعا کرنے اور اس کی تربیت کے لیے کوشش کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ جنگ احد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اورحضورﷺ بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دےدے کیونکہ وہ (میرے مقام اور اسلام کی) حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی فصل في حدب النبي صلى اللّٰه عليه وسلم على أمته ورأفته بهم۔ حدیث نمبر ۱۴۲۸)
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ(اسلام اور میرے مقام کی) لاعلمی کی وجہ سے اسلام کی مخالفت کر رہی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب أحادیث الانبیاء باب حدیث الغار۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر ۵۵۶۲ )
پس اسلام اپنے متبعین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل رحم کے جذبات سے پُر ہوں، ان کی ہدایت اورروحانی ترقی کے لیے ہر دم کوشش کرتے رہیں اور دنیاوی معاملات میں بھی ان سے ہمدردی کو اپنے پیش نظر رکھیں۔ اور سوائے ان مشرکوں، منافقوں اور خدا کے دشمنوں کے جن کے جہنمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مہر ثبت فرما دی ہو، باقی لوگوں کے لیے استغفار کرنے والے ہوں۔