اے قبلہٴ اول کی زمیں، ارضِ فلسطین
صدیوں کی ہے تاریخ ترے خون سے رنگین
اقوامِ امم چپ ہیں، حالات ہیں سنگین
خاموش ہیں، لب بستہ ہیں شاہان و سلاطین
برپاہے ترے سینے پہ اِک رقصِ شیاطین
افسردہ ہے، محزون ہے پھر ارضِ فلسطین
کہنے کو یہ اُمت ہے، مگر اُمت مرحوم
ہمدردی و غمخواری کے اوصاف ہیں معدوم
گفتار کے غازی ہیں تو کردار سے محروم
اغیار کے ہاتھوں میں ہیں لاچار یہ محکوم
درماندہ ہیں مجبور ہیں بے حال ہیں مسکین
افسردہ ہے، محزون ہے پھر ارضِ فلسطین
ہیں تشنہ لب و خاک بسر ، ظلم کے مارے
بیٹھے ہوئے چپ چاپ بس اللہ کے سہارے
محصور ہیں عرصہ سے سمندر کے کنارے
سہمے ہوئے معصوم ترے راج دلارے
ظالم کی مگر باقی ہے جذبات کی تسکین
افسردہ ہے، محزون ہے پھر ارضِ فلسطین
بارود فضاؤں میں، زمیں بوس مکاں ہیں
ہر چند کہ کہتے ہیں عدُو، اب بھی نہاں ہیں
ظالم کے نشانہ پہ مگر پیر و جواں ہیں
جو امن کے خوگر تھے، وہ سب آج کہاں ہیں
انصاف کے ایوانوں میں ہے عدل کی توہین
افسردہ ہے، محزون ہے پھر ارضِ فلسطین
ہے ظلم کا بازار گرم، وقتِ دعا ہے
بے گوروکفن لاشے ہیں، مغموم فضا ہے
جو ظلم بھی ممکن تھا وہ سب ان پہ روا ہے
دُکھ درد کے ماروں کی فقط آہ و بکا ہے
ہے چاک مرا سینہ و دل، درد سے غمگین
افسردہ ہے، محزون ہے پھر ارضِ فلسطین
(انیس رئیس۔ جاپان)