الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کا عشق رسول ؐ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ فوزیہ شمیم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ حضرت صاحبزادی نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو خداتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے بےحد محبت تھی۔ ایک دفعہ مَیں نے کہہ دیا کہ آجکل لوگوں نے رسولِ خدا ﷺ کی محبت کو بھی حد سے تجاوز کردیا ہے۔یہ سن کر آپؓ آبدیدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں: یوں نہ کہو بعض وقت رسول اللہ ﷺ کی محبت بھی خدا کے برابر لگنے لگتی ہے۔اس وقت مجھے پتا چلا کہ آنحضورﷺ کی محبت سے بھی آپؓ کتنی سرشار تھیں۔
………٭………٭………٭………
حضرت سیّدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ فوزیہ وسیم صاحبہ نے حضرت چھوٹی آپا (سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ) کا ذکرخیراپنی والدہ محترمہ انیس شمشاد صاحبہ کی یادوں کے حوالے سے کیا ہے۔
محترمہ انیس شمشاد صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ سب سے بہت محبت اور پیار سے پیش آتیں۔جب بھی کوئی اپنے مسائل کے بارے میں آپ کو بتاتا تو بہت غور سے سنتی تھیں اور پھر اس کی رازداری کا بھی مکمل خیال کرتیں۔ آپ کے پاس بہت زیادہ عورتیں ملنے کے لیے ا ٓتی تھیں۔ آپ تھکاوٹ کے باوجود کبھی کسی کو ملنے سے انکار نہیں کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ عورتیں وقت بےوقت آپ سے ملنے آجاتی ہیں۔مَیں اخبار میں آپ کے ملنے کے اوقات چھپوا دیتی ہوں۔ آپ نے بےساختہ فرمایا:نہیں!یہ ظلم نہ کرنا۔ مجھے حضرت مصلح موعودؓ یہ ذمہ داری سونپ کر گئے ہیں اور مَیں یہی کام کرتے ہوئے مرنا چاہتی ہوں۔
آپ اپنے ساتھ کام کرنے والی معاونات کا بہت خیال رکھتی تھیں اوربےحد مصروفیات کے باوجود سب کی خوشی و غمی میں شامل ہونے کی پوری کوشش کرتیں۔ایک دفعہ مَیں نے اپنی والدہ کی بیماری میں دعا کی درخواست اخبار میں شائع کروائی تو آپ پڑھ کر بہت خفا ہوئیں کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ اور بعد میں پھر باقاعدہ ان کا حال احوال پوچھتی رہیں۔
آپ بہت باپردہ خاتون تھیں۔سر سے لے کر پاؤں تک برقع ہوتا اور چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوتا۔ کھلا برقع پہنتی تھیں۔پردے کی تمام شرائط پوری کرتیں۔ ربوہ میں کسی جگہ سے گزر رہی ہوتیں تو آپ کا پردہ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی اپنا پردہ ٹھیک کرنے لگ جاتیں۔مجھے آپ کے ساتھ بہت سے جماعتی اور تبلیغی دورہ جات کی توفیق ملی۔ کئی میل تانگے پر اور کبھی پیدل بھی فاصلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ایسے ہی ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’حضرت مصلح موعودؓ فرماتے تھے کہ عورتوں کو گھر سے اکیلے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ کوئی بڑا لڑکا نہیں ہے تو کسی چھوٹے بچے کو ہی ساتھ لے لواور کچھ نہیں تو ضرورت کے وقت بچہ رو کر یا شور مچا کرلوگوں کو متوجہ کرسکتا ہے۔‘‘
