میرے محبوب رسولؐ کی پیروی کرو اس کے اُسوہ کو اپناؤ تو میرے پیارے بن جاؤ گے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۰؍ اکتوبر۲۰۱۷ء)
آج ہم دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ فساد کی حالت مسلمان ممالک میں ہے۔ مسلمان گروہوں میں ہے۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر سرگرم ہیں۔ ہر ایک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تو پڑھتا ہے اور دوسرے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھنے والے کا خون کرتا ہے۔ اس کا حق مارتا ہے۔ کسی بھی ذریعہ سے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، کیا یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے جس پر یہ لوگ عمل کر رہے ہیں؟ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے جس کی یہ لوگ پیروی کر رہے ہیں؟ آجکل تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ دنیاداری غالب ہے۔ اگر مذہب کا نام بھی لیتے ہیں تو سیاست چمکانے کے لئے اور اپنے زُعم میں اپنی حکومتیں قائم کرنے کے لئے یا بچانے کے لئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ سنہری حروف میں لکھا جانے والا بیان ہے کہ ’’کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 305 حدیث 25816 مسند عائشۃؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)کہ آپ کی سیرت اور آپ کے معمولات کا پتہ کرنا ہے تو قرآن کریم آپ کی سیرت کی تفصیل ہے اسے پڑھو۔ اور یہ نمونے آپ نے اس لئے قائم فرمائے کہ آپ کو ماننے والے مومن اس پر عمل کریں۔ صرف نعرے لگانے کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ میرے سے حقیقی تعلق صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکہنے سے قائم نہیں ہو گا بلکہ میری محبت کو حاصل کرنا ہے تو پھر میرے محبوب رسول کی پیروی کرو۔ اس کے اُسوہ کو اپناؤ تو میرے پیارے بن جاؤ گے۔ تمہیں وہ مقام مل جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی قربت کا مقام ہے ورنہ تمہارے نعرے کھوکھلے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (آل عمران:32) کہ تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
کیا اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو آجکل کے مسلمانوں کا ہے۔ علماء جن کو عامّۃالمسلمین عام طور پر اللہ تعالیٰ کا پیارا سمجھتے ہیں، اس کے قریب سمجھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ دنیا میں فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اب تو خود پاکستان میں بعض تجزیہ نگار اور کالم نویس اخباروں میں بھی لکھنے لگ گئے ہیں، دوسرے میڈیا پر بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ان نام نہاد علماء نے ایسی کر دی ہے۔ پس اس وقت مسلمان علماء کی عمومی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قرآن اور سنت کی حقیقت بتانے والا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بھیج دیا ہے۔ لیکن علماء نہ خود اس کی بات سننا چاہتے ہیں، نہ عوام کو سننے دیتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کے خلاف کفر کے فتوے دے کر ایک عمومی خوف و ہراس اور فتنہ و فساد کی صورت پیدا کر دی ہے۔
یہ الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہر روز لگتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ دنیاوی خواہشات کی تکمیل اور اپنی بڑائی کے لئے جماعت کا قیام کیا ہے۔
بہرحال ہم جانتے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی تجدید و تکمیل اشاعت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا۔ قرآن کریم کے علوم و معارف کا فہم وادراک آپ کے ذریعہ سے ہی ہمیں حاصل ہوا۔ آپؑ نے ہر موقع پر قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ چنانچہ اس آیت قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُکو مختلف مواقع پر مختلف زاویوں اور معانی کے ساتھ آپ نے پیش فرمایا اور یہی وہ باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاکر، اس کا پیارا بنا کر فتنہ و فساد کی حالت سے نکالنے والی بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لئے اپنی بقا کو قائم رکھنے کے لئے، اپنے ملکوں میں امن قائم رکھنے کے لئے، اسلام کی شان و شوکت کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں۔ نیک نتائج اس وقت قائم ہوں گے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی ہوگی ورنہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہکا نعرہ بھی کھوکھلا ہے۔
اس وقت مَیں نے اس آیت کی تشریح میں بعض اقتباسات لئے ہیں جو آپؑ نے فرمائے۔
ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حُبّ دنیا ہی ہوئی ہے۔ کیونکہ اگر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آ سکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کرکے ایک ہو جاتے۔ اب جبکہ حُبّ ِدنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جا سکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھاقُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُیعنی (کہو) اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’اب اس حُبُّ اللہ کی بجائے اور اِتّباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حُبُّ الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیادار تھے؟ کیا وہ (نعوذ باللہ) سود لیا کرتے تھے؟ یا فرائض اور احکامِ الٰہی کی بجاآوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ میں معاذ اللہ نفاق تھا، مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو! اِتّباع تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد8صفحہ348-349۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
…اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ حقیقی نیکی انسان کس طرح کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو انسان کس طرح حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے کس طرح فیضیاب ہوسکتاہے۔ اور آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ انعامات کس طرح ملے؟ آپ کے خلاف یہ فتوے دئیے جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے انحراف کرنے والے ہیں۔ آپ اسلام کی تعلیم سے ہی انحراف کرنے والے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:’’مَیں سچ کہتا ہوں (اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں ) کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں’’۔ (اعلیٰ درجہ کا جو تزکیہ نفس ہوتا ہے ایک مقام پر انسان پہنچتا ہے تبھی اللہ تعالیٰ سے انعامات و برکات ملتے ہیں۔ کشوف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ ہوتا ہے۔ فرمایا کہ)‘‘جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے: قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندہ دلیل’’ آپ فرماتے ہیں کہ‘‘مَیں ہوں’’۔ (ملفوظات جلد1صفحہ204۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اس زمانے میں مجھ سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اس لئے کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کھویا گیا۔ آپ کی پیروی کی اور اللہ تعالیٰ نے پھر محبت کا سلوک کیا۔