احمدی عورتوں پر آپ کا بڑا احسان کتاب ’’اوڑھنی والیوں کے لیے پھول‘‘کی صورت میں ہے۔ اس میںحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے خواتین سے ارشاد فرمودہ خطابات جمع کیے گئے ہیں۔ خدا کے فضل سے اس تنظیم میں جو بنیادیں آپ بنا گئی ہیں وہ ہم پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔
۱۹۶۷ء میں مَیں نے ایم اے عربی کیا تو حضرت چھوٹی آپا نے مجھ کو بلاکر چھ اراکین پر مشتمل ایک گروپ میں شامل فرمادیا جس کا مقصد لجنہ اماءاللہ کی تاریخ مرتّب کرنا تھا۔ اُن دنوں ربوہ کے حالات بہت اچھے تھے۔ کسی قسم کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا تھا۔ہم سب لڑکیاں صبح فجر کی نماز کے بعد آپ کے پاس چلی جاتیں اور کئی دفعہ رات کے دو تین ادھر ہی بج جاتے۔ ہمارے آنے جانے کے لیے انہوں نے تانگہ لگوا کر دیا تھا۔ ہماری کوشش تھی کہ لجنہ کے پچاس سال پورے ہونے پر’’تاریخ لجنہ‘‘کی تین جلدیں شائع کی جائیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے دن رات ایک کرکے ہمارے ساتھ کام کیا۔قادیان سے اخبار منگوائے۔ ہر چیز خود چیک کرتی تھیں۔خاص طور پہ حوالہ جات کو ترتیب سے لکھواتی تھیں۔آپ ہر کام بہت تیزی سے کرتی تھیں۔ہم نے آ پ سے بہت کچھ سیکھا بلکہ جماعتی لحاظ سے ا ٓپ نے ہی ہمیں چلنا سکھایا۔ اُن دنوں دوپہر کا کھانا آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس دوران آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بہت سی باتیں بتاتیںاور ہمیشہ ہم سب کے لیے دعاگو رہتیں۔
ایک مرتبہ ہم لڑکیاںقصر خلافت کے باغ میں جھولا جھول رہی تھیں کہ اچانک وہاں چھوٹی آپا بھی تشریف لے آئیں۔ میرے بہت اصرار پر آپ جھولے پہ بیٹھ تو گئیں مگر پھر فوراً ہی اتر گئیں۔ دراصل آپ حتی المقدور کسی کا دل نہیں توڑتی تھیں۔ چنانچہ میری بڑی بہن کے ہاں تیسری بیٹی پیدا ہوئی تومَیں نے آپ سے درخواست کی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے نام رکھوا دیں۔آپ نے اسی وقت اپنے نواسے کو بھیجا کہ حضور سے نام تجویز فرمانے کے لیے درخواست کرو۔ وہ گیا۔ اُس وقت حضورؒ سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے۔ حضورؒ نے ایک پرچی پر نام لکھ کر اُسے دے دیا۔
حضرت چھوٹی آپا ہم سے بہت پیار سے کام لیتیں اور اس قدر حوصلہ افزائی کرتیں کہ مزید کام کرنے کا شوق پیدا ہوتا۔ پچاس سالہ جشن تشکرکی تقریب ہوئی تو تمام صدرات جو بیس سال سے کام کر رہی تھیںان کو سندات خوشنودی دی جا رہی تھیں۔ آپ نے ہم سب لڑکیوں کو بھی اسناد دیں تو بعض صدرات نے اعتراض کیا۔ اس پر آپ نے فرمایاکہ ان لڑکیوں نے تاریخ لجنہ لکھ کر وہ کام کیا ہے جو آپ لوگ بیس سالوں میں نہیں کرسکی تھیں۔ جشن تشکر کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ہاتھوں سے آپ کوبھی آپ کی خدمات کی وجہ سے سند ملی۔ حضورؒ نے آپ کو سند دیتے ہوئے ہاتھ بھی ملایا اور فرمایا: یہ میری ماں ہیں اس لیے ہاتھ ملا رہا ہوںورنہ غیرعورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے۔
آپ گائوں گاؤں دورے کرکے تجنید ترتیب دیتیں۔ مصروفیت کے باوجود درس مسجد مبارک میںباقاعدہ سننے جاتیں اور نوٹس بھی بناتیں۔ خود بھی ایک بہترین مقررہ تھیں۔بڑے خوبصورت انداز میں بات کرتیں۔ جلسوں اور اجتماعات پر ہونے والے حضور کے خطابات بھی غور سے سنتی تھیں اور پھر اپنی معاونات سے پوچھتیں کہ آج حضور نے کیا فرمایا تھا؟
خدا کے فضل سے آپ کی دعاؤں میں بہت تاثیر تھی۔ میری ہمشیرہ فوزیہ ارشد صاحبہ بتاتی ہیںکہ ایک مرتبہ سالانہ گیمز میں والی بال میں ہمارا اور لاہور کی ٹیم کا مقابلہ تھا۔ہم اپنا بال چھوٹی آپا کے پاس لے کے گئیں کہ ہمارے لیے دعا کرکے یہ بال ہمیں دے دیں۔ آپ نے وہ بال ہم سے لے کے ہمارے لیے دعا کی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم وہ میچ جیت گئے۔ بلکہ اس کے بعد بھی ہم نے اس بال سے جو میچ کھیلا، خدا کے فضل سے ہمیشہ جیتے۔
آپ بہت ذمہ داری سے ہر کام مکمل کرواتی تھیں۔ جلسوں اور اجتماعات میںاپنا بستر بھی وہیں لگوا لیتیںاور سب کام اپنی نگرانی میں ختم کروا کے، اگلے دن دینے والی ہدایات نوٹ کرتیں تو اس کام میں اکثر رات کے دو تین بج جاتے۔جب تک ڈیوٹی والی ممبرات کو خدام کی نگرانی میں خیریت سے گھروں میں بھجوا نہ دیتیںتب تک وہیں رہتیں۔
آپ کے مزاج میں انتہائی سادگی تھی یہاں تک کہ آپ کی ملازمائیں بھی آپ سے اپنی بات منوا لیتی تھیں۔ایک دفعہ آپ نے اپنی دو ملازماؤں کو کاٹن کے برقعے سلوا کر دیے۔مگر وہ کہنے لگیں کہ ہم نے کاٹن کے نہیں لینے، ہمیں ریشمی برقعے سلواکر دیں۔آپ اُن پر ناراض ہونے کی بجائے فرمانے لگیں کہ اچھا! بعد میں ریشمی برقعے بھی لے دوں گی۔
میری شادی میں آپ شامل نہیں ہو سکی تھیں۔بعد میں جب آپ سے ملاقات ہوئی تو اُس وقت میری ساس صاحبہ اور نند بھی ساتھ تھیں۔آپ سب سے بڑی محبت سے ملیں۔مجھے گلے لگایا اور ہمیں فرمایا کہ مَیں جلسے کی مصروفیت کی وجہ سے شادی میں شامل نہیں ہو سکی لیکن یہ میری بیٹیوں کی طرح ہے اس کا خیال رکھنااس کو تکلیف دینا گویا مجھے تکلیف دینا ہے۔یہ سن کرخوشی اور محبت سے میرا دل بھر آیا۔
شادی کے بعدمَیں لاہور آگئی تو حضرت چھوٹی آپا سے رابطہ خط و کتابت کے ذریعہ جاری رہا۔میرے خط کا تیسرے دن ہی چھوٹی آپا کا ہاتھ سے لکھا ہوا جواب آ جاتا تھا۔ دراصل آپ کو جو بھی خط لکھتاآپ کی کوشش یہی ہوتی کہ خود ہاتھ سے لکھ کر جلدی اس کو جواب بھیج دیں۔
ایک دفعہ آپ لاہور تشریف لائیں۔ مَیں نے مصافحہ کیا تو بڑی محبت سے ملیں۔بچوں کے متعلق پوچھا پھر فرمایا: بس اب جماعت کی خدمت کرو۔ چنانچہ یہ آپ کی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ مجھے خدمتِ دین کی توفیق ملتی رہی ہے۔
۱۹۹۹ء میں چھوٹی آپا کی وفات ہوئی تو مجھے یہی احساس ہوا کہ جیسے میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی ہے۔
………٭………٭………٭………
چھوٹی آپا حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ اُم البشاریٰ احمد صاحبہ نے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (المعروف چھوٹی آپا)کا اختصار سے ذکرخیر اپنے مشاہدات کے حوالے سے کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ بچپن میں جب ہم اپنی امّی مرحومہ کے ہمراہ حضرت سیّدہ چھوٹی آپا صاحبہ کو ملنے قصرِخلافت جا یا کرتے تھے تو آپ بہت خوش ہوتیں، امّی کے ساتھ باتیں کرتیں اور ہم بچو ں کو کھانے پینے کی چیزیں د یتیں۔ ربوہ کے جلسوں اور اجتماعات پر آپ کی تقاریر سننے کا بھی موقع ملا۔ ہمیشہ بہت علمی اور نصا ئح سے بھر پور تقریر ہوتی۔
آپ میری امّی کو ہمیشہ جماعتی کام کرنے کی تلقین کیا کرتیں مگر امّی کہتیں ابھی بچے چھوٹے ہیں۔ لیکن پھر ایک دفعہ امّی نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امّاں جانؓ جماعت کا کام کرنے کو کہہ رہی ہیں۔ امّی نے وہ خواب آپا جان کو سنایا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا کہ جماعت کا کام کرو بچے چھوٹے ہیں تو کیا ہوا۔ پھر امّی نے کام شروع کیا اور بفضل تعالیٰ تمام زندگی خوش اسلوبی سے کیا۔ الحمدللہ
حضرت آپا جان نے والدہ صاحبہ کے علاوہ ہم بہن بھائیوں کا بھی بہت خیال رکھا۔ امّی کی وفات کے بعد ایک مرتبہ آپ نے ہماری خالہ محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ کی فیملی کی اُن کے بیٹے کی شادی کے بعد دعوت کی تو ہمیں بھی مدعو کیا۔
ربوہ جامعہ نصرت گرلز کالج میں لجنہ کی تربیتی کلاسیں ہوا کرتی تھیں،مَیں بھی شامل ہوا کرتی۔ آپا جان ہمیں باجماعت نماز پڑھاتی تھیں اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے ہمیشہ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن تین مرتبہ دہراتی تھیں۔
میری شادی ہوئی تو آپ تشریف لائیں ۔ پھر شادی کے بعد مَیں حیدر آباد آگئی ا و ر آپ کے ساتھ خط و کتا بت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک بار میں نے خواب میں اپنی فوت شدہ خالہ کو دیکھا جو مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ تم جلد آجائو گی اللہ تعالیٰ کے پاس۔ مَیں پوچھتی ہوں کہ کب ؟تو وہ کہتی ہیں کہ بارہ ربیع الاوّل کو۔صبح اٹھ کر مَیں بہت پریشان ہوئی کیونکہ بارہ ربیع الاوّل کو ہی میرے بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ اسی پریشانی میں مَیں نے آپا جان کی خدمت میں خط لکھا۔ آپ نے جواباً تحریر فرمایا کہ ’’خواب کی تعبیر بہت اچھی ہے۔اس کی ظاہری تعبیر پر نہ جائیں،صدقہ دے دیں‘‘۔پھر بچہ بھی صحت مند پیدا ہوا اور مَیں بھی خیریت سے رہی۔الحمدللہ
اسی طرح ایک دفعہ میں نے آپا جان سے پوچھا کہ اگر کسی عورت کا خاوند بچوں کی وجہ سے جماعتی کام کرنے سے منع کرے توکیا کرناچاہیے؟ آپ نے فرمایاکہ بچوں کی تربیت کرنا بھی تو اعلیٰ دینی فرائض میں شامل ہے۔
سبحان اللہ کتنا اچھا جواب دیا کہ دینی فریضہ بھی ہو، خاوند کی فرمانبرداری بھی ہو اور بچوں کی تربیت بھی۔
………٭………٭………٭………